انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عہد جاہلیت زمانہ جاہلیت میں قریش کی شرافت وحکومت دس خاندانوں میں منحصر ومنقسم تھی،ان معزز سردار خاندانوں کےنام یہ ہیں۔ (۱)ہاشم (۲)امیہ (۳)نوفل (۴)عبدالدار (۵)اسد (۶)تمیم (۷)مخزوم (۸)عدی (۹)عج ٍ (۱۰)سہم ۔ ان میں بنو ہاشم کے متعلق سقایت یعنی حاجیوں کو پانی پلانا،بنو نوفل کے متعلق بے زاد حاجیوں کو توشہ دینا اور زادِ سفر دینا تھا،بنو عبدالدار کے پاس خانہ کعبہ کی کنجی اور دربانی تھی،بنو اسد کے متعلق مشورہ اور دارالندوہ کا اہتمام تھا، بنو تمیم کے متعلق خوں بہا اورتاوان کا فیصلہ تھا، بنو عدی کے متعلق سفارت اور قومی مفاخرت کا کام تھا، بنو تمیم کے پاس شگون کے تیر تھے،موسم کے متعلق بتوں کا چڑھاوا رہتا تھا،بنو تمیم میں حضرت ابوبکر صدیق ؓخوں بہا اورتاوان کا فیصلہ کرتے تھے ،جس کو ابوبکر صدیق مان لیتے،تمام قریش اس کو تسلیم کرتے اگر کوئی دوسرا اقرار کرتا تو کوئی بھی ا س کا ساتھ نہ دیتا تھا،اسی طرح بنو عدی میں حضرت عمر بن الخطابؓ سفارت کی خدمت انجام دیتے تھے اورمیدان جنگ میں بھی سفیربن جاتے اور مقابلہ میں قومی مفاخربیان کرتے تھے، حضرت ابو بکر صدیق علاوہ اس شرف وفضیلت کے کہ وہ اپنے قبیلے کےسردار اور منجملہ دس سرداران قریش کے ایک سردار تھے، مال ودولت کے اعتبار سے بھی بڑے متمول اور صاحب اثر تھے، آپ قریش میں بڑے با مروت اورلوگوں پر احسان کرنے والے تھے،مصائب کے وقت صبر واستقامت سے کام لیتے اور مہمانوں کی خوب مدارات و تواضع بجالاتے،لوگ اپنے معاملات میں آپ سے آکر مشورہ لیا کرتے اور آپ کو اعلیٰ درجے کا صائب الرائے سمجھتے تھے،یہی وجہ تھی کہ ابن الدغنہ آپ کو راستے سے جب کہ آپ مکہ سے رخصت ہوچکے تھے واپس لے آیا تھا جس کا ذکر اوپر آچکا ہے،آپ انساب اور اخبار عرب کے بڑے ماہر تھے،آپ طبعاً برائیوں اور کمینہ خصلتوں سے محترز رہتے تھے،آپ نے جاہلیت ہی میں اپنے اوپر شراب حرام کرلی تھی،حضرت ابو بکر صدیق سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے کبھی شراب پی ہے آپ نے فرمایا نعوذ باللہ کبھی نہیں، اس نے پوچھا کیوں؟ آپ نے فرمایا میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے بدن میں سے بو آئے اور مروّت زائل ہوجائے ،یہ گفتگو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں روایت ہوئی تو آپ نے دو مرتبہ فرمایا کہ ابوبکرؓ سچ کہتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ خیر مجسم ،بے عیب سلیم اطبع اورحق پسند وحق پرور تھے،یہی سبب تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دعوت اسلام پیش کی تو آپ نے کچھ بھی پس وپیش نہ کیا،فوراً قبول کرلیا اورنصرت وامداد کا وعدہ فرمایا،پھر وعدہ کو نہایت خوبی کے ساتھ پورا کر دکھایا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بجز ابوبکر صدیق کے جس کو میں نے اسلام کی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ پس وپیش کیا،ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بجز نبی کے اور کسی پر جو ابوبکرؓ سے بہتر ہو آفتاب طلوع نہ ہوا،چونکہ آپ قریش میں ہر دلعزیز تھے اس لئے بہت سے لوگ آپ کے سمجھانے سے ایمان لے آئے جن میں عثمان بن عفانؓ،طلحہ بن عبداللہؓ اورسعد بن وقاصؓ جیسے حضرات شامل تھے۔