انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** وفات مرض الموت استخلاف حضرت عمر فاروق ؓ حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کو ابھی صرف سوادوبرس ہوئے تھےاور اس قلیل عرصہ میں مدعیان نبوت ،مرتدین اور منکرین زکوۃ کی سرکوبی کے بعد فتوحات کی ابتداء ہی ہوئی تھی کہ پیام اجل پہنچ گیا،حضرت عائشہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن جب کہ موسم نہایت سردوخنک تھا، آپ نے غسل فرمایا غسل کے بعد بخار آگیا اور مسلسل پندرہ دن تک شدت کے ساتھ قائم رہا، اس اثناء میں مسجد میں تشریف لانے سے بھی معذور ہوگئے؛چنانچہ آپ کے حکم سے حضرت عمر ؓ امامت کی خدمت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ مرض جب روز بروزبڑھتا گیااور افاقہ سے مایوسی ہوتی گئی تو صحابہ کرام ؓ کو بلاکر جانشینی کے متعلق مشورہ کیا اور حضرت عمر ؓ کا نام پیش کیا، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے کہا عمر ؓ کے اہل ہونے میں کس کو شبہ ہوسکتا ہے ؛لیکن وہ کسی قدر متشدد ہیں"حضرت عثمان ؓ نے کہا"میرے خیال میں عمر ؓ کا باطن ظاہر سے اچھا ہے"لیکن بعض صحابہ ؓ کو حضرت عمر ؓ کے تشدد کے باعث پس وپیش تھی؛چنانچہ حضرت طلحہ عیادت کے لئے آئےتو شکایت کی کہ آپ عمر ؓ کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں، حالانکہ جب آپ کے سامنے وہ اس قدر متشدد تھے تو خدا جانے آئندہ کیا کریں گے؟حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جواب دیا" جب ان پر خلافت کا بار پڑے گا تو ان کو خود نرم ہوناپڑے گا۔"اسی طرح ایک دوسرے صحابی نے کہا، آپ عمر ؓ کے تشدد سے واقف ہونے کے باوجود ان کو جانشین کرتے ہیں ، ذراسوچ لیجئے آپ خدا کے یہاں جارہے ہیں وہاں کیا جواب دیجئے گا۔"فرمایا "میں عرض کروں گا خدایا میں نے تیرے بندوں میں سے اس کو منتخب کیا ہے جوان میں سب سے اچھا ہے۔" غرض سب کی تشفی کردی اور حضرت عثمان ؓ کو بلا کر عہد نامہ خلافت لکھوانا شروع کیا، ابتدائی الفاظ لکھے جاچکے تھے غش آگیا، حضرت عثمان ؓ نے یہ دیکھ کر حضرت عمر ؓ کا نام اپنی طرف سے بڑھادیا،تھوڑی دیر کے بعد ہوش آیا تو حضرت عثمان ؓ سے کہا کہ پڑھ کرسناؤ،انہوں نے پڑھا تو بے ساختہ اللہ اکبر پکار اٹھے اور کہا خدا تمہیں جزائے خیر دے تم نے میرے دل کی بات لکھ دی، غرض عہد نامہ مرتب ہوچکا تو اپنے غلام کو دیا کہ جمع عام میں سنادے اور خود بالاخانہ پر تشریف لے جاکر تمام حاضرین سے فرمایا کہ میں نے اپنے عزیز بھائی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا ہے ؛بلکہ اس کو منتخب کیا ہے جو تم لوگوں میں سب سے بہتر ہے، تمام حاضرین نے اس حسن انتخاب پر سمعنا وطعنا کہا، اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت عمر ؓ کو بلاکر نہایت مفید نصیحتیں کیں جو ان کی کامیاب خلافت کے لئے نہایت عمدہ دستور العمل ثابت ہوئیں۔ (طبقات ابن سعد قسم اول ج ۳ وصیت ابوبکر ؓ ص ۴۲) اس فرض سے فارغ ہونے کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نے ذاتی اور خانگی امور کی طرف توجہ کی، حضرت عائشہ ؓ کو انہوں نے مدینہ یا بحرین کے نواح میں اپنی جاگیر دیدی تھی ؛لیکن خیال آیا کہ اس سے دوسرے وارثوں کی حق تلفی ہوگی، اس لئے فرمایا"جان پدر !افلاس وامارت دونوں حالتوں میں تم مجھے سب سے زیادہ محبوب رہی ہو؛لیکن جو جاگیر میں نے تمہیں دی ہے،کیا تم اس میں اپنے بھائی بہنوں کو شریک کرلوگی؟"حضرت عائشہ ؓ نے حامی بھرلی تو آپ ؓ نے بیت المال کے قرض کی ادائیگی کے لئے وصیت فرمائی اور کہا کہ ہمارے پاس مسلمانوں کے مال میں سے ایک لونڈی اور دواونٹنیوں کے سواکچھ نہیں، عائشہ ؓ! میرے مرتے ہی یہ عمر ؓ کے پاس بھیج دی جائیں؛چنانچہ یہ تمام چیزیں حضرت عمر ؓ کے پاس بھیج دی گئیں۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ میری تجہیز وتکفین سے فارغ ہوکر دیکھنا کوئی اور چیز تو نہیں رہ گئی ہے، اگر ہو تو اس کو بھی عمر ؓ کے پاس بھیج دینا، گھر کا جائز ہ لیا گیا تو بیت المال کی کوئی اور چیز کا شانۂ صدیقی سے برآمد نہیں ہوئی (طبقات ابن سعدق اج ۳ ص ۱۳۶) تجہیز وتکفین کے متعلق فرمایا کہ اس وقت جو کپڑا بدن پرہے اسی کو دھوکر دوسرے کپڑوں کے ساتھ کفن دینا، عائشہ نے عرض کیا کہ یہ تو پرانا ہے، کفن کے لئے نیا ہونا چاہئے،فرمایا"زندے مردوں کی بہ نسبت نئے کپڑوں کے زیادہ حق دار ہیں میرے لئے یہی پھٹاپرانا بس ہے"۔ اس کے بعد پوچھا آج دن کو ن سا ہے؟ لوگوں نے جواب دیادوشنبہ پھر پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال کس روز ہوا تھا؟ کہاگیاکہ دوشنبہ کے روز "فرمایا تو پھر میری آرزو ہے کہ آج ہی رات تک اس عالم فانی سے رحلت کرجاؤں’’چنانچہ یہ آخری آرزو بھی پوری ہوئی، یعنی دوشنبہ کا دن ختم کر کے منگل کی رات کو تریسٹھ برس کی عمر میں اواخرجمادی الاول ۱۳ھ کو رہ گزین عالم جاوداں ہوئے ۔ ( طبقات ابن سعد) انا للہ وانا الیہ راجعون وصیت کے مطابق رات ہی کے وقت تجہیز وتکفین کا سامان کیا گیا، آپ کی زوجہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ نے غسل دیا، حضرت عمر فاروق ؓ نے جنازہ کی نماز پڑھائی؛ حضرت عثمان ؓ ،حضرت طلحہ ؓ ،حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ اور حضرت عمرفاروق ؓ نے قبر میں اتارا اور اس طرح سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا رفیق زندگی آپ کے پہلو میں مدفون ہوکر دائمی رفاقت کے لئے جنت میں پہنچ گیا۔