انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** غزوہ احد(شوال۳ہجری) اسباب : بدر کی شکست کے بعد مکہ میں ہر طرف کہرام مچ گیا، عورتوں نے اپنے مرنے والے عزیزوں کا ماتم کر کے آسمان سر پر اٹھا لیا، علاوہ مرنے والوں کے ان کے جو سردار گرفتار ہوئے تھے ان کی رہائی کے لئے ڈھائی لاکھ درہم بطور فدیہ دینا پڑا، حال ہی میں سریہ حضرت زیدؓ بن حارثہ میں ان کی ایک لاکھ درہم مالیت کی چاندی مسلمانوں کے قبضہ میں چلی گئی جو ان کی معیشت پر کاری ضرب تھی، شام اور عراق کے راستہ ان کے لئے پر خطر ہوگئے تھے اور صرف حبشہ اور یمن کے راستے باقی رہ گئے تھے، قریش کو بحیثیت متولی کعبہ زائرین سے کافی آمدنی ہوتی تھی جو اب متاثر ہو رہی تھی اور ان کی معاشی تباہی کا باعث بن رہی تھی، اسلام کی اشاعت کے بعد عرب کے لوگ بت پرستی ترک کرکے مسلمان ہو رہے تھے، جب قریش کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مسلمانوں نے حبشہ کو ہجرت کی تھی تو قریش نے نجاشی کے پاس اپنی سفارت بھیج کر مسلمانوں کو نکال دینے کی درخواست کی جو اس نے رد کردی تھی اور اپنے ملک میں مسلمانوں کو پناہ دی تھی، ہجرت مدینہ کے بعد اوس و خزرج نے مہاجرین کے لئے مستقل پناہ گاہ فراہم کی اور مواخات کے بعد مہاجرین اور انصار کے مابین رشتہ اخوت قائم ہوگیا اور یہود مدینہ سے بھی مسلمانوں نے معاہدہ کرلیا، یہ صورت حال سرداران قریش کے لئے باعث تشویش تھی۔ یہ و ہ اسباب تھے جن کی بناء پر قریش نے مسلمانوں سے جنگ کرنے کا تہیہ کرلیا، اس صورت حال پر غور کرنے کے لئے قریش کے سردار دارالندوہ میں سر جوڑ کر بیٹھے جن میں اسودبن مطلب بن اسد، جبیر بن مطعم، صفوان بن اُمیہ ، عکرمہ بن ابو جہل، حارث بن ہشام، عبداللہ بن ابی ربیعہ، حویطب بن عبدالعزّیٰ اور حجر بن ابی طالب شامل تھے ، مکہ کا ہر فرد محسوس کر رہا تھا کہ اگر جلد از جلد مسلمانوں کو نیچا نہ دکھایا گیا تو پھر قریش کی رہی سہی عزت اور وقار بھی خاک میں مل جائے گا، تمام قبائل عرب میں عام جوش و خروش پیدا کرنے کے لئے اور ان کے غیظ و غضب کی آگ بھڑکانے کے لئے حسب ذیل تجاویز اختیار کی گئیں: ۱) اعلان عام کیا گیاکہ ہماری غرض اس جنگ سے مقتولین بدر کا (جن میں روساء قریش بھی تھے)بدلالینا ہے ، ۲) شعرائے عرب کی خدمات حاصل کی گئیں اس لئے کہ عرب میں جوش پھیلانے اور دلو ں کو گرمانے کا ذریعہ شاعری تھا، قریش میں دو مشہور شاعر تھے، عمرو حجمی اور مسافع، عمرو حجمی غزوہ ٔ بدر میں گرفتار ہو گیا تھا ؛لیکن آنحضرت ﷺ نے بہ اقتضائے رحم سے اُس کورہا کر دیا تھا، قریش کی درخواست پروہ اور مسافع مکہ سے نکلے اور تمام قبائل قریش میں اپنی آتش بیانی سے آگ لگاگئے، ۳) خاتونان حرم جن میں سرداران قریش اور معزز گھرانوں کی لڑکیاں اور بیویاں بھی تھیں فوج کے ساتھ چلنے پر آمادہ ہوئیں تاکہ ان کی حُرمت کی حفاظت کے خیال سے جان پر کھیل کر لوگ جنگ میں حصہ لیں اور میدان جنگ میں یہ بہادروں کے جوش کو دوآتشہ کرتی رہیں، ان میں یہ خواتین قابل ذکر ہیں: (۱) ہندہ بنت عتبہ ، ابو سفیان کی بیوی، اپنے باپ اور چچا کا بدلہ لینے کے لئے بے قرار تھی، (۲) فاطمہ بنت ولید ، حضرت خالد ؓبن ولید کی بہن جو ابو جہل کے بھائی حارث بن ہشام کی بیوی تھی ، اپنے باپ ولید کاانتقام لینا چاہتی تھی، (۳) اُم حکیم بنت حارث، یہ عکرمہ کی بیوی، ابو جہل کی بہو اور بھتیجی تھی، اپنے خُسر کاانتقام لینا چاہتی تھی، (۴) ریطہ بنت منبہ بن حجاج، عمرو ابن العاص کی بیوی تھی، اپنے باپ کاانتقام لینے کے لئے بے چین تھی، (۵) خناس بنت مالک، حضرت مصعبؓ بن عمیر کی مشرکہ ماں تھی، (۶) برزہ بنت مسعود ثقفی، یہ صفوان بن اُمیہ کی بیوی تھی، اپنے خُسراُمیہ بن خلف کا بدلہ لینے آئی تھی، (۷) سلامتہ بنت سعد ، یہ طلحہ بن ابی طلحہ علم بردار کی بیوی تھی، اس کے چار بیٹے مارے گئے تھے، غرض ایک سال کی دوڑ دھوپ کے بعد تین ہزار کا لشکر تیار کر لیا گیا، ان میں بنی ثقیف کے سو آدمی سازو سامان سے آراستہ شامل تھے، دو سو گھوڑے تھے ،تین ہزار اونٹ لڑائی اور بار برداری کے لئے تھے، سات سو زرہ پوش سپاہی اور ایک ہزار تیر انداز تھے، ابو سفیان کو سپہ سالار بنا یا گیا،قریش کے لشکر نے مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر اُحد کے میدان میں پڑاؤ ڈال دیا اور آس پاس کے کھیتوں اور باغوں پر قبضہ کر کے ان میں اپنے اونٹوں اور گھوڑوں کو چرنے کے لئے چھوڑدیا۔ حضور اکرم ﷺکے چچا حضرت عباسؓ گواسلام قبول کر چکے تھے؛ لیکن اب تک مکہ ہی میں مقیم تھے ، انہوں نے تمام حالات لکھ کر ایک تیز رو قاصد کوحضور اکرم ﷺ کے پاس روانہ کیا اور اس کو تاکید کی کہ تین دن میں مدینہ پہنچ جائے ، حضوراکرم ﷺ کو یہ خبریں پہنچیں تو آپ ﷺنے ۵ شوال ۳ ہجری کو دو خبر رساں انس اور مونس تھے خبر لانے کے لئے بھیجے ، انہو ں نے آکر اطلاع دی کہ قریش کالشکر مدینہ کے قریب آگیا ہے اور مدینہ کی چراگاہ ( عریض ) کو ان کے گھوڑوں نے صاف کر دیا ، آپﷺ نے خبابؓ بن منذر کو بھیجا کہ فوج کی تعداد کی خبر لائیں انہوں نے آ کر صحیح تخمینہ کی اطلاع دی۔ حضور اکرمﷺ نے اسی شب کو خواب دیکھا کہ آپﷺ ایک مضبوط زرہ پہنے ہوئے ہیں ، آپﷺ کی تلوار ذوالفقار دھار کے پاس سے تڑک گئی ہے، ایک گائے ذبح کی جارہی ہے اور ایک مینڈھا اس کے پیچھے ہے، آپﷺ نے صحابہ کرامؓ کو اس کی خبر دی اور اس کی تعبیر بھی بتائی کہ مضبوط زرہ سے مراد مدینہ ہے ، تلوار کا تڑکنا خود مجھ پر مصیبت کی علامت ہے، ذبح کی ہوئی گائے میرے اصحاب کا قتل ہے، مینڈھے کا پیچھا کرنا اس سے مراد کفار ہے۔ (طبقات بن سعد) چونکہ شہر پر حملہ کا اندیشہ تھا اس لئے ہر طرف پہرے بٹھائے گئے ، حضرت سعدؓ بن عبادہ اور حضرت سعد ؓ بن معاذ ہتھیا ر لگا کر تمام رات مسجد نبوی کے دروازہ پر پہرہ دیتے تھے ، صبح آپﷺ نے مسلمانوں کو جمع کر کے مشورہ کیا، خاص بات طئے کرنے کی یہ تھی کہ دشمنو ں کا مقابلہ مدینہ کے اندر رہ کر کیا جائے یا مدینہ سے باہر نکل کر، تجربہ کار لوگوں کی رائے یہ تھی کہ مدینہ کے اندررہ کرہی مقابلہ کیا جائے، ابن ہشام کا بیان ہے کہ حضور ﷺ بزرگ صحابہ کے خیال سے متفق تھے؛ لیکن پر جوش اور شہادت پسند صحابہ کے اصرار پر مدینہ سے باہر نکلنے پر آمادہ ہوئے اور ہتھیار پہن کر تشریف لائے، اب نوجوان مجاہدوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اورانھوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ ! ہم نے آپﷺ کی مرضی کے خلاف اصرار کیا، ہم سے غلطی ہوئی، آپ ﷺ جو مناسب چاہیں قدم اٹھائیں ، فرمایا: کسی نبی کے لئے جائز نہیں کہ ہتھیار سجا کر اتار دے جب تک اللہ تعالیٰ اس کے اور دشمنو ں کے درمیان فیصلہ نہ کر دے، ۶شوال ۳ہجری کو آنحضرتﷺ جمعہ کے دن نماز پڑھ کر ایک ہزار صحابہ کے ساتھ مدینہ منورہ سے احد کے لئے نکلے، ( احد کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ دیگر پہاڑوں سے الگ تھلگ تنہا ممتاز ہونے کی وجہ سے اس کو احد کہتے ہیں) عبداللہ بن ابی بن سلول تین سو کی جمیعت لے کر آیا تھا؛لیکن یہ کہہ کر واپس چلا گیا کہ محمد (ﷺ)نے میری رائے نہ مانی، آنحضرت ﷺکے ساتھ اب صرف سات سوصحابہ رہ گئے تھے، ان میں ایک سو زرہ پوش تھے، مدینہ سے نکل کر فوج کا جائزہ لیا گیا اور جو لوگ کمسن تھے واپس کر دئے گئے۔ آنحضرت ﷺنے کوہ اُحد کو پشت پر رکھ کر صف آرائی کی، حضرت مصعب ؓ بن عمیر کو علم عنایت فرمایا، حضرت زبیرؓ بن العوام رسالہ کے افسر مقرر ہوئے، حضرت حمزہؓ کو اس حصۂ فوج کی کمان ملی جو زرہ پوش نہ تھے، پشت کی طرف احتمال تھا کہ دشمن ادھر سے آئیں اس لئے پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ متعین فرمایاجس طرف یمین پہاڑ اور نالہ تھا، اور حکم دیا کہ لڑائی فتح ہو جائے تا ہم وہ جگہ سے نہ ہٹیں ، حضرت عبداللہ ؓ بن جبیر ان تیر اندازوں کے امیر مقرر ہوئے، حضور ﷺ نے ان تیر اندازوں سے فرمایا : اگر تم یہ دیکھو کہ ہم دشمنوں پر غالب آگئے پھر بھی تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنااور اگر تم دیکھو کہ وہ لوگ ہم پر غالب آگئے پھر بھی تم ہماری اعانت نہ کرنا، (صحیح بخاری- پیغمبر عالم) قریش کو بدر میں تجربہ ہو چکا تھا اس لئے انھوں نے نہایت ترتیب سے صف آرائی کی، میمنہ پر خالد بن ولید کو مقرر کیا، میسرہ عکرمہؓ کو دیا جو ابو جہل کے فرزند تھے، سواروں کا دستہ صفوان بن اُمیہ کی کمان میں تھا جو قریش کا مشہور رئیس تھا، تیر اندازوں کے دستے الگ تھے جن کاافسر عبداللہ بن ابی ربیعہ تھا، طلحہ علمبردار تھا، ضرورت کے وقت کام آنے کے لئے دو سو گھوڑے رکھے گئے تھے، سب سے پہلے طبل جنگ کے بجائے خاتونانِ قریش قریش دف پر اشعار پڑھتی ہوئی بڑھیں جن میں کشتگان بدر کاماتم اور انتقام خون کے رِجز تھے، ہندہ ابو سفیان کی بیوی آگے آگے اور چودہ عورتیں ساتھ ساتھ تھیں، لڑائی کا آغاز اس طرح ہوا کہ ابو عامر جو مدینہ منورہ کا ایک مقبول عام شخص تھا اور مدینہ چھوڑ کر مکہ میں آباد ہو گیا تھادیڑھ سو آدمیوں کے ساتھ میدان میں آیا، اسلام سے پہلے زہد اور پارسائی کی بناء پر تمام مدینہ اس کی عزت کرتا تھا، چونکہ اس کا خیال تھا کہ انصار جب اس کو دیکھیں گے تو رسول ﷺ کا ساتھ چھوڑ دیں گے، میدان میں آکر پکارا، مجھ کو پہچانتے ہومیں ابو عامر ہوں، انصار نے کہا: ہاں وہ بد کار ! ہم تجھ کو پہچانتے ہیں، خدا تیری آرزو بر نہ لائے ،قریش کا علم بردار طلحہ صف سے نکل کر پکارا: کیوں مسلمانو! تم میں کوئی ہے جو یا تو مجھ کو دوزخ میں پہنچا دے یا خود میرے ہاتھوں بہشت میں پہنچ جائے ، حضرت علیؓ نے صف سے نکل کر کہا: میں ہوں،یہ کہہ کر تلوار ماری اورطلحہ کی لاش زمین پر تھی، طلحہ کے بعد اس کا بھائی عثمان نے جس کے پیچھے پیچھے عورتیں اشعار پڑھتی آتی تھیں علم ہاتھ میں لیا اور رجز پڑھتا ہوا حملہ آور ہوا، حضرت حمزہؓ مقابلہ کو نکلے اور شانہ پر تلوار ماری کہ کمر تک اتر آئی، ساتھ ہی ان کی زبان سے نکلا کہ میں: ساقی حجاج کابیٹا ہوں،اب عام جنگ شروع ہو گئی، حضرت حمزہؓ ، حضرت علیؓ، حضرت ابو دجانہؓ فوجوں کے دل میں گُھسے اور صفوں کی صفیں صاف کر دیں، حضرت ابو دجانہؓ عرب کے مشہور پہلوان تھے، آنحضرت ﷺنے دست مبارک میں تلوار لے کر فرمایا: کون اس کا حق ادا کرتا ہے؟ اس سعادت کے لئے دفعتاً بہت سے ہاتھ بڑھے ؛لیکن یہ فخر حضرت ابو دجانہؓ کے نصیب میں تھا، اس غیر متوقع عزت نے ان کو بادۂ شجاعت سے مست کر دیا ، سرپر سُرخ رومال باندھا اور اکڑتے ، تنتے ہوئے فوج سے نکلے، آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ یہ چال خدا کو سخت نا پسند ہے؛ لیکن اس وقت پسند ہے، حضرت ابو دجانہؓ فوجوں کو چیرتے لاشوں پر لاشے گراتے بڑھتے چلے جاتے تھے یہاں تک کہ ہندہ سامنے آگئی، اس کے سر پر تلوار رکھ کراٹھا لی کہ رسول اللہ ﷺ کی تلوارا س قابل نہیں کہ عورت پر آزمائی جائے، حضرت حمزہؓ دو دستی تلوار مارے جاتے تھے اور جس طرف بڑھتے تھے صفیں کی صفیں صاف ہو جاتی تھیں،وحشی جوجبیر بن مطعم کا غلام تھا اس کے آقا نے وعدہ کیا تھاکہ اگر وہ حمزہ ؓکو قتل کر دے تو آزاد کر دیا جائے گا وہ حضرت حمزہؓ کی تلاش میں تھا، حضرت حمزہ ؓبرابر آئے تو اس نے چھوٹا سا نیزہ جس کو" حربہ" کہتے ہیں اور جو حبشیوں کا خاص ہتھیار ہے پھینک کر مارا جو ناف میں لگا اور باہر ہو گیا، حضرت حمزہؓ نے اس پر حملہ کرنا چاہا لیکن لڑکھڑا کر گر پڑے اور روح پرواز کر گئی، کُفّار کے عَلم بردار لڑ لڑ کر قتل ہو جاتے تھے تا ہم عَلم گرنے نہیں پاتا تھا، ایک کے گرنے سے پہلے دوسرا جانباز بڑھ کر عَلم ہاتھ میں لے لیتا ، حضرت حنظلہؓ نے کفار کے سپہ سالار ابو سفیان پر حملہ کیا اور قریب تھا کہ ان کی تلوار ا بو سفیان کا فیصلہ کر دے دفعتاً پہلو سے شداد بن الاسود جھپٹ کر ان کے وار کو روکا اور ان کو شہید کر دیا، تا ہم لڑائی کا پلہ مسلمانوں کی طرف تھا، علم برداروں کے قتل اور حضرت علیؓ اور حضرت ابودجانہؓ کے بے پناہ حملوں سے فوج کے پاؤ ں لڑکھڑا گئے، بہادر نازنینیں جو رجز سے دلوں کو ابھار رہی تھیں بد حواسی کے ساتھ پیچھے ہٹیں اورمطلع صاف ہو گیا، لیکن ساتھ ہی مسلمانوں نے لوٹ مار شروع کر دی ، یہ دیکھ کرتیر انداز جو پشت پر مقرر تھے وہ بھی غنیمت کی طرف جھکے، حضرت عبداللہؓ بن جبیرنے بہت روکا ؛لیکن وہ رک نہ سکے، تیر اندازوں کی جگہ خالی دیکھ کر خالدنے عقب سے حملہ کیا، عبداللہؓ بن جبیرچند جانبازوں کے ساتھ جم کر لڑے؛ لیکن سب کے سب شہید ہوئے ، اب راستہ صاف تھا، خالد نے سواروں کے دستہ کے ساتھ نہایت بے جگری سے حملہ کیا ، لوگ لوٹنے میں مصروف تھے، مڑ کر دیکھا تو تلواریں برس رہی تھیں، بد حواسی کے عالم میں دونوں فوجیں اس طرح باہم مل گئیں کہ خود مسلمان مسلمان کے ہاتھ سے مارے گئے، حضرت مصعبؓ بن عمیر جو آنحضرت ﷺسے صورت میں مشابہ اور علم بر دار تھے ابن قمیہ نے ان کو شہید کر دیا او رغل مچ گیا کہ آنحضرت ﷺ نے شہادت پائی، بد حواسی میں اگلی صفیں پچھلی صفوں پر ٹوٹ پڑیں اور دوست دشمن کی تمیز نہ رہی، جان نثاران خاص برابر لڑتے جاتے تھے لیکن نگاہیں سرورِ عالم ﷺ کو ڈھونڈتی تھیں، سب سے پہلے حضرت کعبؓ بن مالک کی نظرپڑی ، حضرت کعب ؓ نے پہچان کر کہا " مسلمانو ! رسول اللہ ﷺ زندہ ہیں، یہ سن کر ہر طرف سے جاں نثار ٹوٹ پڑے عورتیں بھی جوش محبت میں شمع نبوت کی طرف بڑھیں ، ان میں نسیبہ بنت کعب مارینہ ( کُنیت اُم عمّارہ) قابل ذکر ہیں، ان کا بیان ہے کہ اُحد کے دن صبح سویرے ہی گھر سے نکل پڑی ، مشکیزوں سے مجاہدوں کو پانی پلاتی رہی، دوپہر کے بعد میدان جنگ کا نقشہ بدل گیا، کفار حضورﷺ پر یلغار کرنے لگے، مجھ سے برداشت نہ ہو سکا، پہلے تو کمان سے تیر چلا تی رہی پھر تلوار لے کر حضور ﷺ کے گرد پروانہ وار چکر لگانے لگی، جو مشرک آتا اس پر وار کرتی یہاں تک کہ جسم زخموں سے چھلنی ہو گیا، اتنے میں ابن قمیّہ گھوڑے پر سوار چیختاآیا، مجھے بتاؤ محمد(ﷺ) کدھر ہیں، اگر وہ بچ گئے تو میں زندہ نہ رہوں گا یہ سن کر میں نے اس پر وار کئے، اس نے مجھ پر تلوار کی ضرب لگائی،کندھے پر گہرا نشان اس کی یاد گار ہے، وہ دوہری زرہوں میں تھا، زخمی نہ ہوتا تھا،یہ پہلی خاتون تھیں اور یہ پہلا غزوہ جس میں کسی عورت نے قتال میں حصہ لیا ہو، حضور ﷺ نے قدر افزائی کے طور پر فرمایا ، قیامت میں بھی اُم عمارہ اسی طرح میرے پاس رہیں گی جیسے میدان اُحد میں ہیں، عبداللہ بن قمیہ نے اس زور کا حملہ کیا کہ رخسار مبارک زخمی ہو گیا، خود کے دو حلقے اس میں دھنس گئے ،عتبہ بن ابی وقاص نے پتھر پھینکاجس سے نیچے کا دندان مبارک شہید ہوا اور ہونٹ کٹ گیا، عبداللہ بن شہاب زہری نے پتھر مار کر پیشانی لہو لہان کر دی ، چہرہ اقدس پر خون بہنے لگا، حضورﷺ خون پونچتے اور فرماتے جاتے" وہ قوم کیوں کر فلاح پا سکتی ہے جو اپنے نبی کے چہرے کو خون سے رنگین کردے حالانکہ و ہ انہیں ان کے رب کی طرف بلا رہا ہے، آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میرے خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر گر جائے گا تو آسمان سے ایسا عذاب نازل ہوگا کہ تمام اہل زمین ہلاک ہو جائیں گے ، ایسے میں وحی نازل ہوئی: " آپ کو کوئی اختیار نہیں ، اللہ چاہے توان کی توبہ قبول کرے اور چاہے تو عذاب دے کہ وہ ظالم ہیں" ( آل عمران :۱۲۸ ) اس پرآپﷺ نے دعا فرمائی : ائے اللہ ! میری قوم کو معاف فرمادے بے شک یہ مجھے جانتے نہیں۔ زخمی حالت میں کسی محفوظ مقام پر منتقل ہونے کے لئے اٹھے ، تھوڑی دور تشریف لے گئے تھے کہ ایک گڑھے میں گر گئے جسے ابو عامر فاسق نے کھود کر پتوں سے ڈھک دیا تھا، حضرت علیؓ نے ہاتھ پکڑا اور حضرت طلحہؓ بن عبید اللہ نے کمر تھام کر سہارا دیا تو آپﷺ کھڑے ہوئے ،یہاں سے پہاڑ کے اونچے مقام پر چڑھنے کا ارادہ فرمایا، نقاہت اور ضعف پھر دو زرہوں کا بوجھ مانع ہوا، حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ بیٹھ کر جھک گئے، حضور ﷺ کے دونوں قدم ان کی پشت پر تھے،یہاں سے آپﷺ اونچائی پر اُ حد کے مشرقی رُخ ایک غار میں پہنچ گئے، حضرت زبیرؓ کا بیان ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:طلحہ نے اپنے لئے جنت واجب کرلی، تیروں کو روکنے میں حضرت طلحہؓ کی پیٹھ چھلنی ہوگئی تھی، ہاتھوں پر وار روکے تو ہاتھ کی انگلیاں کٹ گئیں، حضور ﷺ نے ارشاد فرما یا: جو شخص زمین پر چلتے پھرتے زندہ شہید کو دیکھنا چاہے تو وہ طلحہؓ کو دیکھ لے،حضرت ابو بکرؓ جب بھی جنگ اُحد کا تذکرہ کرتے تو انہیں " صاحب اُحد" کہتے۔ چودہ مسلمان خواتین میدان جنگ میں موجود تھیں ، یہ زخمیوں کو اٹھاکر ان کی مرہم پٹی کر رہی تھیں، پیا سوں کو پانی پلا رہی تھیں، ان میں حضرت عائشہؓ ، اُم سلیم ، اُم سلیطؓ، بی بی فاطمہؓ ، ربیع ؓ بنت مسعود ، حمنہؓ بنت جحش ، اُم ایمنؓ وغیرہ شامل ہیں، صرف اُم عماّرہ نے قتال میں حصہ لیا۔ حضور اکرم ﷺجب پہاڑ کے اوپر ایک محفوظ گھاٹی میں منتقل ہوگئے تو حضرت علیؓ اُحد کے ایک چشمہ " مہراس " سے اپنی ڈھال میں پانی لائے جس سے زخم دھوئے گئے ، خون بند نہ ہوا تو حضرت فاطمہؓ (جو وہاں پہنچ گئی تھیں)نے چٹائی کو جلا کر اس کی راکھ سے زخموں کو بھرا تو خون بند ہوگیا۔ ابو سفیان سامنے کی پہاڑی پر چڑھ کر پکارا کہ یہاں محمد (ﷺ) ہیں، آپﷺ نے حکم دیا ، کوئی جواب نہ دے ، ابو سفیان نے حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کا نام لے کر پکارا اور جب کوئی آواز نہ آئی تو پکار کر بولا! سب مارے گئے، حضرت عمرؓ سے ضبط نہ ہوسکا ،؟ بول اٹھے " او دشمنِ خدا ہم سب زندہ ہیں" ابو سفیان نے کہا : ائے ہبل تو اونچا رہ ، صحابہ ؓ نے آنحضرت ﷺ کے حکم سے کہا " خدا اونچا اور بڑا ہے " ابو سفیان نے کہا" ہمارے پاس عزّیٰ ہے تمہارے پاس نہیں" صحابہؓ نے کہا:" خدا ہمارا آقا ہے تمہارا کوئی نہیں" خاتونانِ قریش نے انتقام بدر کے جوش میں مسلمانوں کی لاشوں سے بھی بدلہ لیا، ان کے ناک ، کان کاٹ لئے، ہندہ (ابو سفیان کی بیوی) نے ان کا ہار بنا یا اور گلہ میں ڈالا، حضرت حمزہؓ کی لاش پر گئی اور ان کا پیٹ چاک کرکے کلیجہ نکالا اور چبا گئی؛ لیکن گلہ سے اتر نہ سکا اس لئے اگل دینا پڑا ، ہندہ فتح مکہ کے روز ایمان لائی۔