انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** آزادیٔ رائے کا غلط استعمال میاں نذیر حسین صاحب سے لے کر مولانا محمدحسین بٹالوی تک ہندوستان میں مطلق تقلید کا انکار کہیں نہ تھا، غیرمقلدین بھی صرف تقلید شخصی کے خلاف تھے اور جملہ موحدینِ ہند اجتہادی مسائل میں فقہ حنفی کا فیصلہ لیتے تھے، مولانا ثناء اللہ امرتسری کے عہد سے غیرمقلدین مطلق تقلید کے انکار کے درپے ہوئے؛ پھرانہی کے عہد میں ترکِ تقلید کی فضا اپنی پوری بہار پر آئی، غیرمقلدین نہ صرف مقلدین سے برسرِپیکار ہوئے؛ بلکہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آراء ہوگئے۔ قاضی عبدالاحد صاحب خانپوری نے مولانا ثناء اللہ کے خلاف ایک کتاب لکھی اور اس کا نام "کتاب التوحید والسنۃ فی رد اہل الالحاد والبدعہ" رکھا اور اسے "اظہارِ کفر ثناء اللہ بجمیع اصول آمنت اللہ" (دیکھئے: سیرت ثنائی:۳۷۲۔ ہندوستان میں پہلی اسلامی تحریک:۳۹، مؤلفہ:مسعود عالم ندوی) سے ملقب کیا کہ مولوی ثناء اللہ ایمان کی تمام بنیادوں کا منکر ہے۔ غزنوی حضرات نے مولانا ثناء اللہ کے خلاف اربعین لکھی اور اس پر چالیس کے قریب علماء اہلِ حدیث (باصطلاحِ جدید) نے دستخط کیئے اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کواہلِ حدیث سے خارج قرار دیا، مولانا ثناء اللہ صاحب نے "مظالم روپڑی برمظلوم امرتسری" لکھ کر جماعت کی اندرونی حالت پوری طرح بے نقاب کی۔ (مظالم روپڑی:۴۸، تالیف:مولانا ثناء اللہ امرتسری) مولانا عبدالوہاب ملتانی کے خلاف بانوے علماء اہلِ حدیث نے دستخط کیئے اورکہا کہ مدعی امامت (مولانا عبدالوہاب ملتانی) گمراہ ہے، اہلِ حدیث سے خارج ہے اور حدیث "مَنْ لَمْ یَعْرِفْ امام زَمَانِہ" کونہیں سمجھا؛ پھرمولانا عبدالوہاب کے شاگرد خصوصی مولانا محمدجوناگڑھی نے مولانا عبداللہ روپڑی کے بارے میں لکھا ہے: "یہ مولوی صاحب جھوٹے ہیں بدعقیدہ ہیں اسے علمِ دین سے بلکہ خود دین سے بھی مس نہیں __________ اس کا وعظ ہرگز نہ سنو؛ بلکہ اگربس ہوتو وعظ کہنے بھی نہ دو، نہ اس کے پیچھے جمعہ جماعت پڑھو"۔ مولوی محمدیونس مدرسِ اوّل مدرسہ میاں نذیر حسین صاحب دہلوی نے حافظ عبداللہ صاحب روپڑی کے بارے میں فرمایا: "شحص مذکور ملحد ہے __________ ایسے لوگوں سے قطع تعلق ضروری ہے"۔ ان حضرات کی یہ نبردآزمائی صرف اپنے علماء تک محدود نہ تھی، مولانا عبدالوہاب صاحب نے عوام اہلِ حدیث کوبھی اپنے اس فتوےٰ میں گھسیٹ لیا، مولانا عبدالجبار صاحب کھنڈیلوی، مولانا عبدالوہاب سے نقل کرتے ہیں: "جب تک مسلمان امام کونہیں مانتا اس کااسلام ہی معتبر نہیں" (مقاصد الامامۃ:۱۶) "کوئی کام نکاح ہو یاطلاق بغیر اجازتِ امامِ وقت جائز نہیں"۔ (مقاصد الامامۃ:۱۶) ان حضرات کے اخبار محمدی کی ایک سُرخی ملاحظہ ہو "روپڑ کا خوفناک بھیڑیا"۔ (اخبار محمدی، دہلی، یکم جون سنہ۱۹۳۹ء) ان کتابوں اور عنوانوں سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ترکِ تقلید کے جوش میں یہ لوگ اپنے گھر میں کیسی خوفناک آگ سے دوچار تھے، مولانا ثناء اللہ امرتسری کی خدمات اہلِ حدیث پران کے ہمنوا علماء انہیں سردارِ اہلِ حدیث کہتے تھے، مولانا عبداللہ روپڑی کوان کی یہ حیثیت پسند نہ تھی، آپ نے مولانا ثناء اللہ صاحب کومخاطب کرکے فرمایا: "ٹھیلے تلے کتا چل رہا تھا وہ سمجھا کہ ٹھیلے کومیں کھینچ رہا ہوں تمہاری مثال یہ ہے"۔ (ثنائی نزاع، تالیف:عبداللہ روپڑی صاحب) غیرمقلدین کی اس سرد جنگ سے یہ بات بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ ترکِ تقلید کی تحریک اس وقت کس مرحلہ میں داخل ہوچکی تھی۔ اِن بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ ائمہ دین اور سلفِ صالحین سے بے نیازی کی روش جماعتِ اہلِ حدیث میں کہاں تک آزادی پیدا کرچکی تھی؛ تاہم یہ غنیمت ہے کہ جماعت کے بعض حضرات کواس کا شدت سے احساس ہوا اور جولوگ ترکِ تقلید میں حد سے بڑھتے جارہے تھے وہ اپنی اپنی جگہ خود ہی جماعت سے نکل گئے اور اہلِ حدیث (بہ اصطلاح جدید) اپنی موجودہ شکل میں کچھ نہ کچھ سنبھل گئے اور اُنہوں نے صحابہ کرامؓ سے تمسک کرنے کواپنے اصولوں میں داخل کرلیا۔