انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جنگ خندق ۳۲۷ھ کے ابتدائی مہینوں میں امیہ بن اسحاق کے کسی بھائی سے غداری وسازش کا جرم سرزد ہو جس کی سزا میں اس کو سلطان نے قتل کرادیا امیہ بن اسحاق گورنر سرقطہ نے جب اپنے بھائی کے قتل کیے جانے کا حال سنا تو اس کو سخت صدمہ ہوا ،عیسائی سلاطین نے اس موقع کو غنیمت جان کر امیہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور اس کو بڑی آسانی سے بغاوت پر آمادہ کرلیا جلیقیہ کا عیسائی بادشاہ ان دنوں ردمیر نامی بڑا ہوشیاراور تجربہ کار شخص تھا ،امیہ باغی ہوکر اور سرقطہ کی فوج اور خزانہ جس قدر ہمراہ لےجاسکتا تھا ہمراہ لے کر ردمیر کے پاس مقام سمورہ دارالسلطنت جلیقیہ میں چلاگیا اور اسی جگہ نوار لیون اور قسطلہ وغیرہ کی فوجیں بھی آکر فراہم ہونے لگیں برشلونہ وطرکوفہ تک کی فوجیں بھی یہاں تک پہنچ گئیں فرانس سے بھی عیسائی اس طرف آآکرفراہم ہونے لگے،اندلس میں عیسائی طاقت کا یہ سب سے بڑا مظاہرہ تھا،جس میں ایک مسلمان گورنر بھی مع اپنی زبردست طاقت کے شامل اور انتہائی جوش کے ساتھ سلطان عبدالرحمن کو شکست دینے اورنقصان پہنچانے پر ؤمادہ تھا اس مسلمان گورنر نے عیسائیوں کوبڑی بڑی قیمتی معلومات بہم پہنچائیں اور نہایت مفید ومعقول مشورے دیے امیہ بن اسحاق کی موجودگی عیسائیوں کے لیے بے حد ہمت افزائی اور جرأت کا موجب تھی ادھر سلطان عبداللرحمن نے جب اس فساد عظیم کا حال سنا تو اس نے فوراً اعلان جہاد کیا باقاعدہ فوج کے علاوہ بہت سے رضاکار اور غیر مضافی لوگ بھی شوق شہادت میں آآکر شریک لشکر ہوگئے۔ اس لشکر کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ تھی جس کو ہمراہ لےکر سلطان عبدالرحمن نے قرطبہ سے شمال ککی جانب کوچ کیا مگر ان پچاس ہزار سے ز,یادہ آدمیوں کا بڑا حصہ ان لوگوں کا تھا جو تجربہ کاردستیزآزمودہ نہ تھے،جوں جوں سلطانی فوج شمال کی جانب بڑھتی گئی عیسائی فوجیں سمٹ سمٹ کر سمورہ میں جمع ہوتی گئیں عیسائیوں کو اپنی تعداد اور قوت کی زیادتی کے علاوہ ایک یہ مضبوطی حاصل تھی کہ سمورہ کے گرد سات مضبوط دیواریں شہر پناہ کی تھیں اور ہر دیوار کے بعد ایک نہایت عمیق خندق کھدی ہوئی تھی اس کا سپہ سالار اعظم رذمیر تھا اور امیہ بن اسحاق اس کا مشیر ومعاون تھا اسلامی فوج نے جاکر معرکہ کارزارگرم کیا ،عیسائی لشکر نے میدان میں نکل کر مقابلہ کیا ہر ایک میدانی جنگ میں مسلمانوں ک وکامیابی حاصل ہوئی اور عیسائیوں کو پسپا ہونا پڑا کئی روز کی معرکہ آرائی کے بعد عیسائی لشکر سمورہ کی شہر پناہ میں محصور ہوگیا ۳۰شوال ۳۲۷ھ کو مسلمان سخت حملہ کرکے دو دیاروں کے اندر گھس گئے تیسری دیوار کو بھی انہوں نے فتح ککیا لیکن اس دیوار کے اندر پہنچتے ہی عیسائیوں کے لشکر نے جو کمین گاہوں میں پوشیدہ تھا نکل کر ہرطرف سے حملہ شروع کیدیا اور مسلمانوں کی بڑی تعداد بوجہ اس کہ کہ نہ آگے بڑھ سکتی تھی نہ پیچھے ہٹ سکتی تھی خندق میں گرگر کر ڈوب گئی غرض مسلمان ایسے تنگ مقام میں اورایسی بری طرح پھنسے کہ صرف ۴۸ آدمی زندہ بچ کر باہر نکل سکے اور اپنے بادشاہ عبدالرحمن ثالث کو جو پچاسواں شخص تھا بمشکل اس سرغنہ سے بچاکر نکل آئے باقی سب کے سب سمورہ کی خندق میں شہید ہوگئے اس پچاس آدممیوں کے تعاقب میں رذ میر نے ایک رسالہ بھیجنا چاہا تو امیہ بن اسحاق نے اس کو یہ کہہ کر روک دیا کہ بہت زیادہ ممکن ہے کہ اسلامی لشکر کوئی بڑی تعادا باہر جھاڑیوں میں چھپی ہوئی وموجود ہو اور ہر طرف سے گھیر کر آپ کےلشکر پر قدم رکھا تھا آج تک کسی معرکہ میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعادا شہید نہیں ہوئی تھی یہ لڑائی یوم الخندق یا جنگ خندق کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس لڑائی کے بعد امیہ بن اسحاق کو پچاس ہزار مسلمانوں کی لاشیں دیکھ کر اپنی بد اعمالی پر غبر کرنے کا موقع ملا اور اس کے ضمیر نے اس کو ملامت کی کہ تونے مسلمانوں کا اس قدر کشت وخون کراکر بہت بڑا گناہ کا ارتکاب کیا ہے چنانچہ اس نے سلطان کے پاس ایک درخوست بھیج کر اپنی خطا کی معافی چاہی اور عیسائیوں کا ساتھ چھوڑ کر چلا آیا سلطان عبدالرحمن نے قرطبہ میں واپس آکر زبردست فوجیں عیسائی ممالک کی طرف بھیجیں اس اسلامی فوجوں نے پہنچ کر ہر جگہ عیسائیوں کو شکست فاش دی اور ان کو جنگ خندق کی فتح عظیم سے فائدہ اٹھانے کا مطلق موقع نہ دیا؛ یہاں تک کہ حدود فرانس تک فاتحانہ پہنچ کر اور بہت کچھ مال غنیمت لےکر واپس آئیں۔