انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** روایت بالمعنی کے لائق قبول ہونے میں قرآنی موقف تاریخِ مذاہب کا مشہور واقعہ ہے کہ جب حضرت آدم وحوا علیہما السلام نے شجرِممنوعہ کا پھل چکھا تواللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا کہ دونوں نیچے اُترجاؤ، یہ واقعہ قرآنِ کریم میں کئی طرح سے منقول ہے: (۱)"قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَايَضِلُّ وَلَايَشْقَى"۔ (طٰہٰ:۱۲۳) ترجمہ: خدا نے کہا تم دونوں اکٹھے اس سے نیچے اترو کہ ایک کا دشمن ایک ہوگا؛ پھراگرتمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے توجواس کا اتباع کرے گا تووہ نہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں شقی ہوگا۔ (۲)"قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ"۔ (الاعراف:۲۴) ترجمہ:خدا نے کہا تم سب نیچے اُترو ایک دوسرے کے تم دشمن ہوگئے اور تمہارے لیئے زمین میں ٹھکانہ اور رہنا ہے ایک وقت تک۔ (۳)"قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَاخَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ"۔ (البقرۃ:۳۸) ترجمہ: ہم نے کہا اُترجاؤ جنت سے سب کے سب سوپھراگرآئے تمہارے پاس میری طرف سے پیغام ہدایت توجس نے میری پیروی کی اُن پر کوئی خوف نہ ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے۔ یہ ایک ہی واقعہ کی تین مختلف تعبیریں ہیں، رب العزت نے جب یہ بات کہی ہوگی توظاہر ہے کہ ایک بات کہی ہوگی اور باقی تعبیرات اس بات کی روایت بالمعنی ہوں گی، روایت بالمعنی اگر جائز نہ ہوتی توقرآن کریم ایک بات کومختلف تعبیرات میں پیش نہ کرتا، رب العزت نے جب فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ آدم کوسجدہ کروتویاتو کہا ہوگا "اسْجُدُوالِآدَمَ"(البقرۃ:۳۴)یاکہا ہوگا"فَقَعُوالَهُ سَاجِدِينَ" (الحجر:۲۹)ظاہر ہے کہ ان دومیں ایک تعبیر ضرور روایت بالمعنی بنے گی، علامہ محمود آلوسیؒ نے بھی ان آیات سے روایت بالمعنی کا اشارہ کیا ہے۔ (دیکھئے، رُوحُ المعانی:۱/۲۳۶۔ رُوحُ المعانی:۸/۸۹)