انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** شریعت وطبیعت میں مطابقت اللہ تعالی جن لوگوں کو گناہ سے طبعاً متنفر کردیتے ہیں تو پھر شریعت ان کی طبیعت ہوجاتی ہے ان کے لیے پھر ممکن نہیں رہتا کہ وہ اپنے ارادہ سے اپنے آقا ومولی کے ذمہ روایۃ یا عملاً کوئی ایسی بات لگائیں جو آپ نے نہ کہی ہو اور نہ کی ہو اور اسلام میں اسلام کے نام سے کوئی ایسی بات داخل کریں جو اسلام نے نہ بتائی ہو، گناہ کے لیے بد نیتی ضروری ہے، جب تک نیت بری نہ ہو گناہ نہیں ہوسکتا، اللہ تعالی نے حضورﷺ کے فیض صحبت اور تزکیہ باطن سے ان حضرات قدسیہ کے دلوں سے بد نیتی کا پہلو مٹادیا تھا، ان سے کوئی خطاسر زد ہو بھی تو بد نیتی کے بغیر ہوگی اور اسے خطاء اجتہادی سمجھا جائے گا اور اس پر بھی یہ حضرات ایک اجر پائیں گے؛ جہاں تک صحابہ کے اخلاص وعمل کا تعلق ہے اسے حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کے الفاظ میں مطالعہ کیجیے: ہر شخص جو ان کی زندگی کا مطالعہ کرے گا بے اختیار تصدیق کرے گا کہ انہوں نے راہ حق کی مصیبتیں صرف جھیلی ہی نہیں ؛بلکہ دل کی پوری خوشحالی اور روح کے کامل سرور کے ساتھ اپنی زندگیاں ان میں بسر کرڈالیں، ان میں جو لوگ اول دعوت میں ایمان لائے تھے ان پر شب وروز کی جانکاہیوں اورقربانیوں کے پورے تئیس برس گزر گئے؛ لیکن اس تمام مدت میں کہیں سے بھی یہ بات دکھائی نہیں دیتی کہ مصیبتوں کی کڑواہٹ ان کے چہروں پر کبھی کھلی ہو، انہوں نے مال وعلائق کی ہر قربانی اس جوش ومسرت کے ساتھ کی گویا دنیا وجہاں کی خوشیاں اور راحتیں ان کے لیے فراہم ہوگئی ہیں اور جان کی قربانیوں کا وقت آیا تو اس طرح خوشی خوشی گردنیں کٹوادیں گویا زندگی کی سب سے بڑی خوشی زندگی میں نہیں موت میں تھی۔ اس تفصیل سے یہ بات از خود واضح ہوجاتی ہے کہ ان حضرات کی زندگیوں میں کس طرح تعلیم نبوت اتری تھی، ان کے سینے علم نبوی سے خوشحال اور ان کے قلوب تزکیہ کی دولت سے مالا مال تھے، ان کی کوئی بات منشائے رسالت پر نہ بھی ڈھلی ہو تو بھی اس پراجتہاد کا ایک اجر مرتب ہے،اس پر حکم معصیت نہیں آتا؛ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کے کسی عمل پر بدعت کا اطلاق نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ بدعت اور سنت کے نام پر کبھی ان میں کوئی باہمی فرقہ بندی قائم نہ ہوئی تھی۔