انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حیات طیبہ۵۹۵ء ازدواجی زندگی حضرت خدیجہؓ قریش کی دولت مند بیوہ خاتون تھیں جنھیں عرب کے کئی نامور رئیسوں نے نکاح کا پیام دیا تھا، ان کے والد خویلد بن اسد نے بہترین تجارتی کاروبار ورثہ میں چھوڑا تھا اس لئے انھوں نے بھی تجارت جاری رکھی ، اپنا مالِ تجارت اُجرت یا شراکت پر تاجروں کے ہمراہ روانہ کرتیں ، ابتدائی عمر میں چچا زاد بھائی اور مشہور عیسائی عالم ورقہ بن نوفل سے منسوب تھیں؛ لیکن شادی نہ ہوسکی، ۱۵ سال کی عمر میں ان کا پہلا نکاح ہندبن نباش سے ہوا جو ابوہالہ کے نام سے مشہور تھے ، ان سے دو بچے ہالہ اورہند پیدا ہوئے جو بعد میں حضور اکرم ﷺ پر ایمان لائے، ابو ہالہ کے انتقال کے وقت حضرت خدیجہؓ ۲۱ سال کی تھیں، آپ ؓکا دوسرا نکاح عتیق بن عاید مخزومی سے ہوا جن سے ایک لڑکی ہند پیدا ہوئی جس نے بعد میں اسلام قبول کیا، عتیق بن عاید مخزومی بھی انتقال کرگئے ،یکے بعد دیگرے دونوں شوہروں کے انتقال سے حضرت خدیجہؓ دل برداشتہ ہو گئی تھیں، مالی دولت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے انھیں دولتِ حُسن سے بھی نوازا تھا ، نہایت ذہین اور سلیقہ مند تھیں، انہی خصائص کی وجہہ سے وہ " طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ حضور ﷺ کی عمر اس وقت ۲۵ سال ہوچکی تھی اور حضرت خدیجہؓ کی عمر اٹھائیس ۲۸ سال تھی( ڈاکٹر محمد حمیداللہ ، رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی ) ( لیکن عام روایت یہ ہے کہ آپ کی عمر چالیس سال تھی) حضرت خدیجہ ؓنے حضور ﷺ کی خوش معاملگی اور ستودہ صفات سے متاثر ہوکر خود ہی اپنی سہیلی نفیسہ بنت منیہّ کے ذ ریعہ آپﷺ کی خدمت میں نکاح کا پیغام بھیجا، حضور ﷺ نے اپنی رضامندی ظاہر کی اور اپنے ہم عمر چچا اور دودھ شریک بھائی حضرت حمزہؓ سے ذکر کیا جنھوں نے اہلِ خاندان سے مشور ہ کرکے خود ہی جاکرپیام منظور کر لیا، چنانچہ آپ ﷺ کاحضرت خدیجہؓ سے نکاح ہوا جس میں حضرت خدیجہ ؓ کی جانب سے ان کے چچا عمرو بن اسد اور حضور ﷺ کی جانب سے حضرت ابو طالب ، حضرت حمزہؓ ، حضرت ابو بکرؓ اور سردارانِ قریش شریک تھے، مہر بہ اختلاف روایات ۲۰ اونٹ، ۴۰۰ دیناریا ۵۰۰ درہم قرار پایا۔ یہاں اس بات کی صراحت ضروری ہے کہ عام روایت کی بموجب نکاح کے وقت حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیں سال بتائی جاتی ہے ؛لیکن بین الاقوامی شہرت کے حامل اسکالراور سیرت نگار ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے محمدبن حبیب بغدادی مصنف کتاب المحبّر کے حوالہ سے ۲۸ سال بتائی ہے( رسول اکرمﷺ کی سیاسی زندگی)انھوں نے مزید لکھا ہے کہ متعدد مؤرخوں کے خیال کی اس حیاتیاتی حقیقت سے بھی توثیق ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ سے حضرت خدیجہؓ کے ہاں سات بچے یعنی تین بیٹے اور چار بیٹیاں پیدا ہوئیں ، قاسم ، طاہر ، طیب ، زینب ، رقیہ ، اُم کلثوم ، فاطمہ، حضور اکرمﷺ کی ساری اولاد حضرت خدیجہؓ سے ہوئی بجز حضرت ابراہیمؓ کے جو حضرت ماریہ قبطیہ ؓ کے بطن سے پیدا ہوئے، اٹھائیس سال کی مزید تائید الزرقانی کے بیان سے بھی ہوتی ہے، وہ القسطلانی کی کتاب المواھب " کی مشہور شرح المغلطائی کے حوالہ سے لکھتے ہیں اور یہ بھی کہا جا تا ہے کہ وہ ۲۸ سال کی تھیں جیسا کہ المغلطائی اور دوسروں نے بیان کیا ہے ( الزرقانی جلد ۱) سب سے زیادہ وقیع بات تویہ ہے کہ ابن سعد ( متوفی ۲۳۰ہجری) نے عبداللہ بن عباس کی سند سے روایت لکھی ہے کہ خدیجہ ؓ کی عمر جس دن رسول اکرم ﷺ نے ان سے نکاح کیا ۲۸ سال تھی۔(طبقات جلد ۸ فی النساء) اس کے علاوہ پاکستانی سیرت نگار ضیاء الدین کرمانی نے اپنی کتاب (''THE LAST MESSENGER WITH صلى الله عليه سلم LASTING MESSAGE'') اردو ترجمہ ابدی پیغام کے آخری پیغامبر میں جنسی معلومات کی انسائیکلو پیڈیامطبوعہ انسائیکلوپیڈیاپریس لندن اور ڈاکٹر ہنری این گرنسی Dr. Henry M Guernsey MD.کی زجگی کے موضوع پر کتاب ( ناشر بورِک اینڈ ٹیفل امریکہ ۱۸۸۱ء)کے حوالوں سے بتلایا گیا ہے کہ حضور ﷺ سے نکاح کے وقت حضرت خدیجہؓؓ کی عمر ۲۸ سال تھی (ابدی پیغام کے آخری پیغامبر صفحہ ۷۵ تا ۷۸) حضرت خدیجہؓ آپ ﷺ کی پھوپھی صفیہ ؓ کی نند تھیں،نکاح کے بعد حضور ﷺ چند دن بنی ہاشم کے محلہ میں گزار کر حضرت خدیجہؓ کے مکان میں آگئے ، حضرت خدیجہؓ نے آپﷺ کی خدمت کے لئے ایک غلام زید ؓ بن حارثہ کو پیش کیا جو اس وقت پندرہ سال کے تھے اور جنھیں بچپن میں ڈاکوؤں نے عُکّاظ کے بازار میں حکیم بن حزام کے ہاتھ فروخت کر دیا تھا اور بعد میں انہوں نے اپنی پھوپھی حضرت خدیجہؓ کی نذر کیا تھا، کچھ عرصہ بعد زید ؓ کے باپ کو معلوم ہوا کہ زید زندہ ہیں تو باپ اور چچا دونوں نے حضور ﷺ کی خدمت حاضر ہو کر انھیں ان کے حوالے کرنے کی درخواست کی جس پر حضور ﷺ نے زید سے فرمایا کہ تمہارے باپ اور چچا تمہیں لینے آئے ہیں، اب تمہیں اختیار ہے کہ چاہو توان کے ساتھ اپنے وطن لوٹ جاؤ چاہو تو میرے ساتھ رہو، اس پر زید نے اپنے باپ اور چچا کے ساتھ جانے کے مقابلہ میں حضورﷺ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ اس کے بعد حسب دستور حضور ﷺ زیدؓ کو ساتھ لے کر حرم کعبہ میں آئے اور حطیم کے پاس جا کر اعلان فرمایا: لوگو ! گواہ رہنا کہ زید آزاد ہے اور آج سے وہ میرا بیٹا ہے،یہ اعلان سُن کر اُن کے باپ اور چچا بہت خوش ہوئے اور اپنے وطن واپس لوٹ گئے، حضرت زیدؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ واحد صحابی ہیں جن کا نام قرآن مجید میں آیا ہے۔