انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۵۔اسود بن یزیدؒ نام ونسب اسود نام ابو عمر کنیت والد کا نام یزید تھا، نسب نامہ یہ ہے،اسود بن یزید بن قیس بن عبداللہ بن مالک بن علقمہ بن سلامان بن کہیل بن بکر بن عوف بن نخع نخعی۔ فضل وکمال فضل وکمال اورزہد وعبادت کے لحاظ سے اسود کوفہ کے ممتاز ترین علماء میں تھے،حافظ ذہبی انہیں امام فقیہ،زاہد وعابد اورکوفہ کا عالم لکھتے تھے (تذکرہ الحفاظ :۱/۴۳) امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کی توثیق وجلالت پر سب کا اتفاق ہے۔ (تہذیب الاسماء،جلد۱،قسم ۱:۱۲۲) حدیث حدیث کے ممتاز حفاظ میں تھے،حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ،حضرت علیؓ، عبداللہ بن مسعودؓ حضرت عائشہ صدیقہؓ،حذیفہؓ،ابو محذورہؓ اور ابو موسیٰ ؓ جیسے اکابر کی صحبت اوران سے استفادہ کا موقع ملا تھا (تہذیب التہذیب:۱/۳۴۲) حضرت عمرؓ اورعائشہؓ کے ساتھ خصوصیت کے ساتھ زیادہ تعلقات تھے حضرت عمرؓ کے ساتھ زیادہ رہتے تھے (ابن سعد :۶/۴۸) حضرت عائشہؓ سے عقیدت مندانہ تعلقات تھے (ایضاً) مذکورہ بالا تمام بزرگوں سے انہوں نے روایتیں کی ہیں۔ تلامذہ ان کی ذات سے ان کا پورا گھرانا دولتِ علم سے مالا مال ہوگیا تھا،ان کے بھانجے ابراہیم نخعی بھائی عبدالرحمن اورچچرے بھائی علقمہ جو آسمانِ علم کے روشن ستارے تھے،ان ہی کے فیض یافتہ تھے ان کے علاوہ دوسرے لوگوں میں عمارہ بن عمیر،ابو اسحٰق سبیعی،ابوبردہ بن ابو موسیٰ محارب بن وثارا اوراشعث بن ابی الشثاء وغیرہ نے ان سے سماع حدیث کیا تھا۔ (تہذیب التہذیب:۱/۳۴۲) فقہ فقہ میں بھی درک حاصل تھا،ابن حبان کا بیان ہے کہ وہ فقیہ تھے (ایضاً) حافظ ذہبی اورابن حجر وغیرہ سب آپ کے ثقفہ کے معترف ہیں۔ عبادت وریاضت علم سے بڑھ کر آپ کا عمل یعنی زہد وتقویٰ اور عبادت وریاضت تھی ،تابعین کی جماعت میں آٹھ بزرگ زہد وعبادت میں زیادہ ممتاز اورمشہور تھے ان میں ایک نام اسود کا ہے۔حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ عبادت میں وہ بڑے درجہ پر تھے۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۴۳) نماز نماز مشغلہ زندگی تھا، سات سونوافل روزانہ پڑہتے تھے (ایضاً) نماز ہمیشہ اول وقت ادا کرتے تھے،اس میں اس قدر اہتمام تھا کہ کسی کام اورکسی حالت میں بھی ہوتے نماز کا وقت آتے ہی کام چھوڑ کر فوراً نماز ادا کرتے ،ان کے سفر کے ہمراہیوں کا بیان ہے کہ سفر کی حالت میں بھی خواہ کیسےہی دشوار گذار راستے سے جارہے ہوں ،نماز کا وقت آنے کے ساتھ سواری روک کر نمازپڑھتے،تب آگے بڑھتے۔ (ابن سعد:۶/۴۷) روزے روزوں سے بھی یہی شغف وانہماک تھا، قریب قریب ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے، ایسے سخت موسم میں بھی روزہ نہ چھوٹتا،جب سرخ اونٹ جیسا قوی اورگرمی برداشت کرنے والا جانور گرمی کی شدت سے بے حال ہوجاتا ہے،سفر میں بھی روزوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا،بعض اوقات سفر کی تکالیف اورپیاس کی شدت سے رنگ بدل جاتا تھااورزبان سوکھ کر کانٹا ہوجاتی تھی؛لیکن روزہ نہ چھوٹتا تھااس عبادت شاقہ کی وجہ سے ایک آنکھ جاتی رہی تھی اگر لوگ کہتے کہ جسم کو اتنی تکلیف نہ دیجئے تو جواب دیتے تکلیف نہیں ؛بلکہ راحت پہنچانا چاہتا ہوں۔ (ایضاً:۴۸) حج حج کے ذوق کا یہی حال تھا،حجوں کی تعداد سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کا شاید کوئی سال حج سے ناغہ نہیں ہوا، باختلاف روایت آپ کے حجوں اورعمروں کی مجموعی تعداد ستر سے اسی تک ہے،کبھی کبھی ولولۂ شوق میں کوفہ ہی سے احرام باندھ کر لبیک غفار الذنوب اورلبیک وحنا نیک کی صدا لگاتے ہوئے روانہ ہوتے تھے،لیکن یہ دائمی عمل نہ تھا؛بلکہ مختلف اوقات میں مختلف مقامات میں احرام باندھنے کا ثبوت ملتا ہے،مکہ میں عموماً شب کے وقت داخل ہوتے تھے آپ کو طواف کوئے محبوب سے ایسا والہانہ شغف تھا،اوراس بارہ میں اس قدر متشدد تھے کہ جو شخص حج کی استطاعت رکھتے ہوئے حج نہیں کرتا تھا اس کے جنازہ کی نماز نہ پڑھتے تھے۔ (ابن سعد:۶/۴۷،۴۸) تلاوت قرآن قرآن کی تلاوت کا ہمیشہ معمول تھا،رمضان کے مہینہ میں قرآن کا ورد بہت بڑھ جاتا تھا،مغرب وعشا کے درمیان سورہتے تھے،اس کے بعد اٹھ کر ساری رات قرآن پڑھتے تھے اور دوراتوں میں ایک قرآن ختم کردیتے تھے۔ (ایضاً) اختلاف مسلک اور اتحاد ورابطہ آج اونی سے اختلاف مسلک پر ہر قسم کے معاشری اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں،ان بزرگوں کا یہ اسوہ لائقِ تقلید ہے کہ اختلافِ مسلک کے باوجود ان میں باہم روابط قائم رہتے تھے،اسود حضرت عمرؓ کی خدمت میں زیادہ رہنے کی وجہ سے ان کے متبع تھے اور علقمہ عبداللہ بن مسعودؓ کے اصحاب میں تھے،لیکن جب دونوں میں ملاقات ہوتی تھی تو اونیٰ خلاف بھی نہ ہوتا تھا۔ (ایضاً) وفات ۷۵ھ میں وفات پائی،معمولات کی پابندی میں یہ اہتمام تھا کہ مرض الموت میں بھی تلاوت قرآن میں فرق نہ آیا؛چنانچہ اس وقت بھی جب جنبش کرنے کی سکت باقی نہ تھی،اپنے بھانجے ابراہیم نخعی کا سہارا لے کر قرآن پڑھتے تھے دم آخر ہدایت کی کہ مجھے کلمۂ طیبہ کی تلقین کرنا،تاکہ میری زبان سے آخری لا الہ الا اللہ نکلے۔ (ایضاً:۵۰) حلیہ اورلباس آخر عمر میں بال سفید ہوگئے تھے،سر اورداڑھی دونوں میں زردخضاب کرتے تھے،اونچی ٹوپی پہنتے تھے،سیاہ رنگ کا عمامہ باندھتے تھے،اس کا شملہ پیچھے پٹا رہتا تھا۔ (ایضاً:۵۹)