انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عبیدہ بن الحارثؓ نام،نسب عبیدہ نام،ابوالحارث یاابومعاویہ کنیت، والد کا نام حارث اور والدہ کا نام سنحیلہ تھا، سلسلۂ نسب یہ ہے: عبیدہ بن الحارث بن عبدالمطلب بن عبدمناف بن قصی القرشی۔ (اسد الغابہ:۳/۳۵۶) اسلام حضرت عبیدہؓ حضرت ابوسلمہ بن اسدؓ حضرت عبداللہ بن ارقمؓ اور حضرت عثمانؓ بن مظعون ؓ ایک ساتھ ایمان لائے تھے، آنحضرت ﷺ اس وقت تک ارقم بن ابی ارقمؓ کے مکان میں پناہ گزین نہیں ہوئے تھے۔ (اسد الغابہ :۳ /۳۵۷) مکہ میں حضرت بلالؓ ان کے اسلامی بھائی قرارپائے ۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز۳:۱۳۵) ہجرت مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم ہواتوحضرت عبیدہ ؓ اوران کے دونوں بھائی حضرت طفیلؓ حضرت حصینؓ اورحضرت مسطح بن اثاثہؓ ایک ساتھ روانہ ہوئے، اتفاقاًراہ میں حضرت مسطح ؓ کو بچھو نے ڈنگ مارا، اس لیے وہ پیچھے چھوٹ گئے،لیکن دوسرے روز خبرملی کہ وہ نقل وحرکت سے بالکل مجبور ہیں تو پھر واپس آئے اوران کو اٹھا کر مدینہ لائے ،یہاں حضرت عبدالرحمن بن سلمہؓ عجلانی نے خوش آمدید کہا اورلطف ومحبت کے ساتھ میزبانی کا حق اداکیا، آنحضرت ﷺ نے تشریف لانے کے بعد حضرت عمیر بن حمام انصاریؓ سے مواخات کرادی مستقل سکونت کے لیے ایک قطعہ زمین مرحمت فرمایا جس میں ان کا تمام خاندان آباد ہوا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :۳۵) غزوات ہجرت کے آٹھ مہینے بعد ماہ شوال میں ساٹھ مہاجرین کے ایک دستہ پر افسر مقرر ہوکر مشرکین قریش کی دیدبانی کے لیے وادی رابغ کی طرف بھیجے گئے ،تاریخ اسلام میں یہ دوسرا لوائے امارت تھا جو حضرت عبیدہ ؓ کو عطا ہوا۔ وہ رابع کے قریب پہنچے تو ابوسفیان کی زیرامارت دوسو مشرکین کی ایک جماعت سے مڈبھیڑ ہوئی؛ لیکن جنگ وخونریزی کی نوبت نہ آئی، صرف معمولی طورسے چند تیروں کا تبادلہ ہوا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :۳۵) غزوۂ بدر اس مہم کے بعد حق وباطل کی پہلی کشمکش یعنی غزوۂ بدر میں شریک ہوئے، صف آرائی کے بعد مشرکین کی طرف سے عتبہ، شیبہ اورولید نے نکل کر " ھل من مبارز" کا نعرہ بلند کیا، لشکر اسلام سے چند انصاری نوجوان مقابلہ کے لیے بڑھے تو انہوں نے پکار کر کہا کہ "محمد ﷺ ہم ناجنسوں سے نہیں لڑسکتے، ہمارے مقابل والوں کو بھیجو، آنحضرت ﷺ نے حضرت علیؓ، حضرت حمزہؓ، اورحضرت عبیدہؓ کو آگے بڑھنے کا حکم دیا، جنبش لب کی دیر تھی کہ یہ تینوں نبرد آزما بہادر نیزے ہلاتے ہوئے اپنے اپنے حریف کے سامنے جا کھڑے ہوئے، حضرت عبیدہؓ اورولید میں دیر تک کشمکش جاری رہی، یہاں تک کہ دونوں زخمی ہوگئے، چونکہ حضرت علیؓ اورحضرت حمزہؓ اپنے دشمنوں سے فارغ ہوچکے تھے، اس لیے دونوں ایک ساتھ ولید پر ٹوٹ پڑے اوراس کو تہ تیغ کرکے حضرت عبیدہؓ کو میدانِ جنگ سے اُٹھا لائے ۔ (ابوداؤد کتاب اجہاد باب البارزہ) حضرت عبیدہؓ کا ایک پاؤں شہید ہوگیا تھا اور تمام بدن زخموں سے چور تھا، آنحضرت ﷺ نے تسکین خاطر کے لیے ان کے زانو پر سرمبارک رکھ دیا، انہوں نے عرض کیا "یارسول اللہ " اگر ابوطالب مجھے دیکھتے تو انہیں یقین ہوجاتا کہ میں ان سے زیادہ ان کے اس قول کا مستحق ہوں۔ ونسلمہ حتی نصرع حولہ ونذھل عن انبا ئنا والحلائل ہم محمد کی حفاظت کریں گے یہاں تک کہ ان کے ارد گرد مارے جائیں گے اوراپنے بچوں اوربیویوں سے غافل ہوجائیں گے۔ اختتام جنگ کے بعد آنحضرت ﷺ کے ساتھ بدر سے واپس آئے ؛لیکن زخم ایسے کاری تھے کہ جانبر نہ ہوسکے، ترسٹھ برس کی عمر میں داعیِ جنت کو لبیک کہا اورمقامِ صفراء کی خاک پاک نے ان کو اپنے دامن میں چھپا لیا۔ (ایضاً) انا للہ وانا الیہ راجعون فضل وکمال ان کو دربارِ نبوت میں غیر معمولی رفعت حاصل تھی ،آنحضرت ﷺ ان کی نہایت قدر فرماتے تھے، ایک دفعہ آپ مقام صفراء میں خیمہ افگن ہوئے،صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا ‘یارسول اللہ یہاں مشک کی لپٹ آتی ہے، فرمایا، یہاں ابومعاویہ کی قبر موجود ہوتے ہوئے تمہیں اس پر تعجب کیوں ہے؟ (استیعاب تذکرۂ عبیدہ بن الحارث) حلیہ قدمیانہ ،رنگ گندم گوں اورچہرہ خوبصورت ۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :۳۵) اولاد حضرت عبیدہؓ نے متعدد بیویوں سے حسب ذیل لڑکے اورلڑکیوں کو یادگار چھوڑا ،( ایضاً) معاویہ عون، منقذ،حارث، محمد، ابراہیم، ریطہ، خدیجہ، سنجیلہ، صفیہ