انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عبداللہ بن رواحہ نام ونسب عبداللہ نام، ابو محمد کنیت شاعر رسول اللہ ﷺ لقب، سلسلہ نسب یہ ہے،عبداللہ بن رواحہ بن ثعلبہ بن امرؤ القیس بن عمروبن امرؤ القیس الاکبر بن مالک الاغر بن ثعلبہ بن کعب بن خزرج بن حارث بن خزرج اکبر، والدہ کا نام کبشہ بنت واقد بن عمرو بن اطنابہ تھا اور خاندان حارث بن خزرج سے تھیں جو حضرت عبداللہؓ کا پدر اعلیٰ تھا۔ حضرت عبداللہؓ بڑے رتبہ کے شخص تھے ان کے تذکرے میں ہے۔ کان عظیم القدر فی الجاہلیت والاسلام یعنی وہ جاہلیت اوراسلام دونوں میں کبیر المنزلت ہے اسلام لیلۃ العقبہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے اوربنو حارثہ کے نقیب بنائے گئے۔ غزوات اور دیگر حالات حضرت مقدادؓ بن اسود کندی سے رشتۂ اخوت قائم ہوا۔ بدر میں شریک تھے اورغزوہ ختم ہونے کے بعدا ہل مدینہ کو فتح کی بشارت انہی نے سنائی تھی، غزوہ خندق میں آنحضرتﷺ ان کے رجز کے اشعار پڑھ رہے تھے ۔ اللھم لو لا انت مااھتدینا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا خدا وندا!اگر تیری مدد نہ ہوتی تو ہم ہدایت نہ پاتے اور نہ زکوٰۃ دیتے اور نہ نماز پڑہتے فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا وَثَبِّتْ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا تو تو ہم پر اپنی تسکین نازل فرما اورمعرکہ میں ہم کو ثابت قدم رکھ إِنَّ الْأُلَى قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا إِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا جن لوگوں نے ہم پر ظلم کیا ہے جب وہ فتنہ کا ارادہ کریں گے تو ہم اس کا انکار کریں گے اسیر بن زارم یہودی ابو رافع کے بعد خیبر کا حاکم بنایا گیا تھا اور اسلام کی عداوت میں اس کا پورا جانشین تھا،چنانچہ اس نے غطفان میں دورہ کرکے تمام قبائل کو آمادہ کیا، آنحضرتﷺ کو ان واقعات کی خبر ہوئی تو رمضان ۶ھ میں عبداللہ بنؓ رواحہ کو ۳۰ آدمیوں کےساتھ خیبر روانہ فرمایا، عبداللہ ؓ نے خفیہ طور سے اسیر کے تمام حالات معلوم کئے اور آنحضرتﷺ کو آکر خبر دی، آپ نے اس کے قتل کے لئے حضرت عبداللہ بنؓ رواحہ کو مقرر فرمایا اور ۲۰ آدمی ان کی ماتحتی میں دیئے۔ حضرت عبداللہؓ اسیر سے ملے تو کہا کہ ہم کو امان دو ،تم سے ایک بات کہنے آئے ہیں بولا کہو، حضرت عبداللہؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو تمہارے پاس بھیجا ہے اورآپ کا ارادہ ہے کہ تم کو خیبر کا رئیس بنادیں ،لیکن اس کے لئے خود تمہارا مدینہ چلنا ضروری ہے، وہ باتوں میں آگیا اور ۳۰ یہودیوں کو لیکر ان کے ساتھ ہوا، راستہ میں انہوں نے ہر یہودی پر ایک مسلمان کو متعین کیا اسیر کو کچھ شک ہوا اور اس نے پلٹنے کا ارادہ ظاہر کیا، مسلمانوں نے دھوکہ بازی کے جرم میں سب کی گردنیں اڑادیں، اور یہ اٹھتا ہوا طوفان وہیں دب کر رہ گیا۔ (طبقات ابن سعد:۶۶) خیبر فتح ہونے کے بعدآنحضرتﷺ نے پھلوں کا تخمینہ کرنے کے لئے انہی کو روانہ کیا تھا۔ عمرۃ القضا میں آنحضرتﷺ مکہ تشریف لے گئے تو وہ اونٹ کی مہار پکڑے ہوئے تھے اور یہ شعر پڑھ رہے تھے: خلوا بني الكفار عن سبيله خلوا فكل الخير مع رسوله ان کے راستہ سے ہٹ جاؤ کیونکہ تمام بھلائیاں انہی کے ساتھ ہیں نحن ضربناكم على تأويله كما ضربناكم على تنزيله ہم نے تم کو قرآن کی تاویل اورتنزیل پر مارا ہے جس سے سردھڑ سے الگ ہوگئے ہیں ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله يا رب إني مؤمن بقيله اور دوست دوستی بھول گئے ہیں خدایا میں آنحضرتﷺ کے اقوال پر ایمان رکھتا ہوں۔ حضرت عمرؓ نے کہا !خدا کے حرم اور رسول اللہﷺ کے روبرو شعر پڑہتے ہو، آنحضرتﷺ بولے عمر! میں سن رہا ہوں، خدا کی قسم ان کا کلام کفار پر تیر ونشتر کا کام کرتا ہے، اس کے بعد ان سے فرمایا کہ تم کہو ، لا الہ الا اللہ وحدہ نصر عبدہ واعز جندہ وھزم الاحزاب وحدہ ابن رواحہؓ نے اس کو کہا تو تمام صحابہ نے آواز ملا کر اس کو ادا کیا جس سے مکہ کی پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ (طبقات ابن سعد:۸۸،وکتب رجال) غزوہ موتہ اور شہادت جمادی الاولیٰ ۸ھ میں غزوہ موتہ ہوا، آنحضرتﷺ نے بصری کے رئیس کے پاس ایک نامہ بھیجا تھا، راستہ میں موتہ ایک مقام ہے وہاں ایک غسانی نے نامہ بر (سفیر ) کو قتل کردیا، سفیر کا قتل اعلان جنگ کا پیش خیمہ ہوتا ہے،اس بناء پر آنحضرتﷺ کو خبر ہوئی تو تین ہزار آدمی زید بنؓ حارثہ کی زیر امارت موتہ روانہ کئے اور یہ فرمایا کہ زید قتل ہو جائیں تو جعفرؓ امیر لشکر ہیں اوران کے بعد ابن رواحہؓ سردار ہیں اور اگر وہ بھی قتل ہوجائیں تو جس کو مسلمان مناسب سمجھیں امیر بنالیں۔ لشکر تیار ہوا تو ثنیۃ الوداع تک آنحضرتﷺ نے خود مشایعت کی، رخصت کے وقت اہل مدینہ نے ایک زبان ہوکر کہا کہ خدا آپ لوگوں کو صحیح سالم اور کامیاب واپس لائے،حضرت ابن رواحہؓ کی یہ آخری ملاقات تھی رونے لگے،لوگوں نے کہا رونے کی کیا بات ہے؟ کہا مجھے دنیا کی محبت نہیں ،لیکن رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ ان منکم الاواردھا، کان علی ربک حتما مقضیا (یعنی ہر شخص کو جہنم میں جانا ہے) اس بنا پر یہ فکر ہے کہ میں جہنم میں داخل ہوکر نکل بھی سکوں گا؟ سب نے تسکین دی، اورکہا کہ خدا آپ سے پھر ملادے گا، اس وقت حضرت ابن رواحہؓ نے فرمایا: لكنني أسأل الرحمن مغفرة وضربة ذات فرغ تقذف الزبدا لیکن میں خدا سے مغفرت اورایک وار کا طالب ہوں جو کاری لگے۔ اوطعنۃ بیدی حران بجھزۃ بحربۃ تنقذ الاحشاء والکبدا یا ایک نیزہ جو جگر تک چبھ جائے حتی یقولوا اذا مرو اعلی جدتی یا ارشد اللہ من غاز وقد رشدا یہاں تک کہ قبر پر گذرنے والے پکار اٹھیں کہ کیسا اچھا غازی تھا۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ سے ملنے آئے،آپ نے الوداع کہا ادھر مدینہ سے مسلمان روانہ ہوئے ادھر دشمن کو خبر ہوگئی، اس نے ہر قل کو خبر کرکے ۲ لاکھ آدمی جمع کرلئے، مسلمانوں نے شام پہنچ کر معان میں دورات قیام کیا اور یہ رائے قرار پائی کہ رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع دینی چاہیے،عبداللہ بن رواحہؓ نے نہایت دلیری سے کہا کہ کچھ پروانہ نہیں، ہم کو لڑنا چاہیے،چنانچہ معان سے چل کر موتہ میں پڑاؤ ڈالا، اوریہاں مشرکین سے مقابلہ ہوگیا، مسلمان صرف ۳ ہزار تھے، اورمشرکین کی طرف آدمیوں کا جنگل نظر آتا تھا میدان کارزار گرم ہوا، پہلے زید بنؓ حارثہ نے گھوڑے سے اتر کر آتشِ جنگ مشتعل کی اور نہایت جانبازی سے مارے گئے، پھر جعفرؓ نے علم اٹھایا اورنہایت بہادری سے شہادت حاصل کی اس کے بعد عبداللہ بن رواحہؓ رجز پڑہتے ہوئے بڑھے۔ یا نفس ان لم تقتلی تموتی ان تسلمی الیوم فلن تفوتی اے نفس اگر قتل نہ ہوا تو بھی مرے گا اگر آج باقی ہے تو آئندہ فوت ہوگا اوتبتلی فطال ماعوفت یا عافیت کی درازی میں تیری آزمائش ہوگی۔ ھذی حیاض الموت فقد خلت وما تمنیت فقد اعطیت اس لئے موت کے حوض خالی ہورہے ہیں اور جو تیری تمنا تھی مل رہی ہے پھر کہا اے نفس !بیوی بچے اورمکان کا خیال فضول ہے وہ سب آزاد ہیں، مکان اللہ اور رسول کا ہے دل کو سمجھا کر جھنڈا اٹھایا اورحسبِ ذیل رجز پڑہتے ہوئے میدان میں آئے: یا نفس مالک تکر ھین الجنتہ اقسم باللہ لتنزلنہ اے نفس جنت میں جانے سے کراہت کیوں ہے خدا کی قسم تو ضرور اس میں داخل ہوگا۔ طائعۃ اولتک ھنہ فطالما قد کنت مطمئنہ خواہ برضا اوررغبت خواہ جبر سے تو نہایت مطئن تھا،حالانکہ ھل انت الانطفتہ فی شنہ قنا جلب الناس وشدد الہ نہ تو مشک کا صاف پانی ہے (جو لوگوں کی پیاس کھانے کیلئے ہے) اب لوگ پیاسے ہیں اور چیخ چیخ کر فریاد کررہے ہیں۔ نیزہ لے کر حملہ کیا اسی اثنا میں ایک کافر نے اس زور سے نیزہ مارا کہ دونوں لشکروں کے درمیان پچھڑ گئے، خون چہرہ پر ملا اور پکارے "مسلمانو! اپنے بھائی کے گوشت کو بچاؤ " یہ سن کر تمام مسلمان ان کو گھیرے میں لے کر مشرکین پر ٹوٹ پڑے اور روح مطہر ملاء اعلی کو پرواز کر گئی، إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ۔ شہادت سے قبل موتہ میں ایک شب یہ اشعار پڑھ رہے تھے إذا أدنيتني وحملت رحلي مسيرة أربع بعد الحساء فشأنك فانعمي وخلاك ذم ولا أرجع إلى أهلي ورائي وجاء المؤمنون وغادروني بأرض الشام مشهور الثواء وردك كل ذي نسب قريب إلى الرحمن منقطع الإخاء هنالك لا أبالي طلع بعل ولا نخل أسافلها رواء زید بن ارقم نے سنا تو رونے لگے،انہوں نے درہ اٹھایا اورکہا اس میں تمہارا کیا نقصان ؟ خدا مجھ کو شہادت نصیب کریگا، تو تم آرام سے گھر جانا۔ آنحضرتﷺ کو وحی کے ذریعہ دم دم کی خبریں مل رہی تھیں اورآپ مجمع کے سامنے بیان کررہے تھے، حضرت جعفرؓ کی خبر بیان کرکے خاموش ہوگئے ،انصار آپ کی خاموشی سے سمجھ گئے کہ شائد حضرت ابن رواحہؓ شہید ہوئے ،تھوڑی دیر سکوت کے بعد بادیدۂ پر نم فرمایا کہ پھر ابن رواحہؓ نے شہادت پائی، انصار اس خبر کے کب متحمل ہوسکتے تھے، تاہم آہ وزاری اورنالۂ وفریاد کے بجائے صرف حقیقی حزن و ملال پر اکتفا کیا گیا کہ یہ بھی اس شہید ملت کی وصیت تھی۔ ایک مرتبہ بیہوش ہوگئے تھے، بہن نے جن کا نام عمرہ تھا نوحہ کیا کہ ہائے میرا پہاڑ ہائے ایسا، ہائے ویسا، افاقہ ہوا تو فرمایا کہ جو کچھ تم کہہ رہی تھیں مجھ سے اس کی تصدیق کرائی جاتی تھی کہ کیا تم ویسی تھے؟ اس بناء پر وفات کے وقت سب نے صبر کیا،صحیح بخاری میں ہے، فلما مات لم تبک علیہ یعنی جب انہوں نے شہادت پائی تو نوحہ اوربین نہیں کیا گیا۔ (بخاری:۶۱۱و۶۱۴،واسد الغابہ:۳/۱۵۷،۱۵۸،۱۵۹،وطبقات ابن سعد،۹۲،۹۳) اولاد جیسا کہ اوپر گذرچکا ،موتہ روانہ ہوتے وقت بیوی بچے موجود تھے،لیکن صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں ،فقتل ولم یعقب یعنی ان سے نسل نہیں چلی۔ (اسد الغابہ:۳/۱۵۹) ان کی بیوی کے متعلق استیعاب میں عجیب قصہ منقول ہے،انہوں نے ایک خاص بات پرابن رواحہ سے کہا کہ تم اگر پاک ہو تو قرآن پڑھو، اس وقت ابن رواحہ ؓ کو عجیب چال سوجھی اوربروقت چند اشعار پڑھے، جن کا ترجمہ یہ ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کا وعدہ سچا ہے اور کافروں کا ٹھکانا دوزخ ہے اور عرش پانی کے اوپر تھا اور عرش پر جہاں کا پروردگار اور اس عرش کو خدا کے مضبوط فرشتے اٹھاتے ہیں۔ چونکہ وہ قرآن نہیں پڑھی تھیں ،سمجھیں کہ آیتیں پڑھ رہے ہیں، بولیں کہ خدا سچا ہے اور میری نظر نے غلطی کی تھی میں نے ناحق تم کو تہمت لگائی، زن وشوئی کے تعلقات بھی کیسے عجیب ہوتےہیں ، لونڈی سے ہم بستری کرنے پر بیوی کے غیظ و غضب سے بچنے کا حضرت عبداللہؓ نے یہ طرز اختیار کیا۔ (استیعاب:۱/۳۶۲) فضل وکمال اس عنوان میں دو چیزیں قابل ذکر ہیں، کتابت اورشاعری۔ آنحضرتﷺ کے کاتب تھے ،لیکن یہ معلوم نہیں کہ لکھنا کب سیکھا تھا؟شاعری میں مشہور تھے اور دربارِ رسالت کے شاعر تھے، کفر پر مشرکین کو عار دلانا ان کاموضوع تھا صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں۔ دربار نبوی کے شعراء حسان بن ثابتؓ، کعب بن ؓ مالک اور عبداللہ بن رواحہؓ تھے، تو حضرت کعب بن ؓ مالک کا فروں کو لڑائی سے ڈراتے تھے اورحسانؓ حسب نسب پر چوٹ کرتے تھے اورحضرت عبداللہ بن رواحہؓ ان کو کفر کا عار دلایا کرتے تھے۔ (اسد الغابہ:۴/۲۴۸،حالات حضرت کعبؓ بن مالک ) یعنی آنحضرتﷺ کے تین شاعر تھے،حضرت حسانؓ ،حضرت کعبؓ، حضرت ابن رواحہؓ، اول الذکر نسب پر طعن کرتے تھے دوسرے لڑائی سے دھمکاتے اور تیسرے کفر پر غیر ت دلاتے تھے۔ شعر فی البدیہہ کہہ سکتے تھے،ایک روز مسجد نبوی کی طرف نکلے،آنحضرتﷺ صحابہؓ کی جماعت کیساتھ تشریف فرما تھے،ان کو بلایا اور فرمایا مشرکین پر کچھ کہو انہوں نے اس مجمع میں کچھ اشعار کہے۔ آنحضرتﷺ نے سنا تو مسکرائے اور فرمایا خدا تم کو ثابت قدم رکھے۔ (استیعاب:۱/۳۶۲) حدیث میں چند روایتیں ہیں جو حضرت ابن عباسؓ،حضرت اسامہ بنؓ زید حضرت انسؓ بن مالک ؓ،حضرت نعمان بن بشیرؓ اورحضرت ابو ہریرہؓ کے واسطہ سے مروی ہیں، خود آنحضرتﷺ اور حضرت بلالؓ سے روایتیں کیں۔ اخلاق و عادات نہایت زاہد، عابد اور مرتاض تھے، آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ خدا عبداللہ بن رواحہؓ پر رحم کرے وہ انہی مجلسوں کو پسند کرتے تھے جن پر فرشتے فخر کرتے ہیں، یعنی خدا کی رحمت ہو ابن رواحہؓ پر وہ ایسی مجلسیں پسند کرتا ہے جس پر فرشتے بھی فخر کرتے ہیں۔ (اصابہ:۴/۶۶) حضرت ابودرداءؓ کہتے ہیں کہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جس میں ابن رواحہؓ کو یاد نہ کرتا ہوں، وہ مجھ سے ملتے تو کہتے کہ آؤ تھوڑی دیر کے لئے مسلمان بن جائیں، پھر بیٹھ کر ذکر کرتے اورکہتے یہ ایمان کی مجلس تھی۔ (اسد الغابہ:۳/۱۵۷) ان کی بیوی کا بیان ہے کہ جب گھر سے نکلتے دورکعت نماز پڑہتے اورواپس آتے اس وقت بھی ایسا ہی کرتے تھے، اس میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ ایک سفر میں اتنی شدید گرمی تھی کہ آفتاب کی تمازت سے لوگ سروں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ایسی حالت میں روزہ کون رکھ سکتا ہے؟ لیکن آنحضرتﷺ اورحضرت ابن رواحہؓ اس حالت میں بھی صائم تھے۔ (بخاری:۱/۲۶۱) جہاد کا نہایت شوق تھا، بدر سے لے کر موتہ تک ایک غزوہ بھی ترک نہ ہوا تھا، اسماء الرجال کے مصنفین اس ذوق و شوق کا ان الفاظ میں تذکرہ کرتے ہیں۔ یعنی عبداللہؓ غزوہ میں سب سے پیشتر جاتے اور سب سے پیچھے واپس ہوتے تھے۔ (اصابہ:۴/۶۶) احکام رسول ﷺ کی اطاعت پر ذیل کا واقعہ شاہد ہے۔ آنحضرتﷺ خطبہ دے رہے تھے حضرت ابن رواحہؓ پہونچے تو یہ ارشاد زبان پر تھا کہ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ،مسجد کے باہر تھے، اسی مقام پر بیٹھ گئے، آنحضرتﷺ خطبہ سے فارغ ہوئے تو کسی نے یہ خبر پہنچادی فرمایا:خدا اور رسول کی اطاعت میں خدا ان کی حرص اور زیادہ کرے،آنحضرتﷺ سے نہایت محبت تھی، اورآپ کو بھی ان سے انس تھا،بیمار پڑے اورایک دن بے ہوش ہو گئے تو سرور عالم ﷺ عیادت کو تشریف لائے اور فرمایا خدا یا اگر ان کی موت آئی ہو تو آسانی کر ورنہ شفا عطا فرما۔ (اصابہ:۴/۲۶۶) آنحضرتﷺ کی نعت میں شعر کہا کرتے تھے اور یہ بھی حبِ رسول کا کرشمہ تھا ایک شعر بہت ہی اچھا کہا ہے اور وہ یہ ہے: (اصابہ:۴/۶۰) اگر آپ میں کھلی ہوئی نشانیاں نہ بھی ہوں، جب بھی آپ کی صورت خبر (رسالت) دینے کے لئے کافی تھی۔ جوش ایمان کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ عبداللہ بن ابی کی مجلس میں بیٹھے تھے آنحضرتﷺ ادھر سے گذرے تو سواری کی گرد اڑکر اہل مجلس پر پڑی ابن ابی نے کہا کہ گرد نہ اڑاؤ، آپ وہیں اتر پڑے اور توحید پر ایک مختصر تقریر کی ،ابن ابی اب تک مشرک تھا، بولا یہ بات تو ٹھیک نہیں، جو کچھ آپ کہتے ہیں،اگر حق ہے تو یہاں آکر ہم کو پریشان کرنے کی ضرورت نہیں، البتہ جو آپ کے پاس جائے،اس کو خوشی سے ایمان کی دعوت دے سکتے ہیں، حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو جوش آگیا ،بولے یا رسول اللہﷺ !آپ ضرور فرمائیں، ہم اس بات کو پسند کرتے ہیں۔ (بخاری:۲/۶۵۶)