انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت سعد بن معاذ اور حضرت اسید بن حضیر کا قبول اسلام مدینہ میں بنی عبد الاشہل کے سردارسعدؓ بن معاذ اور اسید بن حضیرکو ان مبلغین اسلام کی یہ سرگرمیاں پسند نہ آئیں ، حضرت سعدؓ بن معاذ نے حضرت اسیدؓ بن حضیر سے کہا کہ اسعد ؓ بن زرارہ میری خالہ کا لڑکا ہے اس لئے میرے بجائے تم جاکر انھیں ڈانٹ ڈپٹ کرو اور ہمارے محلہ میں آنے سے منع کردو، چنانچہ وہ تلوار لے کر حضرت مصعبؓ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے، تم لوگ ہمارے بچوں اور عورتوں کو کیوں بہکاتے ہو ؟ بہتر یہی ہے کہ یہاں سے چلے جاؤ ورنہ اچھا نہ ہوگا ، حضرت مصعبؓ نے کہا : ہم لوگ جو کچھ کہتے ہیں بہتر ہے کہ اسے آپ بھی سن لیں، اگر پسند آئے قبول کریں ورنہ انکار کردیں، اسید بن حضیر سننے کے لئے تیار ہوگئے ، حضرت مصعبؓ نے قرآن پاک کی کچھ آیات تلاوت کیں ، اسید انھیں سن کر جھومنے لگے اور پکار اٹھے،یہ کلام کس قدر عمدہ اور بہتر ہے ، پھر اسی وقت داخل اسلام ہوگئے۔ قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعدؓ بن معاذ تھے ، قبیلہ پر ان کا یہ اثر تھا کہ تمام کام ان کے اشاروں پر چلتے ، حضرت مصعبؓ نے جب ان کےپاس جاکر اسلام کی دعوت دی تو انھوں نے پہلے نفرت ظاہر کی؛ لیکن حضرت مصعبؓ نے قرآن مجید کی چند آیتیں پڑھیں تو ان کے دل کے دروازے بھی اسلام کے لئے کھل گئے اور اسی وقت مشرف بہ اسلام ہوگئے ، ان کا اسلام لانا تمام قبیلہ ٔ اوس کا اسلام قبول کرلینا تھانماز با جماعت حضرت مصعبؓ بن عمیرکی امامت میں ہوا کرتی، چونکہ اوس و خزرج میں قبائلی عصبیت تھی اس لئے ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا پسند نہیں کرتے تھے،( محمد ابراہم سیالکوٹی، سیرت المصطفیٰ بحوالہ سیرت احمد مجتبیٰ، مصباح الدین شکیل) ایک روز حضرت اسیدؓ بن حضیر نے اپنے قبیلہ بنی عبدالاشہل والوں سے کہا کہ میں تم میں کس درجہ کا آدمی ہوں ؟سب نے کہا : آپ ہمارے سردار ہیں ، کہا : تو پھر تمہارے مرد اور عورتوں کا مجھ سے کلام حرام ہے جب تک اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لاؤ، اس گفتگو کا یہ اثر ہوا کہ شام ہونے سے قبل تمام قبیلہ ایمان لے آیا، بجز ایک شخص اصیرم بن ثابت کے جو میدانِ اُحد میں حضورﷺ پر ایمان لائے اور تلوار سونت کر میدان میں کود پڑے یہاں تک کہ لڑتے لڑتے شہید ہوگئے ، نہ ایک نماز پڑھی نہ ایک روزہ رکھا حضورﷺ نے فرمایا:اس نے عمل تھوڑ اکیا؛ لیکن اجر بہت پایا ، وہ یقیناًجنتی ہے۔( مصباح الدین شکیل ، سیرت احمد مجتبیٰ) یہا ں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بنی عبدالاشہل میں ایک بھی منافق نہ تھا ۔ پہلی بیت عقبہ کے بعد یثرب میں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا یہاں تک کے انصار کا کوئی گھرانہ باقی نہ بچا جس میں چند مرد اور عورتیں مسلمان نہ ہو چکی ہوں، صرف بنی امیہ بن زید ، خطمہ ، وائل اور واقف کے گھرانے باقی رہ گئے تھے، مشہور شاعر قیس بن ا لصلت انہی کا آدمی تھا اور یہ لوگ اسی کی بات مانتے تھے، اس شاعر نے انھیں غزوۂ خندق ۵ ہجری تک اسلام سے روکے رکھا، اس کے بعد وہ ایمان لائے