انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** یہودی قبیلہ بنی قینقاع غرض اس قسم کی نا ملائم باتیں وہ علانیہ بکنے لگے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام ناشدنی باتوں کو نہایت صبر وسکون کے ساتھ سُنا اوران نالائقوں کو جو گویا معاہدہ کو خود توڑچکے تھے،کوئی سزادینی مناسب نہ سمجھی، آپ کی خواہش یہی تھی کہ وعظ وپند کے ذریعہ ان کو راہ راست پر لایا جائے اوران گستاخیوں پر کریمانہ عفو ودرگذر سے کام لیا جائے ،مگر یہودیوں کی شامت نے خود ان کے لئے سامانِ ہلاکت فراہم کردیئے تھے،ایک روز بنی قینقاع کی بستی میں کوئی میلہ یا بازار لگا،اُس بازار میں انصار کی ایک عورت دُودھ بیچنے کے لئے گئی،دودھ بیچ کر وہ سُنار کی دکان پر کوئی زیور خریدنے یا بنوانے گئی،اُس سُنار یہودی نے اُس عورت کو چھیڑا،ایک انصاری نے جو بازار میں گئے ہوئے تھے،انصاری عورت کو مظلوم دیکھ کر اس کی حمایت کی،ادھر اُدھر سے یہودی جمع ہوگئے اورانصاری پر حملہ کیا، اس فساد میں وہ انصاری شہید ہوگئے ان کے ہاتھ سے بھی ایک یہودی مارا گیا،اس خبر کو سُن کر دوسرے مسلمان جو وہاں اتفاقا موجود تھے،پہنچے،یہودیوں نے فوراً مسلح ہوکر حملہ کیا،یہ خبر مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو لے کر پہنچے اور یہودیوں کو مسلح وآمادۂ قتال پایا،غرض مقابلہ ہوا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ بنی قینقاع جن میں سات سو آدمی جنگ جو تھے ان میں تین سو زرہ پوش بھی تھے،اپنے قلعہ میں محصور ہوگئے، بنی قینقاع حضرت عبداللہ بن سلامؓ کی برادری تھے، مسلمانوں نے قلعہ کا محاصرہ کرلیا،پندرہ سولہ روز کے محاصرہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان قلعہ پر قابض ومتصرف ہوگئے اور تمام بنی قینقاع کو گرفتار کرلیا،ملکِ عرب کا عام دستور تھا کہ اسیرانِ جنگ بلادریغ قتل کردئے جاتے تھے،اہل مکہ کو سب سے زیادہ تعجب اس بات پر ہوا تھا کہ اسیرانِ بدر میں سے صرف دو شخص جو حد سے زیادہ شرارت میں بڑھے ہوئے تھے قتل کئے گئے،باقی سب کو چھوڑ دیا گیا، اب جو بنی قینقاع کے سات سو آدمی گرفتار ہوئے تو سب کو یقین تھا کہ یہ ضرور قتل کئے جائیں گے، مگر عبداللہ بن ابی بن سلول جو منافقوں کا سردار اوربظاہر مسلمانوں میں شامل تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سفارشی ہوا کہ ان یہودیوں کو قتل نہ کیا جائے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی قدر متامل تھے،مگر عبداللہ بن ابی نے بار بار اور با صرار سفارش کرکے سب کی جان بخشی کرالی اورحضرت عبادہ بن صامتؓ ان سب کو خیبر تک نکال آئے،عبداللہ بن ابی درپردہ ان یہودیوں کا ہمدرد تھا اوراسی لئے اس نے سب کی جاں بخشی کرانے میں گویا اپنا حق ودوستی ادا کیا۔ کعب بن اشرف کا ذکر ابھی ہوچکا ہے،اُس نے اب علانیہ مسلمان عورتوں کے نام عشقیہ اشعار میں استعمال کرنے شروع کئے،اس سے مسلمانوں کو سخت صدمہ ہوتا تھا،پھر اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی تدبیریں اورسازشیں شروع کیں،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت باہر نکلنے میں احتیاط سے کام لیتے تھے،جب کعب بن اشرف کی شرارتیں حد سے بڑھ گئیں تو ایک صحابی محمد بن مسلمہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شریر کے قتل کی اجازت لینے کے بعد کئی اور دوستوں کو ہمراہ لیا اوراُس کے گھر جاکر اس کو قتل کیا،کعب بن اشرف کے بعد سلام بن الحقیق یہودی نے اسی قسم کی شرارت پر کمر باندھی اوروہ اپنی شرارتوں میں کعب بن اشرف سے بھی بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کا دشمن بن گیا، کعب بن اشرف کو چونکہ بنو اوس نے قتل کیا تھا اس لئے اب بنو خزرج کے آٹھ نوجوانوں نے خیبر کا راستہ لیا،جہاں سلام بن حقیق رہتا تھا،وہاں پہنچ کر اُس کو قتل کیا اورصاف بچ کر نکل آئے۔