انوار اسلام |
س کتاب ک |
کیا امام، مسجد، متولی یا جماعت کا نوکر ہوتا ہے؟ منصب امامت ایک جلیل القدر منصب ہے جو گویا کہ نیابتِ رسالتؐ ہے، امام کا اکرام و احترام لازم ہے، اس کو نوکر سمجھنا بہت غلط اور اس کی حق تلفی ہے، متولی حضرات اگر امام کو اپنا ملازم اور خدمتگار تصور کرتے ہیں تو ان کو اپنی اصلاح کرنا ضروری ہے اور ہرگز ایسا نہ کرنا چاہئے، متولی اگر بے علم ہے اور امامت کا رتبہ نہیں جانتے تو اس کو بتایا جائے ، امام کو بھی لازم ہے کہ وہ امامت کو روٹی کھانے کا ذریعہ نہ بنائے اور اخلاق فاضلہ اور اعمال صالحہ سے آراستہ رہے، ورنہ قدر و قیمت کچھ نہیں ہوگی اور اس کا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔ اماموں کا یونین بنانا جیسے مل مزدوروں کی ہوتی ہے وہ نہایت غلط ہے، اگر ایسا کیا گیا تو انہوں نے اپنا موقف خود ہی تجویز کرلیا، امام تنخواہ کی پرواہ نہ کرے، نمازیوں اور تمام مخلوق سے دینی ہمدردی رکھے، یعنی اخلاق سے مقتدیوں کے اصلاحِ اخلاق کی کوشش کرتا رہے، اگر کوئی شخص نا مناسب الفاظ کہہ دے تو اس سے متاثر نہ ہو، انشاء اللہ تعالیٰ مخلوق کے قلوب میں بھی ان کی وقعت پیدا ہوگی، اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی بلند درجہ ملے گا، مگر مخلوق سے کسی وقعت و عزت کا خواہشمند نہ رہے۔ (فتاویٰ محمودیہ:۶/۳۳۰،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند)