انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جماعت کا حکم مسئلہ:مردوں کے لئے پانچوں نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنا سنت موکدہ ہے جو قوت میں واجب کے مشابہ ہوتی ہے (یعنی یہ سنت واجب کے قریب قریب ہے)۔حوالہ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَلْقَى اللَّهَ غَدًا مسلما فَلْيُحَافِظْ عَلَى هَؤُلَاءِ الصَّلَوَاتِ حَيْثُ يُنَادَى بِهِنَّ فَإِنَّ اللَّهَ شَرَعَ لِنَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُنَنَ الْهُدَى وَإِنَّهُنَّ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى(مسلم، بَاب صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى ۱۰۴۶) بند بغیر کسی عذر شرعی کے جماعت سے پیچھے رہ جانا جائز نہیں، جو شخص بغیر کسی عذر کے جماعت کے چھوڑنے کا عادی ہو جائے و ہ گنہ گا ر ہو گا۔حوالہ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِيَ فَلَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ اتِّبَاعِهِ عُذْرٌ قَالُوا وَمَا الْعُذْرُ قَالَ خَوْفٌ أَوْ مَرَضٌ لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ الصَّلَاةُ الَّتِي صَلَّى(ابوداود بَاب فِي التَّشْدِيدِ فِي تَرْكِ الْجَمَاعَةِ ۴۶۴) بند مسئلہ: جمعہ اور عیدین کی نماز کے لئے جماعت شرط ہے ، بغیر جماعت کے جمعہ اور عیدین کی نماز صحیح نہیں ہوتی ۔حوالہ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مسلم، فِي جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً عَبْدٌ مَمْلُوكٌ أَوْ امْرَأَةٌ أَوْ صَبِيٌّ أَوْ مَرِيضٌ(ابوداود بَاب الْجُمُعَةِ لِلْمَمْلُوكِ وَالْمَرْأَةِ ۹۰۱) بند مسئلہ:نماز تراویح کیلئے اور سورج گہن کی نماز کیلئے جماعت سنت موکدہ علی الکفایہ ہے۔حوالہ عن عُرْوَة أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ لَيْلَةً مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ فَصَلَّى فِي الْمَسْجِدِ وَصَلَّى رِجَالٌ بِصَلَاتِهِ فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا فَاجْتَمَعَ أَكْثَرُ مِنْهُمْ فَصَلَّى فَصَلَّوْا مَعَهُ فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا فَكَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنْ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ فَلَمَّا كَانَتْ اللَّيْلَةُ الرَّابِعَةُ عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ حَتَّى خَرَجَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ فَلَمَّا قَضَى الْفَجْرَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَتَشَهَّدَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ مَكَانُكُمْ وَلَكِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْتَرَضَ عَلَيْكُمْ فَتَعْجِزُوا عَنْهَا فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ (بخاري بَاب فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ ۱۸۷۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کوآگے اس ڈر سے نہیں قائم فرمایا کہ کہیں یہ فرض نہ ہوجائے؛ جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا؛ پھرجب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رحلت فرمانے کے بعد اس کے فرض ہوجانے کا خوف ختم ہوچکا تھا؛ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر سے اس کوقائم فرمایا۔ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ خَسَفَتْ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَقَامَ وَكَبَّرَ وَصَفَّ النَّاسُ وَرَاءَهُ فَاقْتَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ الخ(بخاري بَاب صَلَاةِ الْكُسُوفِ ۱۵۰۰ ) بند مسئلہ:رمضان میں وتر کی نماز کیلئے جماعت مستحب ہے ۔حوالہ عَنْ مَالِك عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً (موطامالك بَاب مَا جَاءَ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ: ۲۳۳) مذکورہ اثر سے معلوم ہوا کہ جماعت کی نماز میں بیس رکعت تراویح کے بعد تین رکعات وتر بھی ہوا کرتی تھی۔ بند مسئلہ:وتر کو غیر رمضان میں جماعت کے ساتھ پابندی سے ادا کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔حوالہ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تَطَوُّعِهِ فَقَالَتْ كَانَ يُصَلِّي فِي بَيْتِي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا ثُمَّ يَخْرُجُ فَيُصَلِّي بِالنَّاسِ ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَكَانَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ الْمَغْرِبَ ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَيُصَلِّي بِالنَّاسِ الْعِشَاءَ وَيَدْخُلُ بَيْتِي فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَكَانَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ تِسْعَ رَكَعَاتٍ فِيهِنَّ الْوِتْرُ(مسلم، بَاب جَوَازِ النَّافِلَةِ قَائِمًا وَقَاعِدًا وَفِعْلِ بَعْضِ الرَّكْعَةِ قَائِمًا وَبَعْضِهَا قَاعِدًا ۱۲۰۱) چونکہ وتر میں جماعت کا ثبوت صرف رمضان میں ہے، رمضان کے علاوہ میں نہیں اور مذکورہ حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول گھر میں تہجد کے بعد وتر پڑھنے کا بتلایا گیا؛ ظاہرسی بات ہے کہ یہ انفرادی طور پرحضور صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے؛ اس لیے فقہاءِ کرام نے اس کوباجماعت غیررمضان میں مکروہ قرار دیا۔ بند مسئلہ: اگر ایک دو مرتبہ بغیر پا بندی کے پڑھی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔حوالہ والنادر كالمعدوم (تيسير التحرير لمحمد أمين المعروف بأمير بادشاه فصل في بيان الاعتراضات الواردة على القياس: ۱۱۷/۴)7 بند مسئلہ:چاند گرہن کی نماز کے لئے جماعت مکروہ ہے ۔حوالہ عن عُرْوَة بْن الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى يَوْمَ خَسَفَتْ الشَّمْسُ فَقَامَ فَكَبَّرَ فَقَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَقَامَ كَمَا هُوَ ثُمَّ قَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً وَهِيَ أَدْنَى مِنْ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهِيَ أَدْنَى مِنْ الرَّكْعَةِ الْأُولَى ثُمَّ سَجَدَ سُجُودًا طَوِيلًا ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ سَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتْ الشَّمْسُ فَخَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ إِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ (بخاري بَاب هَلْ يَقُولُ كَسَفَتْ الشَّمْسُ أَوْ خَسَفَتْ الخ: ۹۸۹) بند مسئلہ: فرض نمازوں کے علاوہ جن نمازوں کی جماعت کا ثبوت ہے اسی نماز میں جماعت کی اجازت ہے، اس کے علاوہ میں نہیں۔حوالہ مذکورہ حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف نماز کی طرف متوجہ ہونے کا حکم فرمایا اور جماعت کا چاند گرہن میں ثبوت نہیں ہے، دوسری بات یہ ہے کہ رات کے وقت لوگوں کے جمع ہونے میں حرج ہے اور فتنے کا خوف ہوتا ہے، ان وجوہات کی بناء پر فقہاء کرام نے چاند گرہن میں جماعت کی نماز کومکروہ قرار دیا۔ بند مسئلہ:نفل نمازوں کے لئے اعلان اور دعوت کے ذریعہ جماعت قائم کرنا مکروہ ہے ۔حوالہ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ حُجْرَةً قَالَ حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ مِنْ حَصِيرٍ فِي رَمَضَانَ فَصَلَّى فِيهَا لَيَالِيَ فَصَلَّى بِصَلَاتِهِ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فَلَمَّا عَلِمَ بِهِمْ جَعَلَ يَقْعُدُ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ قَدْ عَرَفْتُ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صَنِيعِكُمْ فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ فَإِنَّ أَفْضَلَ الصَّلَاةِ صَلَاةُ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ(بخاري بَاب صَلَاةِ اللَّيْلِ ۶۸۹) مذکورہ روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نفل نمازوں میں جماعت کوناپسند فرمایا؛ اس لیے فقہاء کرام نے مکروہ قرار دیا بند ہاں ! اگر لوگ بغیر بلاوے اور اعلان کے اکھٹے ہو جائیں اور نفل کی جماعت بغیر اذان و اقامت کے کی جائے تو مکروہ نہیں ہے۔حوالہ عن عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنْ الْأَنْصَارِ أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ أَنْكَرْتُ بَصَرِي وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي فَإِذَا كَانَتْ الْأَمْطَارُ سَالَ الْوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ آتِيَ مَسْجِدَهُمْ فَأُصَلِّيَ بِهِمْ وَوَدِدْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَّكَ تَأْتِينِي فَتُصَلِّيَ فِي بَيْتِي فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّى قَالَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ قَالَ عِتْبَانُ فَغَدَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنْتُ لَهُ فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى دَخَلَ الْبَيْتَ ثُمَّ قَالَ أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ قَالَ فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنْ الْبَيْتِ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ فَقُمْنَا فَصَفَّنَا فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ الخ(بخاري بَاب الْمَسَاجِدِ فِي الْبُيُوتِ ۴۰۷) بند مسئلہ:محلہ کی اس مسجد میں جس کا امام اور موذن ہو جماعت ثانیہ مکروہ ہے جب کہ محلہ والے اذان واقامت کے ساتھ نماز بھی پڑھ چکے ہوں ۔حوالہ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَيُحْطَبَ ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلَاةِ فَيُؤَذَّنَ لَهَا ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَيَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُم(بخاري بَاب وُجُوبِ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ ۶۰۸)عن عبد الرحمن بن أبي بكرة ، عن أبيه :أن رسول الله صلى الله عليه وسلم « أقبل من نواحي المدينة يريد الصلاة ، فوجد الناس قد صلوا ، فمال إلى منزله ، فجمع أهله ، فصلى بهم » (المعجم الاوسط للطبراني باب العين من اسمه :عبدان۴۷۵۷) بند بہر حال اگر پہلی ہیئت بدلی ہوئی ہو، بایں طور کہ دوسری جماعت کا امام پہلی جماعت کے امام کی جگہ کے علاوہ دوسری جگہ میں کھڑا ہو تو مکروہ نہیں۔حوالہ عن الجعد أبي عثمان ، قال :« مر بنا أنس بن مالك رضي الله عنه ، في مسجد بني ثعلبة ، فقال :أصليتم ؟ ، قلنا :نعم وذلك في صلاة الصبح ، فأمر رجلا فأذن وأقام ، ثم صلى بأصحابه(المطالب العالية باب إعادة الصلاة لجماعة في المسجد ۵۱۹) بند