انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نام،نسب عبداللہ نام،ابوعبدالرحمن کنیت،والد کا نام مسعود اوروالدہ کانام ام عبد تھا،شجرہ ٔنسب یہ ہے،عبداللہ بن مسعود بن غافل بن حبیب بن شمخ بن فار بن مخزوم بن صاہلہ بن کاہل بن الحارث بن تمیم بن سعد بن ہذیل بن مدرکہ بن الیاس بن مضر حضرت عبداللہ ؓ کے والد مسعود ایام جاہلیت میں عبدبن حارث کے حلیف تھے۔ (اسد الغابہ :۲ تذکرہ عبداللہ بن مسعود ؓ) ابتدائی حالات ایامِ جاہلیت میں زمانۂ طفولیت عموماً بھیڑ بکریوں کے چرانے میں بسر ہوتا تھا یہاں تک کہ شرفاء وامراء کے بچے بھی اس سے مستثنی نہ تھے،گویا یہ ایک درس گاہ تھی جہاں سادگی،جفاکشی وفاشعاری اورراستبازی کا عملی سبق دیا جاتا تھا۔ مکہ میں جب دعوتِ توحید کا غلغلہ بلند ہوا توحضرت عبداللہ اسی درسگاہ میں تعلیم پارہے تھے اورعقبہ بن معیط کی بکریاں ان کے سپرد تھیں۔ (تذکرہ عبداللہ بن مسعود ؓ) اسلام ایک روزآنحضرت ﷺ اپنے مونس وہمدم حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے ساتھ اس طرف سے گذرے جہاں یہ بکریاں چرارہے تھے ،حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ان سے فرمایا صاحبزادے تمہارے پاس کچھ دودھ ہو تو پیاس بجھاؤ، بولے میں آپ کو دودھ نہیں دے سکتا ؛کیونکہ یہ دوسرے کی امانت ہے،آنحضرت ﷺ نےفرمایا کیا تمہارے پاس کوئی ایسی بکری ہے جس نے بچے نہ دیے ہوں عرض کیا ہاں اورایک بکری پیش کی ،آپﷺ نے تھن پر ہاتھ پھیر کر دعا فرمائی یہاں تک کہ وہ دودھ سے لبریز ہوگیا،حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اس کو علیحدہ لے جا کر دوہاتواس قدر دودھ نکلا کہ تینوں آدمیوں نے یکے باد دیگرے خوب سیرہوکر نوش فرمایا،(اسد الغابہ جلد ۲ تذکرہ عبداللہ بن مسعود ؓ) اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے تھن سے فرمایا خشک ہوجا اوروہ پھر اپنی اصلی حالت پر عود کرآیا۔ اس کرشمہ قدرت نے حضرت عبداللہ ؓ کے دل پر بے حد اثر کیا،حاضر ہوکر عرض کیا مجھے اس مؤثر کلام کی تعلیم دیجئے، آپﷺ نے شفقت سے ان کے سرپر دستِ مبارک پھیر کر فرمایا، تم تعلیم یافتہ بچے ہو، غرض اس روز سے وہ معلم دین مبین کے حلقہ تلمذ میں داخل ہوئے اور بلاواسطہ خود مہبط وحی والہام سے ستر سورتوں کی تعلیم حاصل کی جن میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہ تھا۔ (مسند ابن حنبل) اسلام قبول کرنے کے بعد وہ ہمیشہ خدمت بابرکت میں حاضر رہنے لگے اوررسول اللہ ﷺ نے ان کو اپنا خادم خاص بنالیا انشاء اللہ آگے ایک خاص باب میں خدمت گذاریوں کی تفصیل آئے گی۔ جوشِ ایمان حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اس زمانہ مین ایمان لائے تھے جب کہ مومنین کی جماعت صرف چند اصحاب پر مشتمل تھی اور مکہ کی سرزمین میں رسول اللہ ﷺ کے سوا اورکسی نے علانیہ بلند آہنگی کے ساتھ تلاوتِ قرآن کی جرأت نہیں کی تھی ؛چنانچہ ایک روز مسلمانوں نے باہم مجتمع ہوکر اس مسئلہ پر گفتگوکی اورسب نے بالاتفاق کہا، خدا کی قسم قریش نے اب تک بلند آواز سے قرآن پڑھتے ہوئے نہیں سنا؛لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوا کہ اس پرخطر فرض کو کون انجام دے؟ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے آگے بڑھ کر اپنے آپ کو پیش کیا ،لوگوں نے کہا کہ تمہارا خطرہ میں پڑنا مناسب نہیں،اس کام کے لیے تو ایک ایسا شخص درکار ہے جس کا خاندان وسیع ہو اور وہ اس کی حمایت میں مشرکین کے دستِ ستم سے محفوظ رہے،لیکن حضرت عبداللہ ؓ نے جوشِ ایمان سے برانگیختہ ہوکر کہا، مجھے چھوڑ دو خدا میرا محافظ ہے۔ غرض دوسرے روز چاشت کے وقت جب کہ تمام مشرکین قریش اپنی انجمن میں حاضر تھے،اس وارفتہ اسلام نے ایک طرف کھڑے ہوکر سازِ توحید پر مضراب لگائی اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد علم القرآن کا سحر آفرین راگ چھیڑا ،مشرکین نے تعجب اورغور سے سنکر پوچھا،ابن ام عبد کیا کہہ رہا ہے؟ کسی نے کہا کہ محمد پر جو کتاب اتری ہے اس کو پڑھتا ہے، یہ سننا تھا کہ تمام مجمع غیظ و غضب سے مشتعل ہوکر ٹوٹ پڑا اوراس قدر مارا کہ چہرہ ورم کر آیا،لیکن جس طرح پانی کے چند چھینٹے آگ کو اورزیادہ مشتعل کردیتے ہیں،اسی طرح حضرت عبداللہ کا شعلہ ایمان اس ظلم و تعدی سے بھڑک اٹھا، مشرکین مارتے گئے لیکن ان کی زبان بند نہ ہوئی۔ حضرت عبداللہ جب اس فرض کو انجام دے کر خشگی وشکستہ حالی کے ساتھ اپنے احباب میں واپس آئے تو لوگوں نے کہا کہ ہم اسی ڈرسے تم کو جانے نہ دیتے تھے، بولے،خدا کی قسم! دشمنان خدا آج سے زیادہ میری نظر میں کبھی ذلیل نہ تھے، اگر تم چاہو تو کل میں پھر اسی طرح ان کے مجمع میں جا کر قرآن کریم کی تلاوت کروں، لوگوں نے کہا بس جانے دو، اس قدر کافی ہے کہ جس کا سننا وہ ناپسند کرتے تھے اس کو تم نے بلند آہنگی کے ساتھ ان کے کانوں تک پہنچادیا ۔ (اسدالغابہ تذکرہ عبداللہ بن مسعود ؓ) ہجرت حضرت عبداللہ کے جوش وغیرت ایمان نے رفتہ رفتہ تمام مشرکین قریش کو دشمن بنادیا،یہاں تک کہ ان کی مسلسل وپیہم ایذارسانیوں سے تنگ آکر دودفعہ سرزمین حبش کی صحرانوردی پر مجبور ہوئے،پھر تیسری دفعہ دائمی ہجرت کا ارادہ کرکے یثرب کی راہ لی اوریہاں پہنچ کر حضرت معاذ بن جبل ؓ کے مہمان ہوئے،آنحضرت ﷺ نے مدینہ تشریف لانے کے بعدان دونوں میں بھائی چارہ کرادیا اورمستقل سکونت کے لیے حضرت عبداللہ کو مسجد نبوی کے متصل ایک قطعہ زمین مرحمت فرمایا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جلد ۳ تذکرہ عبداللہ بن مسعود ؓ) غزوات حضرت عبداللہ تمام مشہور واہم جنگوں میں جانبازی وپامردی کے ساتھ سرگرم پیکار تھے،غزوۂ بدر میں دو انصاری نوجوانوں نے سرخیل کفار ابوجہل بن ہشام کو تہ تیغ کیا تھا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کوئی ابو جہل کی خبر لاتا،حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ گئےا بھی کچھ کچھ جان باقی تھی،اس کی ڈاڑھی پکڑ کر کہا کہ ابو جہل تو ہی ہے۔ (بخاری :۲/۵۶۵) غزوۂ احد،خندق ،حدیبیہ ،خیبر اورفتح مکہ میں بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب تھے، مکہ سے واپس آتے ہوئے راہ میں غزوۂ حنین پیش آیا، اس جنگ میں مشرکین اس طرح یکایک ٹوٹ پڑے کہ مسلمان بدحواسی کے ساتھ منتشر ہوگئے اوردس ہزار کی جماعت میں صرف اسی اصحاب ثابت قدمی کے ساتھ شمع نبوت کے ارد گرد پروانہ وار اپنی فدویت کے جوہر دکھاتے رہے،حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ان ہی جان نثاروں میں تھے،فرماتے ہیں کہ جب مشرکین نے سخت حملہ کیا تو ہم لوگ تقریباً اسی قدم تک پسپا ہوئے ؛لیکن پھر جم کر کھڑے ہوگئے، آنحضرت ﷺ اپنے رہوار کو آگے بڑھاتے تھے؛لیکن وہ پیچھے کی طرف ہٹتا تھا اسی حالت میں آپ ایک دفعہ زین سے جھکے میں نے پکار کر کہا،آپ سربلند رہیں خدانے آپ کو رفعت عطا فرمائی ہے،فرمایا مجھے ایک مٹھی خاک اٹھادو، میں نے خاک اٹھا کر دی تو آپ نے مشرکین کے منہ کی جانب پھینک دی،جس سے ان کی آنکھیں غبار آلود ہوگئیں، پھر ارشاد ہوا مہاجرین وانصار کہاں ہیں؟ میں نے ارشارہ سے بتایا تو حکم ہوا کہ انہیں آوازدے کر بلاؤ میں نے چیخ کر پکارا تو یکایک سب کے سب پلٹ پڑے، اس وقت ان کی تلواریں نورایمان سے اس طرح چمک رہی تھیں جس طرح شعلہ دہکتا ہے،غرض بگڑاہواکھیل پھر بن گیا،مشرکین مغلوب ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے اورمیدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ (احمد:۱/۴۵۳) جنگ یرموک رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ایک عرصہ تک عزلت نشین رہے،لیکن عہد فاروقی میں جن عظیم الشان فتوحات کا سلسلہ چھڑگیا تھا اس نے بالاخر ان کی رگ شجاعت میں بھی ہیجان پیدا کیا،۱۵ ھ میں گوشۂ خلوت سے نکل کر رزمگاہ شام کی طرف چل کھڑے ہوئے اورمیدان یرموک کی فیصلہ کن جنگ میں سرگرم پیکار ہوکرخوب داد شجاعت دی۔ (اسدالغابہ:۳/۲۵۷) عہدۂ قضاء ۲۰ھ میں کوفہ کے قاضی مقرر کئے گئے،عہدہ قضاء کے علاوہ خزانہ کی افسری مسلمانوں کی مذہبی تعلیم اوروالی کوفہ کی وزارت کے فرائض بھی ان کے متعلق تھے،چنانچہ فرمان تقرری کے الفاظ یہ ہیں: إني قد بعثت عمار بن ياسر أميراً، و عبد الله بن مسعود معلماً ووزيراً، وهما من النجباء من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ، من أهل بدر، فاقتدوا بهما، وأطيعوا واسمعوا قولهما، وقد آثرتكم بعبد الله على نفسي (اسد الغابہ:۲/۱۷۳) میں نے تم پر عمار بن یاسر کو امیر اولین مسعود کو معلم اوروزیر بناکر بھیجا ہے،ابن مسعود کو بیت المال کی افسری بھی دی ہے، یہ دونوں آنحضرت ﷺ کے ان ذی عزت اصحاب میں سے ہیں جو کہ معرکہ بدر میں شریک تھے اس لیے ان کو سمعاوطاعہ کہو اوراتباع کرو،حقیقت یہ ہے کہ میں نے تمہارے لیے ابن ام عبد (عبداللہ بن مسعود )ؓ کو اپنی ذات پر ترجیح دی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے کامل دس سال تک نہایت مستعدی وخوش اسلوبی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیئے، اس طویل عرصہ میں بساط سیاست پر گونا گوں انقلاب ہوئے، خلیفہ دوم ؓ نے وفات پائی،خلفیہ ثالث ؓ نے مسندِ خلافت پر قدم رکھا اورخاص کوفہ کی عنان حکومت اہل کوفہ کی شکایت واحتجاج پر یکے بعددیگرے مختلف والیوں کے ہاتھ میں آئی؛ لیکن وہ حسن احتیاط اورانصاف کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے تھے اس کے لحاظ سے کسی کو ان سے شکایت پیدا نہ ہوئی۔ فطری رحم دلی،نرمی اورتلطف کے باعث عفو ،درگذر اورچشم پوشی ان کا مخصوص شیوہ تھا؛ لیکن اسی کے ساتھ وہ اس راز سے بھی واقف تھے کہ بارگاہِ عدالت میں جب کسی مجرم پرکوئی جرم ثابت ہوجائے تواس کے ساتھ نرمی ودرگذر سے پیش آنا،درحقیقت نظامِ حکومت ارکان واساطین کو متزلزل کردینا ہے،اس بنا پر وہ اثبات جرم کے بعد اپنی طبعی نرمی وشفقت کے باوجود قانونِ معدلت کے اجراء میں کبھی دریغ نہ فرماتے تھے،ایک دفعہ ایک شخص نے اپنے برادرزادہ کو شراب خواری کے جرم میں پیش کیا،حضرت عبداللہ ؓ نے تحقیقات کے بعد حد جاری کرنے کا حکم دے دیا، لیکن جب درے پڑنے لگے تو اس کا دل رحم وشفقت سے بھر آیا اورمنت وسماجت کے ساتھ سفارش کرنے لگا، انہوں نے غضبناک ہوکر فرمایا تو نہایت ظالم چچا ہے، اس کو حد شرعی کا مستحق ثابت کرکے چھوڑدینے کی سفارش کرتا ہے، جواب ممکن نہیں، اسلام میں سب سے پہلے ایک عورت پرحد جاری کی گئی جس نے چوری کی تھی، آنحضرت ﷺ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیدیا اورفرمایا کہ تم لوگوں کو اعراض وچشم پوشی سے کام لینا چاہئے، کیا تم اسے پسندنہیں کرتے کہ خداتمہیں بخشدے۔ بعض اوقات ایک ہی جرم مجرموں کے اختلاف حیثیات کے لحاظ سے ان کو مختلف سزاؤں کا مستوجب قراردیتا ہے،حضرت عبداللہ اس نکتہ سے بھی اچھی طرح آگاہ تھے ،ایک دفعہ ان کو اطلاع دی گئی کہ مسیلمہ کذاب کے متبعین میں سے کچھ لوگ اب تک موجود ہیں جو اس کو رسولِ خدا کہتے ہیں، حضرت عبداللہ ؓ نے چند سپاہی بھیج کر ان کو گرفتار کرادیا اورسب کی توبہ قبول کرکے چھوڑدیا ؛لیکن ان کے سرگروہ ابن نواحہ کے لیے قتل کی سزا تجویز کی، لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تو بولے کہ ابن نواحہ اورابن اثال دوشخص مسیلمہ کذاب کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں سفیر بن کر گئے تھے،آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم مسلیمہ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو؟ انہوں نے کہاہاں، آپﷺ نے فرمایا کہ اگر تم سفیر نہ ہوتے تو میں تمہیں قتل کرادیتا، اس بنا پر جبکہ وہ اب تک اس کے اس باطل عقیدہ سے باز نہیں آیا ہے تو رسول اللہ ﷺ کی خواہش کا پورا کرناضروری تھا۔ حضرت عثمان ؓ کے آخری عہدِ خلافت میں جب کوفہ سازش فتنہ پردازی اوربد امنی کا مرکز ہوگیا تو عہدہ قضاء کے لحاظ سے قدرۃ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو بھی غیر معمولی دشواریاں پیش آئیں، ایک دفعہ عقبہ بن ولید کے دورِ امارت میں ایک ساحر کا مقدمہ پیش ہوا جو امیر کوفہ کے سامنے اپنی بازیگری کے کرشمے دکھا رہا تھا، لیکن فیصلہ صادر ہونے سے پہلے ہی جندب نامی ایک شخص نے اس کو قتل کرڈالا؛ چونکہ یہ صریحاً معاملاتِ حکومت میں مداخلت بیجا تھی،اس لیے انہوں نے قاتل کی گرفتاری کا حکم دے کر دربارخلافت کو مفصل واقعہ سے مطلع کیا،وہاں سے حکم آیا کہ معمولی تنبیہ وتعزیر کے بعد اس کو چھوڑ دو اورلوگوں کو سمجھاؤ کہ پھر آئندہ اس قسم کے واقعات کا اعادہ نہ ہونے پائے، حضرت عبداللہ ؓ نے اس حکم کی تعمیل کی اوراہل کوفہ کو جمع کرکے فرمایا، صاحبو!صرف شک وشبہ پر کوئی کام نہ کرو اورعدالت کو اپنے ہاتھ میں نہ لے لو ،مجرموں اورخطاکاروں کو سزادینا ہمارا فرض ہے،تم کو اس میں مداخلت کی ضرورت نہیں۔ (تاریخ طبری :۲۸۴۵) اسی سال ولید بن عقبہ والی کوفہ پر شراب خواری کا الزام لگایا گیا اورایک جماعت نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر شکایت کی کہ وہ تخلیہ میں شراب پیتا ہے،انہوں نے جواب دیا کہ جاسوسی میرا فرض نہیں ہے،اگر ایک شخص چھپ کر کوئی کام کرتا ہے تو میں اس کی پردہ داری کے درپے نہیں ہوسکتا،ولید نے یہ جواب سنا تو ناراض ہوکر ان کو بلا بھیجا اورپوچھا کہ کیا مفسدین کو ایسا ہی جواب دینا مناسب تھا؟میں چھپ کر کون کام کرتا ہوں ، یہ تو اس شخص کے لیے کہا جاسکتا ہے جو مشکوک ہو،غرض اسی سوال وجواب میں بات بڑھ گئی اوردونوں ایک دوسرے سے کشیدہ خاطر اٹھے۔ (تاریخ طبری :۲۸۴۵) خزانہ کی افسری حضرت عبداللہ منصب قضاء کے ساتھ خزانہ کی افسری پر بھی مامور تھے،کوفہ عظمت وسعت وکثرتِ محاصل کے لحاظ سے اس کا بیت المال نہایت اہمیت رکھتا تھا، اس سے لاکھوں روپے کے وظائف جاری تھے،فوجی مرکز ہونے کے باعث ہزاروں سپاہیوں کی تنخواہیں مقرر تھیں اورخراسان،ترکستان اورآرمینیہ پر وقتاً فوقتاً جو فوج کشی ہوتی رہتی تھی، اس کے مصارف ادا کئے جاتے تھے،اس بنا پر دوسرے اہم مشاغل کے ساتھ اس شعبہ کی اس طرح نگرانی کرنا کہ ایک حبہ بھی اِدھر کا اُدھر نہ ہونے پائے درحقیقت حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی انتظامی قابلیت، بیدار مغزی اورحساب فہمی کا حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ ذاتی حیثیت سے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ زہد و بے نیازی کے اقلیم کے بادشاہ تھے،دنیا کی بڑی سے بڑی نعمتوں کو حقارت کے ساتھ ٹھکرادیتے تھے، لیکن قومی سرمایہ کے تحفظ میں اس قدر سخت تھے کہ اعزہ احباب،افسر اوروالیِ ملک کے ساتھ بھی کسی قسم کی رعایت ملحوظ نہ رکھتے تھے، ایک دفعہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ والیٔ کوفہ نے بیت المال سے قرض لیا، اورناداری کے باعث عرصہ تک ادا نہ کرسکے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ مہتمم بیت المال کی حیثیت سے نہایت سختی کے ساتھ ان سے تقاضا شروع کیا، یہاں تک کہ ایک روز تلخ کلامی کی نوبت پیش آئی،حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے جھلا کر چھڑی زمین پر پھینک دی اوردونوں ہاتھ اٹھا کر کہا" اے آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے"چونکہ وہ نہایت مستجاب الدعوات مشہور تھے، اس لیے حضرت عبداللہ نے خوف زدہ ہوکر کہا دیکھو میرے لیے بددعا نہ کرنا، بولے"خدا کی قسم! اگر خوفِ خدا نہ ہوتا تو میں تمہارے لیے سخت بددعا کرتا"حضرت عبداللہ نے ان کی برافروختگی کا یہ انداز دیکھا تو تیزی کے ساتھ کاشانۂ امارت سے باہر نکل آئے۔ اس واقعہ کی رپورٹ دربارخلافت میں پہنچی تو امیر المومنین حضرت عثمان ؓ نے سخت ناراضی ظاہر فرمائی اورحضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو معزول کرکے ولید بن عقبہ کو کوفہ کا والی بناکر بھیجا، حضرت عبداللہ ؓ بھی گواس ناراضی سے مستثنی نہ تھے تاہم وہ ایک عرصہ تک اپنے عہدہ پر برقرار رہے۔ (تاریخ طبری:۲۸۱۱) معزولی حضرت عثمان ؓ کے اخیر عہد حکومت میں جب سازش ومفسدہ پردازی کا بازار گرم ہوا تو مخفی ریشہ دوانیوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو بھی زیادہ دنوں تک اپنے عہدہ پر برقرار رہنے نہ دیا، اوریکا یک معزول کردیئے گئے،معزولی کی خبر نے کوفہ کی علمی دنیا کو ماتم کدہ بنادیا،احباب معتقدین،تلاندہ اوراعیانِ شہر کی ایک بڑی جماعت نے مجتمع ہوکر اس فرمانِ عزل پر سخت ناراضی ظاہر کی اورحضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مصر ہوئے کہ آپ کوفہ سے تشریف نہ لے جائیں اگر اس کی پاداش میں کوئی مصیبت پیش آئے گی تو ہم سب اپنی جانیں قربان کرنے کو حاضر ہیں، بولےامیر المومنین کی اطاعت مجھ پر فرض ہے میں نہیں چاہتا کہ فتنہ و فساد جو عنقریب برپا ہونے والا ہے اس کی ابتداء میری ذات سے ہو، غرض وہ عمرہ کی نیت کرکے ایک جماعت کے ساتھ حجاز کی طرف روانہ ہوگئے۔ (اصابۃتذکرہ عبداللہ بن مسعود ؓ) حضرت ابوذر ؓ کی تجہیز وتکفین جب مقام ربذہ میں پہنچے تو وسطِ راہ میں ایک عورت کو سرگرداں وپریشان دیکھ کر پوچھا خیر ہے،کہا ایک مرد مسلمان کی تجہیز وتکفین کیجئے پوچھا کون؟ کہا ابوذر ؓ صحابی رسول ﷺ آپ" فدیتہ بابی وامی " کہہ کر مع اپنے ساتھیوں کے اتر پڑے،حضرت ابوذر ؓ ایک بلند پایہ اورنہایت زاہد و متقشف صحابی تھے وہ دارالخلافت کی روز افزوں تمدنی زندگی سے اس قدر بیزار ہوئے کہ ربذہ کے سنسان جنگل میں اٹھ آئے اوربالآخر اسی سرزمین نے ان کے لیے اپنا آغوشِ شوق پھیلادیا،یہ لوگ حضرت ابوذر ؓ کے پاس پہنچے ان کا دم واپسیں تھا،اپنی تجہیز وتکفین کے متعلق ضروری ہدایات دے کرواصل بحق ہوئے، حضرت عبداللہ ؓ نے حضرت ابوذر کی وصیت کے مطابق ان کی تجہیز وتکفین کرکے نمازِ جنازہ پڑھاکر سپردِ خاک کیا۔ (مسند احمد بن حنبل:۵/۱۶۶) حضرت عبداللہ ؓ نے مکہ پہنچ کر امیرالمومنین کو حضرت ابوذر ؓ کی وفات کی اطلاع دی اورعمرہ سے فارغ ہوکر مدینہ پہنچے کہ زندگی کے بقیہ ایام عزلت نشینی و عبادت الہی میں بسر ہوں۔ علالت ۳۲ ھ میں جب کہ حضرت عبداللہ ؓ کا سن مبارک ساٹھ برس سے متجاوز ہوچکا تھا ایک روز ایک شخص نے حاضر خدمت ہوکر عرض کیا،خدا مجھے آپ کی آخری زیارت سے محروم نہ رکھے، میں نے گذشتہ شب کو خواب میں دیکھا کہ حضرت رسولِ خدا ﷺ ایک بلند منبر پر تشریف فرما ہیں اورآپ سامنے حاضر ہیں،اسی حالت میں ارشاد ہوتا ہے، ابن مسعود ؓ! میرے بعد تمہیں بہت تکلیف پہنچائی گئی،آؤ میرے پاس چلے آؤ ،فرمایا خدا کی قسم تم نے یہ خواب دیکھا ہے؟ بولا، ہاں،فرمایا تم میرے جنازہ میں شریک ہو کر مدینہ سے کہیں جاؤ گے۔ یہ خواب درحقیقت واقعہ ہوکر پیش آیا، چند ہی دنوں کے بعد اس طرح بیمار ہوئے کہ لوگوں کو ان کی زندگی سے مایوسی ہوگئی،امیر المومنین حضرت عثمان ؓ سے چونکہ ایک گونہ شکررنجی تھی اورانہوں نے دو برس سے ان کا مقررہ وظیفہ مطلقاً بند کردیا تھا،اس لیے وہ اِس آخری لمحہ حیات میں عفو خواہی وعیادت کے لیے تشریف لائے اوراس طرح گفتگو شروع کی۔ حضرت عثمان ؓ : آپ کو کس مرض کی شکایت ہے؟ حضرت عبداللہ ؓ : اپنے گناہوں کی۔ حضرت عثمان ؓ : آپ کیا چاہتے ہیں ؟ حضرت عبداللہ ؓ :خداکی رحمت۔ حضرت عثمان ؓ : آپ کے لیے طبیب بلاؤں ؟ حضرت عبداللہ ؓ : مجھے طبیب ہی نے بیمار ڈالا۔ حضرت عثمان ؓ :آپ کا وظیفہ جاری کردوں؟ حضرت عبداللہ ؓ : مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ حضرت عثمان ؓ : آپ کی صاحبزادیوں کے کام آئے گا۔ حضرت عبداللہ : کیا آپ کو میری لڑکیوں کے محتاج ودست نگر ہوجانے کا خوف ہے؟ میں نے انہیں حکم دیا ہے کہ ہر رات سورۂ واقعہ پڑھ لیا کریں؛ کیونکہ رسولِ خدا ﷺ نےفرمایا ہے کہ جو ہر رات کو سورۂ واقعہ پڑھے گا وہ کبھی فاقہ مست نہ ہوگا۔ (یہ تمام تفصیل اسدالغابہ سے ماخوذ ہے) مذکورہ بالا سوال وجواب سے بعض اصحاب سیر کو یہ غلط فہمی ہے کہ اس آخری وقت میں بھی دونوں ایک دوسرے سے صاف نہ ہوئے ؛لیکن طبقات ابن سعد کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ باہمی عفو خواہی کے صیقل نے دونوں کے آئینہ قلب کو بالکل شفاف کردیا تھا، محمد بن سعد نےاس واقعہ کی صحت پر خاص طور سے زور دیا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول:۳/۱۱۳) وفات حضرت عبداللہ ؓ کو جب سفر آخرت کا یقین ہوگیا تو انہوں نے حضرت زبیر ؓ اوران کے صاحبزادہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو بلا کر اپنے مال واسباب اوراولاد نیز خود اپنی تجہیز وتکفین کے متعلق مختلف وصیتیں فرمائیں اورساٹھ برس سے کچھ زیادہ عمر پاکر ۳۲ھ میں داعیِ اجل کو لبیک کہا، مستند وصحیح روایت کے مطابق امیر المومنین حضرت عثمان ؓ نے جنازے کی نماز پڑھائی اورحضرت عثمان بن مظعون ؓ کے پہلو میں سپرد خاک کیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ علم وفضل حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ان صحابہ کرام میں ہیں جو اپنے علم وفضل کے لحاظ سے تمام دنیائے اسلام کے امام تسلیم کئے گئے ہیں ،تم نے پہلے پڑھا ہے کہ وہ ایام جاہلیت میں عقبہ بن معیط کی بکریاں چراتے تھے،لیکن خدا کی قدرت معلم ربانی کی نگاہ انتخاب نے گلہ بانی کی درسگاہ سے نکال کر اپنے حلقہ تلمذ میں داخل کرلیا اور علم وفضل کے آسمان پر مہر منیر بناکر چمکایا۔ علم کا شوق حضرت عبداللہ ؓ ابتداءہی سے علم کے شائق تھے،قبولِ اسلام کے ساتھ ہی انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! مجھے تعلیم دیجئے بشارت ملی انک غلام معلم تم تعلیم یافتہ لڑکےہو۔ اس شوق کا یہ اثر تھا کہ شب وروز سرچشمہ علم سے مستفیض ہوتے،خلوت، جلوت،سفر،حضر،غرض ہر موقع پر ساقیِ معرفت کی خدمت میں حاضر رہتے تھے، لیکن طلب صادق کی پیاس نہ بجھتی؛ یہاں تک کہ آپ جب داخل حرم نہ ہوتے تو اپنی والدہ حضرت ام عبدؓ کو بھیجتے کہ وہ خانگی زندگی کے معلومات بہم پہنچائیں۔ (مسند اعظم :۱۸۴) رسالت مآب ﷺ کی خدمت وصحبت کا اثر حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ حضور پرنور ﷺ کے خدام خاص میں شامل تھے،مسواک اٹھاکر رکھنا، جوتہ پہنانا، سفر کے موقع پر کجاوہ کسنا اورعصالے کر آگے چلنا آپ کی مخصوص خدمت تھی، اس ختم گذاری کے ساتھ وہ آنحضرت ﷺ کے ہمدم وہمراز بھی تھے،(مستدرک :۳/۳۱۶) مخصوص صحبتوں میں شریک کئے جاتے بلااذن تخلیہ کے موقعوں پر حاضر ہوتے اورراز کی تمام باتیں سن سکتے تھے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ ان کو حضور کے بستر مسواک اوروضوکے پانی والے معززخطاب دے رکھاتھا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث ۱۰۹) حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ ہم یمن سے آئے اورکچھ دنوں تک مدینہ میں رہے، ہم نے عبداللہ بن مسعود ؓ کو رسول اللہ ﷺ کے پاس اس کثرت سے آتے جاتے دیکھا کہ ہم ان کو عرصہ تک خاندان رسالت کا ایک رکن گمان کرتے رہے،(صحیح مسلم:۲/۳۴۳) غرض اس خدمت گذاری اورہر وقت کی حاضر باشی نے ان کو قدرۃسب سے زیادہ خرمن کمال کی خوشہ چینی کا موقع دیا۔ قرآن قرآن کریم جو اصل اصول اسلام ہے،حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اس کے سب سے بڑے عالم تھے،فرماتے ہیں کہ سترسورتیں میں نے خاص مہبط وحی والہام ﷺ کے دہن مبارک سے سن کریاد کی تھیں،(بخاری:۲/۴۸) ان کا دعویٰ تھا کہ قرآن مجید میں کوئی آیت ایسی نہیں جن کی نسبت میں یہ نہ جانتا ہوں کہ کب کہاں اورکس بارہ میں اتری ہے وہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص قرآن مجید کا مجھ سے زیادہ عالم ہوتا تو میں اس کے پاس سفر کرکے جاتا، ایک دفعہ انہوں نے مجمع عام میں دعویٰ کیا کہ تمام صحابہ جانتے ہیں کہ میں قرآن کا سب سے زیادہ عالم ہوں، گو سب سے بہتر نہیں ہوں، شقیق اس جلسہ میں موجود تھے وہ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد میں اکثر صحابہ ؓ کے حلقوں میں شریک ہوا،مگر کسی کو عبداللہ بن مسعود ؓ کے دعویٰ کا منکر نہیں پایا۔ ابوالاحوص فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم اورعبداللہ بن مسعود ؓ اپنے چند احباب کے ساتھ ابو موسی اشعری ؓ کے مکان میں تھے، حضرت عبداللہ ؓ چلنے کے قصد سے کھڑے ہوئے تو ابو مسعود ؓ نے ان کی طرف اشارہ کرکے کہا، میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد ان سے زیادہ کوئی شخص قرآن کا عالم ہے، ابو موسیٰ ؓ نے کہا کیوں نہیں! یہ اس وقت بارگاہِ رسالت میں حاضر رہتے تھے جب کہ ہم لوگ غائب ہوتے تھے اوران کو ان موقعوں میں باریاب ہونے کی اجازت تھی جب کہ ہم لوگ روک دیئے جاتے تھے،حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں عبداللہ بن مسعود ؓ کو اس دن سے بہت دوست رکھتا ہوں جس دن رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا کہ ‘قرآن چارآدمیوں سے حاصل کرو’ اورسب سے پہلے ابن ام عبد ؓ کا نام لیا، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے جب وفات پائی تو حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ اورحضرت ابو مسعودؓ نے ایک دوسرے سے کہا، کیا عبداللہ نے اپنے جیسا کسی کو چھوڑا دوسرے نے کہا نہیں و خلوت جلوت ہر موقع پر حاضر رہتے تھے جبکہ ہم لوگوں کے لیے یہ ممکن نہ تھا۔ (مسلم باب میں فضائل عبداللہ بن مسعود ؓ) حضرت عبداللہ ؓ کے پاس عہد نبوت کا جمع کیا ہو ایک مصحف بھی تھا جس کو وہ نہایت عزیز رکھتے تھے،چنانچہ امیر المومنین حضرت عثمان ؓ نے جب مصحف صدیقی کے سوا تمام مصاحف کو تلف کردینے کا حکم دیا تو انہوں نے نہایت ناگواری کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کی۔ چونکہ اس مصحف کے نقل و ترتیب کی خدمت حضرت زید بن ثابت ؓ نے انجام دی تھی،اس لیے وہ اکثران کی ناتجربہ کاری پر معترض ہوتے تھے،شقیق بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ انہوں نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا، ستر سے کچھ زیادہ سورتیں میں نے خاص رسولِ خدا ﷺ کی زبان سے سن کر یاد کی تھیں، حالانکہ زید بن ثابت ؓ اس وقت لڑکے تھےاور لڑکوں کے ساتھ کھیلتے پھرتے تھے،(اسد الغابہ:۳/۲۵۹) اس سے بڑھ کر ان کی قرآن دانی کی اورکیا سند ہوسکتی ہے کہ خود حضور پر نور ﷺ نے ایک موقع پر لوگوں سے فرمایا کہ قرآن چار آدمیوں سے سیکھو، عبداللہ بن مسعود ؓ،سالم ؓ، معاذ ؓ، اورابی بن کعب ؓ۔ (بخاری باب القراء میں اصحاب النبی ﷺ ) تفسیر قرآن مجید کی تفسیر اورمناسب موقعوں پر برجستہ آیاتِ قرآنی کی تلاوت میں خاص مہارت رکھتے تھے،ایک دفعہ یہ حدیث زیر بحث تھی کہ جو شخص جھوٹی قسم کھا کر کسی مسلمان کا مال مارے گا قیامت کے روز خدا اس پر نہایت غضبناک ہوگا، حضرت عبداللہ ؓ نے اس حدیث کی تصدیق میں برجستہ یہ آیت تلاوت فرمائی۔ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ (آل عمران:۷۷) بے شک وہ لوگ جو خدا کے عہد اور اپنی قسموں کے معاوضہ میں نفع قلیل حاصل کرتے ہیں ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ ہوگا۔ (مسند: ا/ ۲۷۷،وبخاری :۲/۶۵۲) اسی طرح ایک دفعہ اپنے حلقہ درس میں بیان فرمارہے تھے کہ ایک روز رسول خدا ﷺ سے سوال کیا گیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے، ارشاد ہوا کہ شرک،پھر قتلِ اولاد پھرآپ نے ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرنا، اس حدیث کو بیان کرکے انہوں نے برجستہ اس آیت سے اس کی تصدیق فرمادی: وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا (الفرقان:۶۸) (مسند احمد:۱/۳۸۰) جولوگ خداکے ساتھ کسی دوسرے کو نہیں پکارتے اورناحق جان نہیں مارتے کہ اللہ نے اس کو حرام کررکھا ہے اورنہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اورجو شخص ایسا کریگا وہ ان گناہوں کا خمیازہ اٹھائے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی تفسیر یں حدیث وتفسیر کی کتابوں میں بکثرت منقول ہیں،اگر ان کو جمع کیا جائے تو ایک مستقل کتاب تیار ہوسکتی ہے۔ تفسیر بالرائے سے احتراز محض اپنی رائے وقیاس سے آیات قرآنی کی تشریح و تفسیر کرنا علمائے امت کے نزدیک بالاتفاق ناجائز ہے،حضرت عبداللہ اگر کسی کو ایسا کرتے دیکھتے تو نہایت برہم ہوتے،ایک مرتبہ کسی نے آکر کہا کہ ایک شخص مسجد میں،‘ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ ’ کی تفسیر محض اپنی رائے سے کررہا ہے،وہ کہتا ہے کہ"قیامت کے روز اس قدر دھواں ہوگا کہ لوگ اس میں سانس لے کر زکام یا اسی قسم کی ایک بیماری میں مبتلا ہوجائیں گے، بولے دانشمندی یہ ہے کہ اگر انسان کسی امر سے واقف ہوتو بیان کرے اوراگر ناواقف ہو تو اللہ اعلم کہہ کر خاموش ہوجائے،یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب کہ قریش کی نافرمانی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کے باعث تمام عرب قحط کی مصیبت میں مبتلا تھا، لوگ جب آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتے تھے توبھوک کی شدت اورضعف و ناتوانی کے باعث زمین سے آسمان تک دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا، خدائے پاک نے اس موقع پر کفار کو متنبہ کیا کہ اس سے بھی ایک زیادہ ہولناک اورسخت انتقام کادن آنے والا ہے، اوروہ جنگ بدر کا دن ہے۔ (مسند:۱/۳۸۱ وبخاری :۲/۷۱۰) قرأت قرأت میں غیر معمولی کمال حاصل تھا، صحاح میں بکثرت ایسی روایتیں ہیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ قرأت میں ابن ام عبد یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی پیروی کی جائے، ایک مرتبہ وہ نماز میں سورۂ نساء تلاوت فرما رہے تھےکہ خیر الانام حضرت ابوبکر ؓ وحضرت عمر ؓ کے ساتھ مسجد تشریف لائے اوران کی خوش الحانی اور باقاعدہ ترتیل سے خوش ہوکرفرمایا: اسئل تعطہ اسئل تعطہ جو کچھ سوال کرو پورا کیا جائے گا، جو کچھ سوال کرو پورا کیا جائے گا۔ پھر ارشاد ہوا کہ جو پسند کرتا ہے کہ قرآن کو اسی طرح تروتازہ پڑھنا سیکھے،جس طرح وہ نازل ہوا ہے تو اس کو قرأۃ ابن ام عبد کی اتباع کرنا چاہئے۔ دوسرے روز حضرت ابوبکر صدیق ؓ ان کے پاس بشارت و تہنیت کے خیال سے تشریف لائے، اورپوچھا کہ رات آپ نے خدا سے کیا دعا مانگی ؟ بولے میں نے کہا اے خدا! مجھے ایسا ایمان عطا کر جس کو کبھی جنبش نہ ہو، ایسی نعمت دے جو کبھی ختم نہ ہو اورخلد بریں میں حضرت محمد ﷺ کی دائمی رفاقت نصیب کر۔ (مسند:۱/۴۵۴) وہ تلاوت قرآن کے نہایت شائق تھے اور تنہائی کے موقع میں عموماً اس سے دل بہلایا کرتے ،بسا اوقات خود آنحضرت ﷺ بھی ان سے قرآن کی کوئی سورت پڑھواکر سنتے اورمحظوظ ہوتے،خود کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ارشاد ہوا کہ سورۂ نساء پڑھ کر سناؤ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ پر نازل ہوا اور آپ کو میں سناؤں! ارشاد ہوا کیوں نہیں ؛لیکن میں دوسرے کی زبان سے سننا چاہتا ہوں، غرض میں نے تعمیل ارشاد کی اور جب اس آیت پر پہنچا ‘ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا ’ آپ کی آنکھوں میں آنسو بھرآئے۔ (مسند احمد:۱/۳۷۴ وبخاری:۲/۶۵۹) روایت میں خوف واحتیاط حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو بارگاہِ نبوت میں جو مخصوص تقرب حاصل تھا اس کے لحاظ سے نہایت،وسیع معلومات رکھتے تھے،لیکن روایت میں وہ حد درجہ محتاط تھے ابو عمرشیبانی کہتے ہیں کہ میں ابن مسعو ؓ کی صحبت میں کامل ایک سال رہا، لیکن بہت کم قال رسول اللہ کا لفظ ان کی زبان سے سنا،ایک مرتبہ انہوں نے ایک حدیث بیان کی تو تمام جسم میں رعشہ آگیا اور کہنے لگے، آپﷺ نے اسی طرح فرمایا تھا یا اس کے قریب قریب یا اسی کے مشابہ۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۴) عمروبن میمون فرماتے ہیں کہ تقریباً ایک سال تک عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں میری آمدورفت رہی،لیکن میں نے کبھی ان کو رسول اللہ ﷺ کے انتساب سے کچھ بیان کرتے ہوئے نہیں سنا، ایک مرتبہ حدیث بیان کرتے ہوئے اتفاقا ًان کی زبان سے قال رسول اللہ کا فقرہ نکل گیا، تو دیکھا کہ ان کا تمام بدن تھرااٹھا اورخوف وہراس سے عرق عرق ہوگئے۔ (ابن سعد قسم اول جز ثالث:۱۱۰) تلامذہ کو احتیاط کی ہدایت شاگردوں کوبھی عموماً روایت حدیث میں احتیاط کی ہدایت کیا کرتے اورفرماتے کہ جب تم کوئی حدیث بیان کرو تو اس خیال کو پیش نظر رکھو کہ رسولِ خدا ﷺ سب سے زیادہ مقدس پرہیز گار اورہدایت یاب تھے۔ (مسند احمد:۱/۳۸۵) کثرت روایات کی وجہ لیکن ان واقعات سے یہ قیاس نہ کرنا چاہئے کہ وہ مطلقاً حدیثیں روایت نہیں کرتے تھے، کیونکہ معلم دین ہونے کی حیثیت سے حضرت خیر الانام ﷺ کی تعلیمات وارشادات کا پھیلانا ان کے فرائض منصبی میں داخل تھا، یہی وجہ ہے کہ خوف واحتیاط کے باوجود صحاح و مسانید میں ان سے بکثرت روایات منقول ہیں،چنانچہ آپ کے جملہ مرویات کی تعداد ۸۴۸ ہے ان میں سے ۶۴ بخاری اورمسلم دونوں میں ہیں ان کے علاوہ ۲۱ بخاری میں ہیں اور ۳۵ مسلم میں ہیں۔ ( تہذیب الکمال :۲۳۴) مذاکرۂ حدیث کا شوق بسا اوقات وہ مذاکرۂ حدیث کے شوق میں تلامذہ واحباب کے گھر پر تشریف لے جاتے اوردیر تک عہدِ نبوت کا ذکر مذکور رہتا،وابصہ اسدی فرماتے ہیں کہ میں کوفہ میں دوپہر کے وقت اپنے گھر میں تھا کہ یکایک دروازہ سے السلام علیکم کی آواز بلند ہوئی میں نے جواب دیا باہر نکل کر دیکھا،تو عبداللہ بن مسعودؓ تھے، میں نے کہا ابوعبدالرحمن! یہ ملاقات کا کون سا وقت ہے؟ بولے آج بعد مشاغل ایسے پیش آگئے کہ دن چڑھ گیا اوراب فرصت ملی تو یہ خیال آیا کہ کسی سے باتیں کرکے عہد مقدس کی یاد تازہ کرلوں، غرض وہ بیٹھ کر حدیثیں بیان فرمانے لگے، اوردیر تک پر لطف صحبت رہی۔ (مسند احمد:۱/۴۴۸) آداب روایت حضرت عبداللہ ؓحدیث روایت کرتے وقت نہایت مؤدب متین اور سنجیدہ بن جاتے تھے اوراس طرح نقشہ کھینچ دیتےتھے کہ گویا سامع خود حضرت رسول مقبول ﷺ کی زبان فیض ترجمان سے سن رہا ہے،ایک مرتبہ انہوں نے ایک طولانی حدیث بیان فرمائی جس میں قیامت، جنت اورمومنین وسبحان رب العزت کے سوال وجواب کا تذکرہ تھا، حدیث ختم کرکے متبسم ہوئے اور فرمایا ،تم پوچھتے نہیں کہ میں کیوں ہنستاہوں؟لوگوں نے کہا آپ کیوں ہنستے ہیں؟ اس لیے کہ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح تبسم فرمایا تھا۔( مسنداحمد، عبداللہ بن مسعود) فقہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ان فاضل صحابہ ؓ میں ہیں جو فقہ کے موسس اوربانی سمجھے جاتے ہیں،خصوصاً فقہ حنفی کی عمارت تمام تر حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ہی کے سنگِ اساس پر تعمیر ہوئی۔ پہلے گذر چکا ہے کہ حضرت عبداللہ ؓ کوفہ کے قاضی مقرر ہوئے تو اس کے ساتھ تعلیم دین کی خدمت بھی سپرد ہوئی تھی، اس بنا پر ان کو قدرۃ ایک حلقہ درس قائم کرنا پڑا اور عام مسلمانوں میں مسائل فقہ اوراپنے اجتہادات کی ترویج واشاعت کا نہایت کافی موقع ہاتھ آیا،اس طرح تمام خطہ عراق فقہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا پیرو ہوگیا اوران کی درس گاہ سے بڑے بڑے اہل کمال سند فضیلت لے کرنکلے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے مخصوص تلامذہ میں سے علقمہ اوراسود نے فقہ میں خاص شہرت حاصل کی، پھر ان کے بعد ابراہیم نخعی نے کوفہ کی فقہ کو بہت کچھ وسعت دی،یہاں تک کہ ان کو فقیہ العراق کا لقب ملا۔ اصول فقہ قرآن ،حدیث ،اجماع اورقیاس فقہ اسلامی کی عمارت کے چارستون ہیں اوریہی اصول فقہ کے موضوع فن بھی ہیں، ان میں سے دونوں مؤخرالذکر کی ضرورت رسول اللہ ﷺ کے بعد پیش آئی،کیونکہ مہبط وحی والہام کی موجودگی میں اجماع وقیاس کی ضرورت ہی کیاتھی۔ اجماع اجماع کو عملی حیثیت سے رواج دینا گو حضرت ابوبکر ؓ وحضرت عمرفاروق ؓ کا خاص طغرائے امتیاز ہے،تاہم اصولی حیثیت سے پہلے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اس کو مستحسن قراردیا اورفرمایا: مارای المسلمون حسنا فھو عند اللہ حسن وماراواسیئا فھوعنداللہ سئی جس چیز کو تمام مسلمان بہتر سمجھ لیں وہ خدا کے نزدیک بھی بہتر ہے اورجس کو براسمجھ لیں وہ خدا کے نزدیک بھی برا ہے۔ اوریہی درحقیقت اجماع کی اصلی روح ہے قیاس اصولِ فقہ کا چوتھا رکن قیاس ہے، جو درحقیقت قرآن پاک،حدیث نبوی اوراجماع ہی کی ایک شاخ ہے،لیکن توسیع فقہ اورنئے نئے مسائل کی گتھیوں کی سلجھانے کے لحاظ سے وہ خاص اہمیت رکھتا ہے،یہ ظاہر ہے کہ قرآن مجید اوراحادیث میں تمام جزئیات مذکور نہیں اور نہ اس قدر احاطہ ممکن تھا،اس لیے علت مشترکہ نکال کر ان جزئیات غیر منصوصہ کو احکام منصوصہ پر قیاس کرنا فقیہ یا مجتہد کا سب سے اہم فرض ہے اوردرحقیقت یہی وہ موقع ہے جہاں اس کی قوتِ اجتہاد تفریع مسائل واستنباط احکام کا امتحان ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ عملاً قیاس شرعی سے کام لے کر آیندہ نسلوں کے لیے ایک وسیع شاہراہ قائم کردی اورضمناً بہت سے ایسے قاعدے مقرر کردئے جو آج ہمارے علم اصولِ فقہ کی بنیاد ہیں،ہم یہاں ان کے چند قیاسی مسائل نقل کرتے ہیں جن سے ان کی قوت استنباط کا اندازہ ہوگا۔ حج یا عمرہ کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی احرام باندھ لے اوردشمن کے سدِ راہ ہو جانے سے حج یا عمرہ کے ارکان کو پورا نہ کرسکے تو وہ صرف قربانی کا جانور بھیج کر احرام کھول دے اورآیندہ جب کبھی موقع میسر آئے اپنے ارادہ کو پورا کرے جیسا کہ خود آنحضرت ﷺ نے غزوۂ حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا،لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ مجبوری کو علتِ مشترکہ قرار دے کر مریض یادوسرے مجبوراشخاص کے لیے بھی یہی حکم جاری فرماتے ہیں،چنانچہ ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ میں عمرہ کے لیے احرام باندھ چکا تھا کہ اتفاقا ًسانپ نے کاٹ کھایا اوراب جانے کی طاقت نہیں رہی، بولے تم صرف قربانی بھیج کر احرام کھول دو اورجب ممکن ہو عمرہ ادا کرو۔ (موطا امام محمد:۲۳۲) اس قیاس سے ضمناً دونہایت اہم اصول منضبط ہوتے ہیں، (ا) اشتراک علت اشتراکِ حکم کا باعث ہے۔(۲) سبب کا خاص ہونا حکم کی تعمیم پر کچھ اثر نہیں ڈالتا۔ علم فرائض کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ میت سے جس کو زیادہ قرابت ہوگی، اس کو وراثت میں ترجیح دے جائے گی، مثلاً حقیقی بھائی کو اخیافی یا علاتی بھائی پر صرف اس لیے ترجیح ہے کہ اول الذکر کو ماں اورباپ دونوں کی طرف سے قرابت ہے،برخلاف اس کے دونوں مؤخر الذکر میں صرف ایک ہی حیثیت پائی جاتی ہے،حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اس اصول کو دوسرے قرابت داروں میں بھی پیش نظر رکھتے ہیں، مثلاً ایک میت نے زید اوربکر دوچچازاد بھائی چھوڑے اورزید اس رشتہ کے علاوہ میت کا اخیافی بھائی بھی ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اس صورت میں ازدیاد قربت کی علت مرحجہ نکال کر زید کو بکر پر ترجیح دیتے ہیں، لیکن جمہور علمائے اہل سنت عصبہ ہونے کی حیثیت سے ان دونوں میں کوئی تفریق نہیں کرتے ۔ (التوضیح واتسویح) اجتہاد مذکورہ بالاقیاسی مسائل کے علاوہ فقہ اسلامی کی بہت سی پیچیدہ گتھیاں صرف حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ناخن اجتہاد سے حل ہوئیں ،آپ استنباط احکام وتفریع مسائل پر غیر معمولی قدرت رکھتے تھے،اورنصوص شرعیہ میں ناسخ و منسوخ،موقت وموبٔد کی تضریق کرکے صحیح استنباطِ حکم راہ پیدا کر لیتے تھے،مثلا ایک دفعہ استفتاء آیا کہ ایک حاملہ عورت کے لیے جس کا شوہر مرگیاہو، عدت کیا ہے؟ چونکہ قرآن مجید میں عدت کے متعلق مختلف احکام ہیں،سورۂ بقرہ میں عام حکم ی ہے۔ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا (البقرۃ:۲۳۴) تم میں سے جولوگ مرجائیں اوربیویاں چھوڑیں تو وہ(عورتیں) اپنے آپ کو چار مہینے دس دن تک روکے رکھیں۔ اورسورۂ نساء میں خاص حاملہ عورتوں کے لیے جن کے شوہر مرگئے ہوں یہ حکم ہے۔ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (الطلاق:۴) اورجو عورتیں حاملہ ہوں ان کی مدت یہ ہے کہ اپنا حمل وضع کریں اس بنا پر حضرت علی ؓ کا خیال تھا کہ جس میں زیادہ مدت صرف ہو وہی زمانہ عدت قرار دیاجائے،تاکہ دونوں آیتوں کا توافق پیدا ہوجائے ،لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے حاملہ عورت کے حق میں سورۂ بقرہ کی آیت کو سورۂ نساء کی آیت سے منسوخ قرار دے کر وضع حمل عدت قراردی اورفرمایا کہ میں اس کے لیے مباہلہ کرسکتا ہوں کہ سورۂ بقرہ، سورۂ نساء کے بعد نازل ہوئی ہے۔ (التوضیح والتلویح) یہ مسئلہ کہ جہری نمازوں میں مقتدی کو سورۂ فاتحہ پڑھنا چاہئے یا نہیں؟ آج تک احناف اوردیگر فرقِ اسلامیہ کے درمیان ایک معرکۃ الآراء مبحث ہے اوراس کا کسی طرح فیصلہ ہی نہیں ہونے پاتا، حضرت عبداللہ ؓ کے زمانہ میں یہ بحث پیدا ہوچکی تھی، چنانچہ ایک شخص نے بطریق اسفتاءاس مسئلہ کو ان کے سامنے پیش کیا انہوں نے جواب دیا۔ انصت فان فی الصلوۃ شغلا سیکفیک ذاک الامام (موطا امام محمد:۱/۹۶) خاموش رہو کیونکہ نماز میں توجہ قائم نہیں رہتی امام کا پڑھنا تمہارے لیے کافی ہے۔ اس جواب میں درحقیقت حسب ذیل تین دلیلوں کی طرف اشارہ ہے جو آج بھی احناف کے لیے مخالفین کے مقابلہ میں بمنزلہ سپر ہے (۱)وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا۔ (الاعراف:۲۰۴) جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو سنو اورخوموش رہو۔ (۲)مقتدی کی قرأت سے نماز میں توجہ قلب باقی نہیں رہتی۔ (۳)آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے" من کان لہ امام فقرأۃ الامام قراۃ لہ " یعنی جو امام کے پیچھے ہو اس کے لیے امام کی قرأت کافی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت ابوموسٰی اشعری ؓ کے پاس فرائض کا یہ استفتاء آیا کہ ایک میت نے ورثہ میں ایک لڑکی ایک پوتی اورایک بہن چھوڑی ہے،اس کی جائداد کس طرح تقسیم ہوگی انہوں نے جواب دیا کہ لڑکی اوربہن نصف کی مستحق ہیں اورپوتی محروم الارث ہے ،ابوموسیٰ ؓ کے جواب کے ساتھ یہی استفتاء حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں آیا، انہوں نے فرمایااگر میں رسول خدا ﷺ کے فرمان پر ابوموسیٰ کے قول کو ترجیح دوں تو میں گمراہ ہوں گا، بیشک لڑکی نصف پائے گی،لیکن دوثلث پورا کرنے کے لیے ایک سدس پوتی کو بھی ملے گا اورجو باقی رہے گا وہ بہن کا حصہ ہے،(مسند احمد:۱/۴۲۸،بخاری :۲/۹۹۷)یہ جواب حضرت ابوموسیٰ ؓ کو معلوم ہوا تو فرمایا جب تک یہ بڑا عالم ہم میں موجود ہے اس وقت تک ہم سے پوچھنے کی ضرورت نہیں، چنانچہ آج یہی فتویٰ تمام مسلمانوں کا معمول بہ ہے۔ معاصرین فضل وکمال کے معترف تھے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے تبحر علمی و ملکۂ اجتہاد کے تمام صحابہ کرام ؓ معترف تھے، حضرت عمرؓ جب ان کو دیکھتے تو چہرہ بشاش ہو جاتا اورفرماتے: كنيف ملىء علما (طبقات ابن سعدقسم اول جز ثالث :۱۱۰) (مستدرک حاکم،مناقب) ایک ظرف ہے جو علم سے بھرا ہوا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت علی ؓ سے چند کوفیوں نے ان کے تقویٰ ،حسنِ خلق اورتبحرعلمی کی بیحد تعریف کی ،انہوں نے پوچھا کیا تم سچے دل سے کہتے ہو؟ بولے ہاں، فرمایا: تم لوگوں نے عبداللہ بن مسعود ؓ کی جو کچھ تعریف کی ہے میں ان کو اس سے بھی بہتر خیال کرتا ہوں۔ (طبقات ابن سعد ق اجز ۳:۱۱۰) ایک دفعہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے ایک شخص نے پوچھا کہ اگر کسی کے حلق سے بیوی کا دودھ فرو ہوجائے تو اس کے لیے کیا حکم ہے، انہوں نے جواب دیا کہ وہ اس پر حرام ہوجائے گی، حضرت عبداللہ ؓ موجود تھے،انہوں نے روک کر کہا آپ یہ کیا فتویٰ دیتے ہیں؟ رضاعت صرف دوسال تک ہے،حضرت ابوموسیٰ ؓ نے خوش ہوکر اعتراف فضل کے لہجہ میں لوگوں سے کہا جب تک یہ حبر یعنی عالم متجر تم میں موجود ہے مجھ سے کچھ نہ پوچھو۔ (مؤطا امام مالک:۲۲۳) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے ایک شخص سے جو تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے تھا کہا تہ بند ذرا اوپر کرکے باندھو، اس نے کہا ابن مسعود تم بھی تہ بند اوپر کرو،بولے میں تمہارے جیسا نہیں ہوں، میری ٹانگیں پتلی ہیں، حضرت عمرؓ نے اس رد وقدح کا حال سنا تو اس شخص کو کوڑے لگوائے کہ تونے عبداللہ بن مسعود ؓ جیسے شخص سے منھ زوری کی۔ (اصابہ :۳/۱۳۰) نا معلوم مسائل میں رائے زنی سے احتراز ایک طرف توان کی قوتِ اجتہاد وجلالت شان کا یہ حال تھا ،لیکن دوسری طرف حزم واحتیاط کا یہ عالم تھا کہ نامعلوم مسائل میں کبھی رائے زنی سے کام نہ لیتے اوراپنے شاگردوں کو ہمیشہ ہدایت فرمایا کرتے کہ جس چیز کو تم نہ جانتے ہو اس کی نسبت یہ نہ کہا کرو کہ میری رائے یہ ہے یا میرا خیال یہ ہے بلکہ صاف کہدیا کرو کہ میں نہیں جانتا۔ (اعلام الموقنین :۶۴) مسروق جوان کے خاص تلامذہ میں ہیں بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود ؓ اکثر حسرت وافسوس کے ساتھ فرمایا کرتے تھے کہ عنقریب ایک ایسا زمانہ آنے والا ہےجبکہ علماء باقی نہ رہیں گے اورلوگ ایسے جاہلوں کو سردار بنالیں گے جو تمام امور کو محض اپنی عقل ورائے سے قیاس کریں گے۔ (اعلام الموقنین :۶۴) ایک مرتبہ ان کے پاس یہ استفتاء آیا کہ ایک عورت کا نکاح ہوا لیکن اس میں مہر کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا، یہاں تک کہ اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا، اس کے لیے کیا حکم ہے وہ مہر دوراثت کی مستحق ہے یا نہیں؟ چونکہ ان کو اس کے متعلق کوئی واقفیت نہ تھی اس لیے لوگوں کے ضد اوراصرار کے باوجود تقریباً ایک مہینہ تک خاموش رہے،لیکن جب زیادہ مجبور کئے گئے تو بولے میرا فیصلہ یہ ہے کہ وہ مہر مثل اور وراثت کی مستحق ہے اوراس کو عدت میں بیٹھنا چاہئے، پھر فرمایا، اگر یہ صحیح ہے، تو خدا کی طرف سے ہے اوراگر غلط ہے تو میری طرف سے اورشیطان کی طرف سے ہے خدا اوراس کا رسول ﷺ اس سے بری ہے، اس وقت حاضرین میں دو صحابی حضرت جراح ؓ اورحضرت ابوسنان ؓ موجود تھے، انہوں نے اٹھ کر کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بروع بنت واشق کے حق میں بھی یہی فیصلہ فرمایا تھا، اس توافق سے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو غیر معمولی مسرت حاصل ہوئی۔ (ابوداؤد باب فیمن تزوج ولم یسم صداقھا) فتوی سے رجوع کرنا اگر وہ کبھی کوئی فتویٰ دیتے اور بعد کو اس کے خلاف ثابت ہو جاتا تو فوراً اس سے رجوع کرلیتے، ایک مرتبہ کوفہ میں ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو ہاتھ نہ لگایا ہو تو اس کے بعد اس کی ماں سے نکاح کرسکتا ہے؟ حضرت عبداللہ ؓ نے جوازکا فتویٰ دیا، لیکن جب مدینہ آئے اورلوگوں سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ربیبہ لڑکیوں کے سوا اورتمام صورتوں میں ناجائز ہے،چنانچہ انہوں نے کوفہ واپس آکر براہ راست مستقنی سے ملاقات کی اوراپنے فتویٰ سے رجوع کرکے فسخ نکاح کا حکم دیا۔ (موطا امام مالک :۱۹۳) معاصرین سے استفادہ نا معلوم مسائل میں ان کو اپنے اہل علم معاصرین سے استفادہ کرنے میں عارنہ تھا،ایک مرتبہ انہوں نے اپنی بیوی سے ایک لونڈی خرید ی اورشرط یہ قرار پائی کہ اگر وہ فروخت کی جائے تو اس کی قیمت ان کی بیوی کو ملے گی،چونکہ ان کو خود اس بیع کی تکمیل میں شک تھا، اس لیے انہوں نے حضرت عمرؓ سے فتویٰ پوچھا انہوں نے جواب دیا کہ بیع مشروط سے ملکیت حاصل نہیں ہوتی تم اس کے قریب نہ جاؤ۔ (موطا امام محمد:۳۴۲) امام محمد نےکتاب الآثار میں روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام میں سے چھ شخص مجتہد تسلیم کئے جاتے تھے، اور وہ باہم مسائل فقیہ میں بحث ومذاکرہ کرتے رہتے تھے، علی ؓ، ابی بن کعب ؓ، اورحضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ ایک ساتھ اورعمر ؓ،زید بن ثابت ؓ اور عبداللہ بن مسعود ؓ ایک ساتھ امام شعبی کا بیان ہے کہ عمرؓ ،زید اورعبداللہ بن مسعود ؓ باہم ایک دوسرے سے استفادہ کرتے تھے اوراسی وجہ سے ان کے مسائل باہم ملتے جلتے ہیں۔ ارباب علم کی قدرشناسی حضرت عبداللہ ؓ اربابِ علم وفضل کی نہایت عزت کرتے تھے ،حضرت عمرؓ کی نسبت ان کا قول تھا کہ ،اگر تمام عرب کا علم ایک پلہ میں رکھا جائے اورعمرؓ کا علم دوسرے پلہ میں تو عمر ؓ کا پلہ بھاری رہے گا، وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ عمر ؓ کے ساتھ ایک گھڑی بیٹھنا میں سال بھر کی عبادت سے بہتر جانتا ہوں۔ (استیعاب تذکرہ عمرفاروق ؓ) حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی نسبت فرمایا کرتے تھے، ابن عباس ؓ بہترین ترجمان قرآن ہیں، اگر وہ عہد رسالت میں ہم لوگوں کا سنِ پاتے تو کوئی ان کی برابری نہ کرسکتا۔ (تذکرہ الحفاظ :۱/۳۵) علقمہ ان کے شاگرد تھے،انہوں نے محض اپنی ذہانت وکثرتِ معلومات کے باعث ان کے حلقہ درس میں ممتاز عزت حاصل کرلی تھی، حضرت عبداللہ ان کی نسبت فرمایا کرتے تھے کہ علقمہ کے معلومات سے میرے معلومات زیادہ نہیں ہیں۔ (تہذیب التہذیب :۸/۳۰۸) احترامِ خلافت منصب خلافت کانہایت ادب واحترام ملحوظ رکھتے تھے اورکبھی خلیفہ وقت کا کوئی حکم یا فعل سنتِ ماضیہ کے خلاف نظر آتا تو عملا اس کی مخالفت نہ فرماتے تھے کہ اس سے امتِ مرحومہ میں تفریق وانتشارکا اندیشہ تھا،ایک سال حج کے موقع پر حضرت عثمان ؓ نے منیٰ میں دو کے بجائے چار رکعتیں ادا کیں، حضرت عبداللہ ؓ کو خبر ملی تو متاسف ہو کر بولے اناللہ واناالیہ راجعون میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں، ابوبکر ؓ وعمرؓ کے عہد میں بھی دوہی رکعتیں تھیں، اب یہ کیا انقلاب ہے؟(بخاری :۱/۱۴۷) لیکن عملاً انہوں نے چار ہی رکعتیں پڑھیں، لوگوں نے اس پر تعجب ظاہر کیا تو بولے کہ خلافت کا احترام ضروری ہے۔ (مسند اعظم :۸۶) درس وتدریس حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کوفہ میں باقاعدہ حدیث ،فقہ اورقرآن پاک کی تعلیم دیتے تھے،ان کی درس گاہ میں شاگردوں کا بڑا مجمع رہتا تھا، جن میں سے علقمہ رحمہ اللہ ، اسودرحمہ اللہ، مسروق، عبیدہ حارث،قاضی شریح اورابووائل نہایت نام آور ہوئے خاص کر علقمہ ان کی صحبت میں اس التزام سے رہے تھے اوران کے طور وطریقہ کے اس قدر پابند تھے کہ لوگوں کا بیان تھا کہ جس نے علقمہ کو دیکھ لیا اس نے عبداللہ بن مسعود ؓ کو دیکھ لیا۔ شاگردوں کی ایک جماعت سفر میں بھی عموماً ہمراہ ہوتی تھی، علقمہ اس قدر اہتمام کرتے تھے کہ اگر خود جانے سے مجبور ہوتے تو اپنے کسی رفیق کو ساتھ کردیتے اورتاکید کرتے کہ ہمیشہ حاضرِ خدمت رہیں ،عبدالرحمن بن یزید کا بیان ہے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے ایک مرتبہ حج کا قصد کیا علقمہ نے مجھ کو ان کے ہمراہ بھیجا اورتاکید کی کہ ہروقت حاضر رہوں اورجو کچھ معلومات حاصل ہوں ان سے ان کو مطلع کروں۔ (مسند احمد:۱/۴۶۱) ایک مرتبہ حضرت خباب ؓ نے ان کے وسیع حلقہ درس کو دیکھ کر کہا ابو عبدالرحمن کیا آپ کی طرح آپ کے یہ نوجوان شاگرد بھی باقاعدہ قرأت کرسکتے ہیں؟ بولے اگر آپ کی خواہش ہو تو کسی کو سنانے کا حکم دوں، حضرت خباب ؓ نے کہا کیوں نہیں؟ حضرت عبداللہ ؓ نے علقمہ کی طرف اشارہ کیا، انہوں نے تقریبا پچاس آیتوں کی ایک سورت پڑھ کر سنائی،حضرت عبداللہ ؓ نے حضرت خباب کی طرف دیکھ کر کہا،کیارائے ہے؟ انہوں نے نہایت تعریف کی۔ (بخاری:۲/۶۳۰) معتقدین کا ہجوم تلامذہ کے علاوہ معتقدین کا ایک بڑا مجمع بھی ہر وقت حاضر رہتا تھا ،شقیق کابیان ہے کہ،ہم لوگ مسجد میں بیٹھ کر عبداللہ بن مسعود ؓ کے مکان سے برآمد ہونے کا انتظار کرتے رہتے تھے۔ (بخاری :۲/۶۳۰) طارق بن شہاب کہتے ہیں ہم لوگ عبداللہ بن مسعود ؓ کے گرد بیٹھتے اوران کی صحبت سے فیضیاب ہوتے تھے، ایک روزحسب معمول بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص السلام یا ابا عبدالرحمن کہتا ہوا تیزی کےساتھ اس طرف سے گذرا ،انہوں نے جواب دیا صدق اللہ ورسولہ یعنی خدا اوراس کے رسول نے سچ فرمایا ہے یہ کہہ کر داخل حرم ہوئے ،ہم لوگوں کو اس جواب پر سخت حیرت تھی، باہم مشورہ ہواکہ ان کے برآمد ہونے کے بعد کون اس کے متعلق سوال کرے؟ میں نے کہا کہ میں پوچھوں گا، غرض وہ تشریف لائے اور میں نے پوچھا بولے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ خاص خاص آدمیوں کو سلام کرنا ،تجارت کا ترقی کرنا، اعزہ کے ساتھ بدسلوکی ،جھوٹی گواہی دینا اورحق کو چھپانا، قربِ قیامت کی نشانی ہے۔ (بخاری:۴۰۷) قوتِ تقریر اوروعظ وپند تقریروخطابت میں خاص مہارت رکھتے تھے،ایجازواختصار کے ساتھ تاثیر ان کی تقریر اوروعظ کی ممتاز صفت تھی، ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مختصر تقریر فرمائی ،پھر حضرت ابوبکر ؓ کو اور ان کے بعد حضرت عمرؓ کو تقریر کا حکم دیا، ان دونوں نے باری باری اختصار کے ساتھ اپنا بیان ختم کیا، توحضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو حکم ہوا،انہوں نے کھڑے ہوکر حمدو نعت کے بعد کہا۔ ایھا الناس ان اللہ ربنا وان الاسلام دیننا وان ھذانبینا (واومابیدہ الی النبی ﷺ ) رضینا مارضی اللہ لناورسولہ، السلام علیکم صاحبو! بے شک خدا ہمارا مالک ہے، اسلام ہمارا مذہب ہے اوریہ(ہاتھ سے آنحضرت ﷺ کی طرف اشارہ کرکے) ہمارے نبی ﷺ ہیں،خدا اوراس کے رسول نے جو کچھ ہمارے لیے پسند کیا ہے ہم نے بھی اس کو پسند کیا، السلام علیکم آنحضرت ﷺ نے اس مختصر تقریر کی نہایت تعریف کی اورفرمایا، ابن ام عبد نے سچ کہا۔ (تذکرۃ الحفاظ :۱/۱۳) حضرت عبداللہ بن مسعود اپنے مواعظ حسنہ میں عموماً توحید، نماز باجماعت اورخوف خدا کی تلقین فرماتے اورتمثیلات سے ذہن نشین کراتے تھے ،مثلاً ایک وعظ میں انہوں نے فرمایا کہ ایک شخص نے جس کے نامۂ اعمال میں توحید کے سوا اورکوئی نیکی نہ تھی، مرنے کے وقت وصیت کی کہ میری لاش کو جلا کر اورچکی میں پیس کر سمندر میں ڈال دینا،لوگوں نے اس کی وصیت پوری کی،خدانے اس کی روح سے سوال کیا تو نے اپنی لاش کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ بولا خدایا تیرے خوف اورڈر سے، اس گذارش پر دریائے رحمت جوش میں آیا اوروہ بخشدیا گیا،(مسند احمد:۱/۳۹۸) اس تمثیل سے درحقیقت یہ سمجھانا تھا کہ خشیت باری تمام اعمالِ حسنہ کی روح ہے۔ کثرتِ وعظ سے احتراز وہ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ وعظ وپند کی کثرت اس کے اثر کو زائل کردیتی ہے، اس بنا پر لوگوں کے ضد واصرار کے باوجود بہت کم منبر وعظ پر تشریف لے جاتے اورجو کچھ کہنا ہوتا اس کو نہایت مختصر صاف وسادہ لیکن مؤثر الفاظ میں فرماتے کہ سامعین تقریر کی طوالت سے گھبرانہ اٹھیں، ایک مرتبہ وعظ سننے کے شوق میں معتقدین کا ہجوم تھا، یزید بن معاویہ نخعی نے ان کو خبر دی،لیکن وہ بہت دیر کے بعد گھر سے برآمد ہوئے اورفرمایا،صاحبو! مجھے معلوم تھا کہ آپ دیر سے میرا انتظار کر رہے ہیں،لیکن میں اس ڈر سے باہر نہیں آیا کہ کثرتِ بیان آپ کو تھکادے گی،رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں کی تکلیف کے خیال سے کئی کئی دن ناغہ دے کر وعظ فرماتے تھے۔ (مسند احمد:۱/۳۷۷) یوں تو ان کا دولت کدہ ہر وقت طالبان علم کا مرجع رہتا تھا،لیکن طلوع آفتاب کے بعد کے وقت مسئلہ مسائل کے لیے مخصوص تھا، ابووائل بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن فجر کی نماز کے بعد عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس گئے، وہ اس وقت تسبیح و تہلیل میں مصروف تھے، طلوع آفتاب کے بعد ایک شخص نے پوچھا میں نے رات نماز میں پوری مفصل پڑھیں، عبداللہ ؓ نے کہا شعر کی طرح جلدی جلدی پڑھی ہوں گی، ہم نے قرائن کی تلاوت سنی ہے اورمجھے وہ قرائن یاد ہیں جن کو آنحضرت ﷺ پڑھا کرتے تھے، آپ دس مفصل اور دوسورتیں آل عم کی پڑھتے تھے۔ (مسلم :۱/ ۳۰۴، مطبوعہ مصر اس حدیث میں اورواقعات بھی ہیں،مگر ان کا تعلیم سے تعلق نہیں ہے اس لیے ہم نے حذف کردیئے) اخلاق سنت نبوی کی پیروی کے شوق نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے اخلاق وطرز معاشرت میں ایک گونہ حضرت خیر الانام ﷺ کے مکارم ومحامد کی جھلک پیدا کردی تھی، عبدالرحمن بن یزید کا بیان ہے کہ ہم نے حضرت حذیفہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا، آپ ہم کو کسی ایسے شخص کا پتہ دیجئے جو خلق وہدایت میں آنحضرت ﷺ سے قریب تر ہوتا کہ ہم اس سے کچھ حاصل کریں، بولے عبداللہ بن مسعود ؓ سب سے زیادہ آنحضرت ﷺ کی ہدایت، حسن خلق اور طور طریقے کے پابند تھے اورحضوراکرم ﷺ کے دوستوں میں سے جو لوگ موجود ہیں وہ جانتے ہیں کہ بارگاہِ نبوت میں تقرب کے لحاظ سے ابن ام عبد کا درجہ سب سے بلند ہے۔ (جامع ترمذی مناقب عبداللہ بن مسعود ؓ) حضرت علی ؓ جب کوفہ تشریف لے گئے تو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے چند دیرینہ احباب ان سے ملنے آئے، حضرت علی ؓ نے امتحاناً حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی نسبت ان کے خیالات دریافت کئے ،سب نے بالاتفاق تعریف کی اورکہا امیر المومنین! ہم نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے زیادہ متقی پرہیز گار، خلیق، نرم دل اوربہتر ہم نشین نہیں دیکھا، حضرت علی ؓ نے فرمایا بے شک میرا بھی یہی خیال ہے،بلکہ تم نے جو کچھ تعریف کی میں ان کو اس سے زیادہ بہتر سمجھتا ہوں، انہوں نے قرآن پڑھا، حلال کو حلال اورحرام کو حرام کیا وہ دین کے فقیہ اورسنت کے عالم تھے۔ (طبقات ابن سعد: قسم ۱ :۲/۱۱۰) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ایک دفعہ اپنے ایک دوست ابو عمیر سے ملنے گئے، اتفاق سے وہ موجود نہ تھے انہوں نے ان کی بیوی کو سلام کہلا بھیجا اورپینے کے لیے پانی مانگا،گھر میں پانی موجود نہ تھا، ایک لونڈی کسی ہمسایہ کے یہاں سے لانے گئی اوردیر تک واپس نہ آئی، ابوعمیر کی بیوی نے غضبناک ہوکر اس کو سخت وسست کہا اوراس پر لعنت بھیجی، حضرت عبداللہ ؓ یہ سن کر تشنہ لب واپس چلے آئے دوسرے روز ابو عمیرسے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اس قدر جلد بازی کے ساتھ واپس چلے آنے کی وجہ پوچھی بولے خادمہ نے جب پانی لانے میں دیر کی تو تمہاری بیوی نے اس پر لعنت بھیجی،چونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جس پر لعنت بھیجی جاتی ہے اگر وہ بے قصور ہوتا ہے تو بھیجنے والے پر لوٹ آتی ہے، میں نے خیال کیا کہ خادمہ اگر معذور ہوئی تو بے وجہ میں اس لعنت کے واپس آنے کا باعث ہوں گا۔ (بخاری :۲/۹۷) ایک بار انہوں نے ایک شخص سے ایک لونڈی خریدی ؛لیکن قیمت بے باق ہونے سے پہلے بائع مفقود الخبر ہوگیا حضرت عبداللہ نے ایک سال تک اس کو تلاش کیا؛مگر کچھ پتہ نے چلا بالآخر مایوس ہوکر ایک ایک دو دو درہم کرکے اس کی طرف سے صدقہ کردیا اور فرمایا اگر وہ واپس آئے گا تو قیمت ادا کروں گا اور یہ صدقہ میری طرف سے ہوگا۔ تمیم بن حرام فرماتے ہیں کہ مجھ کو اکثر اصحاب رسول اللہ ﷺ کی ہم نشینی کا فخر حاصل ہے،لیکن میں نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے زیادہ کسی کو دنیاسے بے نیاز اورآخرت کا طالب نہ دیکھا،(اصابہ تذکرہ عبداللہ بن مسعود ؓ)حضرت عثمان ؓ نے دو برس تک ان کا وظیفہ بند کردیا تھا، وفات کے وقت انہوں نے ان کی اولاد کے لیے جاری کردینا چاہا ؛لیکن حضرت عبداللہ نے نہایت بے نیازی کے ساتھ انکار کردیا، بولے ،کیا آپ کو میری اولاد کے محتاج ودست نگر ہوجانے کا اندیشہ ہے؟ میں نے انہیں حکم دیا ہے کہ ہررات کو سورۂ واقعہ پڑھ لیا کریں،کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جوہررات کو سورۂ واقعہ پڑھے گا وہ کبھی فاقہ نہ ہوگا۔ (اسد الغابہ:۳/۲۵۹) حضرت عبداللہ ؓ کو مہمان نوازی کا نہایت شوق تھا،انہوں نے کوفہ میں موضع الرمادہ کامکان مخصوص طور سے مہمانوں کے لیے خالی کردیا تھا۔ (تاریخ طبری میں:۲۸۴۲) مذہبی زندگی عبیداللہ بن عبداللہ کا بیان ہے کہ رات کے وقت جب کہ تمام دنیا محو راحت ہوتی تھی، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیٹھ کر صبح تک آہستہ آہستہ قرآن کی تلاوت فرماتے تھے،(اسدالغابہ تذکرہ عبداللہ بن مسعود ؓ) رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی تمام طاق راتیں شب قدر کی تلاش میں بسر ہوتی تھیں، ابوعقرب کہتے ہیں کہ میں رمضان میں ایک روز علی الصبح ان کی خدمت میں حاضر ہوا دیکھا کہ مکان کی چھت پر بیٹھے ہوئے فرمارہےہیں، خدا اور اس کے رسول نے سچ کہا میں نے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ بولے رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا تھا کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں ہے اوراس کی علامت یہ ہے کہ اس روز جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس میں شعاع نہیں ہوتی ؛چنانچہ آج میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ (مسند احمد:۱/۴۰۶) سارا گھر صبح سویرے بیدار ہوکر عبادت میں مشغول ہوجاتا تھا، خود صبح صادق سے طلوع آفتاب تک تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے تھے۔ ابووائل راوی ہیں کہ ایک دن ہم لوگ صبح کی نماز پڑھ کر عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس گئے دروازہ پر کھڑے ہوکر سلام کیا،اندر آنے کی اجازت ملی؛ لیکن ہم لوگ تھوڑی دیر دروازے پرٹھہرے رہےکہ اتنے میں لونڈی نے آکر کہا آتے کیوں نہیں، ہم لوگ گھر میں گئے تو وہ بیٹھے ہوئے تسبیح پڑھ رہے تھے،کہا اجازت ملنے کے بعد تم لوگوں کو اندرآنے سے کس نے روکا تھا؟ ہم لوگوں نے کہا کسی نے نہیں، خیال ہوا ممکن ہے بعض اہل بیت سورہے ہوں،کہا ابن ام عبد کی اولاد پر تم نے غفلت کا گمان کیا،اس کے بعد پھر تسبیح میں مشغول ہوگئے،جب سمجھے کہ آفتاب نکل چکا تو لونڈی سے کہا دیکھو آفتاب طلوع ہوا؟اس نے جاکر دیکھا تو ابھی طلوع نہ ہوا تھا، پھر تسبیح میں مشغول ہوگئے ،تھوڑی دیر کے بعد پھر لونڈی سے کہا دیکھو آفتاب طلوع ہوا، اس نے جاکے دیکھا تو طلوع ہوچکا تھا تو پھر یہ دعا پڑھی، اس خدا کا شکر ہے جس نے ہم کو آج کے دن معاف کردیا، مہدی راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں یہ بھی کہا تھا اورہمارے گناہوں کے بدلے میں ہم کو ہلاک نہیں کیا۔ (مسلم :۱/۳۰۵ باب ترتیل القراۃ واجتناب الہذ) نمازیں نہایت کثرت سے پڑھتے تھے،فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ سب سے بہتر عمل خیر کیا ہے؟ ارشاد ہوا کہ نماز کا اپنے وقت پر ادا کرنا، میں نے کہا پھر کیا ہے؟ فرمایا والدین کے ساتھ نیکو کاری، میں نے کہا پھر؟ حکم ہوا، راہ خدا میں جہاد کرنا، اس کے بعد خاموش ہوگیا، ہاں اگر میں اپنا سوال آگے بڑھاتا تو آپ اس پر کچھ اوراضافہ فرماتے ،(بخاری :۱/۳۹۰) غرض اس ارشاد کے مطابق وہ فرائض ٹھیک وقت پر ادا کرتے تھے، ایک مرتبہ ولیدبن عقبہ والی کوفہ کو پہنچنے میں دیر ہوگئی،حضرت عبداللہ نے بغیر توقف وانتظارکےنماز پڑھادی،ولید نے برہم ہوکر کہلا بھیجا، آپ نے ایسا کیوں کیا؟ کیا امیر المومنین کا کوئی حکم ہے یا اپنی ایجاد؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہ تو امیرالمومنین کا حکم ہے اورنہ اپنی ایجاد ،البتہ خدا کو یہ نا پسند ہے کہ تم اپنے مشاغل میں مصروف رہو اور لوگ نماز میں تمہارے منتظر رہیں۔ ( مسند احمد:۱/۴۵۰) رمضان کے علاوہ ہفتہ میں دو دن دوشنبہ اورجمعرات عموماً روزوں کے لیے مخصوص تھے ،عاشورے کا روزہ بھی پابندی کے ساتھ رکھتے تھے، باوجود اس کے عبدالرحمن ابن یزید کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مسعود ؓ کے سوا اور کسی فقیہ کو اس قدر کم روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، چنانچہ ایک دفعہ ان سے پوچھا گیا کہ آپ روزے کیوں نہیں رکھتے؟ بولے میں روزہ پر نماز کو ترجیح دیتا ہوں اگر روزے رکھوں گا تو ضعف کے باعث نماز نہ ہوسکے گی۔ (طبقات ابن سعد، قسم اول:۳/۱۰۹) خانگی زندگی بیوی بچوں سے محبت رکھتے تھے، گھر میں داخل ہوتے تو باہرہی سے کھکھارتے اوربلند آواز سے کچھ بولتے، تاکہ گھر کے لوگ باخبر ہوجائیں، ان کی اہلیہ محترمہ حضرت زینب ؓ فرماتی ہیں کہ ایک روز عبداللہ ؓ کھکھار تے ہوئے اندر آئے، اس وقت ایک بڈھی عورت مجھے تعویذ پہنا رہی تھی، میں نے ان کے ڈر سے اس کو پلنگ کے نیچے چھپادیا، عبداللہ آکر میرے پاس بیٹھ گئے،اورگلے کی طرف دیکھ کر پوچھا،یہ دھاگہ کیسا ہے؟ میں نے کہا تعویذ ہے، انہوں نے اس کو توڑ کر پھینک دیا اورکہا عبداللہ کا خاندان شرک سے بری ہے، رسول اللہ ﷺ سے میں نے سنا ہے کہ تعویذ اورگنڈے شرک میں داخل ہیں، میں نے کہا، آپ یہ کیا فرماتے ہیں میری آنکھیں جوش کر آتی تھیں تو میں فلاں یہودی سے تعویذ لینے جایا کرتی تھی اوراس کے تعویذ سے سکون ہوجاتا تھا ،بولے یہ سب عمل شیطانی ہے تمہارے لیے صرف رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا کافی ہے۔ أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ اشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا۔ (مسند احمد:۱/ ۳۸ وابوداؤد:۲/۱۸۶) خوف دورکراے پروردگار شفادے تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے سوا کوئی شفا نہیں، وہ شفا ایسی ہے جو کسی بیماری کو نہیں چھوڑتی۔ پوشاک نہایت سادہ پہنتے تھے، ہاتھ میں ایک آہنی انگوٹھی رہتی تھی،(طبقات )جو غالباً مہروغیرہ کے کام آتی ہوگی، غذا بھی پرتکلف نہ تھی، کھانے کے بعد عموماً نبیذ (چھوہاروں کا شربت )استعمال فرماتے تھے،ایک مرتبہ علقمہ نے ان سے کہا خدا آپ پر رحم کرے، آپ تمام امت کے مقتدا اورپیشوا ہو کر نبیذ پیتے ہیں، بولے میں نے رسول اللہ ﷺ کو نبیذ پیتے ہوئے دیکھا تھا، اگر میں آپ ﷺ کو نہ دیکھتا تو استعمال نہ کرتا۔ (مسند اعظم :۲۰۱) وظیفہ حضرت عبداللہ ؓ کے لیے بیت المال سے پانچ ہزار درہم کا سالانہ وظیفہ مقرر تھا جوان کی وفات سے دو برس پہلے خلیفہ ثالث کے حکم سے بند کردیا گیا تھا،لیکن حضرت زبیر ؓ نے سفارش کرکے ان کی اولاد کے لیے جاری کرادیا، اس طرح ان کے پسماندوں کو ایک مشت دس یا پندرہ ہزار درہم مل گئے، اس کے علاوہ انہوں نے تقریبا ۹۰ ہزار درہم نقد چھوڑے۔ (طبقات ابن سعد ،قسم اول :۳/۱۱۳) حلیہ حلیہ یہ تھا،جسم لاغر ،قدکوتاہ، رنگ گندم گوں اورسرتا کانوں تک نہایت نرم وخوبصورت زلف، حضرت عبداللہ اس کو اس طرح سنوارتے تھے کہ ایک بال بھی بکھرنے نہیں پاتا تھا۔ ٹانگیں نہایت پتلی تھیں، حضرت عبداللہ ہمیشہ ان کو چھپائے رکھتے تھے ایک مرتبہ وہ آنحضرت ﷺ کے لیے مسواک توڑنے کے خیال سے پیلو کے درخت پر چڑھے تو ان کی پتلی ٹانگیں دیکھ کر لوگوں کو بے اختیار ہنسی آگئی، آنحضرت ﷺ نے فرمایا، تم ان کی پتلی ٹانگوں پر ہنستے ہو ؛حالانکہ یہ قیامت کے روز میزان عدل میں کوہِ احد سے بھی زیادہ بھاری ہوں گی۔ (طبقات ابن سعد، صفحہ ۱۱۰)