انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۱۱۔بکر بن عبداللہ مزنیؒ نام ونسب بکر نام،باپ کا نام عبداللہ تھا،نسبی تعلق قبیلہ مزینہ سے تھا۔ فضل وکمال بکر علمائے بصرہ میں تھے اوران کے علمی کمالات کی وجہ سے شیخ البصرہ حضرت حسن کے مقابلہ میں ان کا لقب فتی البصرہ تھا۔ (ابن سعد،جلد۷،ق ۱،ص۱۵۲) حدیث حدیث کے ممتاز حفاظ میں تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں وكان ثقة ثبتا مأمونا كثير الحديث حجة ،(ایضا) صحابہ میں انہوں نے عبداللہ بن عمرؓ،عبداللہ بن عباس اورمغیرہ بن شعبہؓ اورتابعین میں ابو رافع،صائغ،ابو تمیمہ جحمی وغیرہ سے سماع حدیث کیا تھا ثابت البنائی سلیما ن تیمی ،قتادہ،غالب القطان،عاصم الاحول،سعید بن عبداللہ اور رمطرالوراق ان کے تلامذہ میں ہیں ان کی مرویات کی تعداد پچاس تک پہنچتی ہے۔ (تہذیب التہذیب:۱/۴۸۴) فقہ فقہ میں بھی درک تھا،علامہ ابن سعد ان کے حفظ حدیث کے ساتھ انہیں فقیہ بھی لکھتے ہیں۔ (ابن سعد،ج ۷،ق۱،ص۱۵۲) عہدہ قضاء کی پیشکش سے انکار ان کے فقہی کمال کی بنا پر عہدہ قضاء ان کے سامنے پیش کیا گیا مگر یہ اس کی ذمہ داریوں سے بہت گھبراتے تھے،اس لیے قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوئے اوریہ معقول منطقی دلیل پیش کی کہ خدائے وحدہ لاشریک کی قسم مجھے قضا میں کوئی درک نہیں ہے اگر میں سچ کہتا ہوں تو ظاہر ہے کہ اس عہدہ کااہل نہیں اور اگر غلط کہتا ہوں تو جھوٹا شخص قاضی بنائے جانے کے لائق نہیں۔ (ابن سعد:۷/۱۵۳) مبتدعانہ عقائد سے نفرت عقائد میں بکر صحابہ کرام کے صاف اورسادہ عقیدہ کے پابند تھے،عقلی موشگافیوں کو سخت ناپسند اور جدت طرازیوں سے سخت نفرت کرتےتھے،اس زمانہ میں قدر کا مسئلہ چھڑ چکا تھا،اگر بکر کبھی اس کا ذکر بھی سن لیتے تو اس کے کفارہ میں دو رکعت نماز ادا کرتے تھے۔ (ایضاً:۱۵۲) بارگاہ ایزدی میں الحاح اس فراغت واطمینان کی حالت میں بھی وہ اپنے کو خدا کی بارگاہ کا ایک گدائے بے نوا سمجھتے تھے اورہمیشہ اس کے فضل وکرم کے طالب رہا کرتے تھے؛چنانچہ دعا کیا کرتے تھے،خدا یا مجھے اپنے فضل وکرم سے رزق عطا فرماتا کہ میں اورزیادہ شکر گزار ہوں ،صرف تیری ہی احتیاج ہے،تیرے ماسوا سے استغنا ہے، خدایا نہ میری امیدیں اورآرزوئیں میرے اختیار میں ہیں اور نہ پسندیدہ باتوں کا روکنا میرے بس میں ہے،میرے تمام معاملات کسی اور کے ہاتھ میں ہیں، دنیا میں کوئی محتاج مجھ سے زیادہ محتاج نہیں،یہ دعاکرکے فرماتے اے ابن آدم ایسی امید وآرزو نہ کر جو خدا کی نیرنگی سے بے خوف کردےاورنہ ایسا خوف وہراس طاری کر جو خدا کی رحمت سے مایوس کردے۔ (ابن سعد:۱۵۲) شرط رفاقت آپ کے بعض اصول ہر انسان کے لیے لائق عمل ہیں،شرط رفاقت کے سلسلہ میں فرماتے تھے کہ اگر تمہارے ساتھی کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے اور تم اس کا اتنا بھی انتظار نہ کرو کہ وہ اپنا تسمہ درست کرلے،یا وہ پیشاب کے لیے بیٹھے،اورتم اس کے فارغ ہونے کا انتظار نہ کرو تو تم اس کے ساتھ نہیں ہو۔ (ابن سعد،جلد۷،ق۱،ص۱۵۲) زیادہ باتیں مضر ہیں فرماتے تھے زیادہ باتیں نہ کیا کرو،اگر تم نے صحیح اوردرست باتیں کیں تو اس کا کوئی اجر نہ ملے گا اوراگر غلط کیں تو تم سے ان کا مواخذہ ہوگا۔ (ایضاً) وفات ۱۸۰ھ میں بصرہ میں وفات پائی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جنازہ پر خلقت ٹوٹ پڑتی تھی۔ (ایضاً:۱۵۳)