انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** لقطہ کے متعلق کچھ احكام warning: preg_match() [function.preg-match]: Compilation failed: regular expression is too large at offset 34224 in E:\wamp\www\Anwar-e-Islam\ast-anwar\includes\path.inc on line 251. (۱)لقطہ اٹھانے کا حکم یہ ہے کہ اگر اندیشہ ہو کہ اسے نہ اٹھایا جائے تو وہ ضائع ہوجائے گا تو اصل مالک تک پہنچانے کی نیت سے اٹھا لینا مستحب ہے،اگر اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو اس كے مالک تک پہنچانے کی نیت سے اٹھا لینا مباح ہے اور دونوں صورتوں میں اگر نیت یہ ہو کہ خود ہی رکھ لیں گے، مالک کو نہ پہنچائیں گے تو حرام ہے۔ حوالہ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ اللُّقَطَةِ فَقَالَ عَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ اعْتُرِفَتْ فَأَدِّهَا وَإِلَّا فَاعْرِفْ وِعَاءَهَا وَعِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا وَعَدَدَهَا ثُمَّ كُلْهَا فَإِذَا جَاءَ صَاحِبُهَا فَأَدِّهَا(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي اللُّقَطَةِ وَضَالَّةِ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ ۱۲۹۴)أَمَّا حَالَةُ النَّدْبِ : فَهُوَ أَنْ يُخَافَ عَلَيْهَا الضَّيْعَةُ لَوْ تَرَكَهَا فَأَخْذُهَا لِصَاحِبِهَا أَفْضَلُ مِنْ تَرْكِهَا ؛ لِأَنَّهُ إذَا خَافَ عَلَيْهَا الضَّيْعَةَ كَانَ أَخْذُهَا لِصَاحِبِهَا إحْيَاءً لِمَالِ الْمُسْلِمِ مَعْنًى فَكَانَ مُسْتَحَبًّا وَاَللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ وَأَمَّا حَالَةُ الْإِبَاحَةِ : فَهُوَ أَنْ لَا يَخَافَ عَلَيْهَا الضَّيْعَةَ فَيَأْخُذَهَا لِصَاحِبِهَا ، وَهَذَا عِنْدَنَا…وَأَمَّا حَالَةُ الْحُرْمَةِ : فَهُوَ أَنْ يَأْخُذَهَا لِنَفْسِهِ لَا لِصَاحِبِهَا… وَلِأَنَّهُ أَخَذَ مَالَ الْغَيْرِ بِغَيْرِ إذْنِهِ لِنَفْسِهِ فَيَكُونُ بِمَعْنَى الْغَصْبِ (بدائع الصنائع فصل في بيان احوال اللقطة ۷۵/۱۴)عَنْ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ قَالَ كُنْتُ مَعَ جَرِيرٍ بِالْبَوَازِيجِ فَجَاءَ الرَّاعِي بِالْبَقَرِ وَفِيهَا بَقَرَةٌ لَيْسَتْ مِنْهَا فَقَالَ لَهُ جَرِيرٌ مَا هَذِهِ قَالَ لَحِقَتْ بِالْبَقَرِ لَا نَدْرِي لِمَنْ هِيَ فَقَالَ جَرِيرٌ أَخْرِجُوهَا فَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَأْوِي الضَّالَّةَ إِلَّا ضَالٌّ (ابوداود، بَاب التَّعْرِيفِ بِاللُّقَطَةِ: ۱۴۶۲) بند (۲)لقطہ، اٹھانے والےكے قبضہ میں بطور امانت ہے اس لحاظ سے اگر اسے اس نیت سے اٹھایا گیا کہ مالک تک پہنچا دیا جائیگا اوراس کی کوتاہی اورغفلت کے بغیر وہ چیز ضائع ہوگئی تو وہ اس کا ضامن نہ ہوگا اوراگر اس کی حفاظت میں کوتاہی ہوئی پھر وہ ضائع ہوگیا تو وہ ضامن ہوگا، اگر اسے اسی نیت سے اٹھایا گیا کہ خود ہی استعمال کرلیں گے تو بہر صورت ضامن ہوگا۔ حوالہ عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا ضَاعَتِ اللُّقَطَةُ فَصَاحِبُهَا ضَامِنٌ(مصنف ابن ابي شيبة فِي اللّقطةِ تضِيع مِن الِّذِي أخذها ۴۶۶/۶)أَمَّا حَالَةُ الْأَمَانَةِ : فَهِيَ أَنْ يَأْخُذَهَا لِصَاحِبِهَا لِأَنَّهُ أَخَذَهَا عَلَى سَبِيلِ الْأَمَانَةِ فَكَانَتْ يَدُهُ يَدَ أَمَانَةٍ كَيَدِ الْمُودَعِ۔ (بدائع الصنائع، فصل في بيان احوال اللقطة:۷۶/ ( بند (۳)مالک کو پہنچانے کی نیت ہو تو اس کے ملتے ہی اعلان کردے کہ جس صاحب کی فلاں چیز کھو گئی ہو تو علامات بتا کر لےلے اوراعلان کے لیے لوگوں کی گزرگاہ اورمجمع وغیرہ کا انتخاب کرے یا جس ذریعہ سے بھی اعلان ہوجائے۔ حوالہ عن زيد بن خالد الجهني قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من آوى ضالة فهو ضال مالم يعرفها۔ (المعجم الكبير۵۲۸۱،۲۵۸/۵) بند (۴)جو چیز جتنی قیمتی ہوگی اس کا علان بھی اسی کے بقدر ضروری ہوگااور لقطہ کی قیمت کے لحاظ سے اعلان کی مدت بھی متعین ہوا کرتی ہے جیسے اگر سو درہم یا اس سے زائد کی مالیت کا ہو تو ایک سال، دس درہم کے بقدر مالیت کا ہوتو ایک ماہ، تین درہم کی مقدار کا ہو تو ایک ہفتہ تک اعلان کرتا رہے،لیکن یہ مدت ان اشیاء کے لیے ہےجو خراب ہونے والی نہ ہو اگر خراب ہوجانے والی ہے تو اسے خراب ہونے سے پہلے پہلے صدقہ کردے۔ حوالہ عن يَعْلَى بْنُ مُرَّةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ الْتَقَطَ لُقَطَةً يَسِيرَةً دِرْهَمًا أَوْ حَبْلًا أَوْ شِبْهَ ذَلِكَ فَلْيُعَرِّفْهُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَإِنْ كَانَ فَوْقَ ذَلِكَ فَلْيُعَرِّفْهُ سِتَّةَ أَيَّامٍ(مسند احمد حديث يعلي بن مرة الثقفي ۱۷۶۰۲) عن أُبَيّ بْن كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ أَخَذْتُ صُرَّةً مِائَةَ دِينَارٍ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عَرِّفْهَا حَوْلًا فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا فَلَمْ أَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَقَالَ عَرِّفْهَا حَوْلًا فَعَرَّفْتُهَا فَلَمْ أَجِدْ ثُمَّ أَتَيْتُهُ ثَلَاثًا فَقَالَ احْفَظْ وِعَاءَهَا وَعَدَدَهَا وَوِكَاءَهَا فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِهَا فَاسْتَمْتَعْتُ فَلَقِيتُهُ بَعْدُ بِمَكَّةَ فَقَالَ لَا أَدْرِي ثَلَاثَةَ أَحْوَالٍ أَوْ حَوْلًا وَاحِدًا(بخاري بَاب إِذَا أَخْبَرَهُ رَبُّ اللُّقَطَةِ بِالْعَلَامَةِ دَفَعَ إِلَيْهِ ۲۲۴۸) بند (۵)لقطہ اٹھانے والے کو یہ حق ہے کہ مالک کے آنے پر اس سے علامت دریافت کرے اور اطمینان ہونے پر اس کے حوالے کردے پھر چاہے تو اس سے کفیل طلب کرلے کہ اگر خدانخواستہ کوئی اور مالک نکل آئے تو اسے کوئی نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ حوالہ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أَعْرَابِيًّا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ اللُّقَطَةِ قَالَ عَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ جَاءَ أَحَدٌ يُخْبِرُكَ بِعِفَاصِهَا وَوِكَائِهَا وَإِلَّا فَاسْتَنْفِقْ بِهَا(بخاري بَاب مَنْ عَرَّفَ اللُّقَطَةَ وَلَمْ يَدْفَعْهَا إِلَى السُّلْطَانِ ۲۲۵۸) فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ يَجُوزُ لِلْمُلْتَقِطِ أَنْ يَرُدَّ اللُّقَطَةَ إلَى مَنْ وَصَفَهَا بِالْعَلَامَاتِ الْمَذْكُورَةِ مِنْ دُونِ إقَامَةِ الْبَيِّنَةِ(نيل الاوطار كِتَابُ اللُّقَطَةِ ۱۸۴/۹) بند (۶)اعلان کے باوجود کوئی مالک نہ آئے تو اسے مالک کی طرف سے صدقہ کردے اگر خود غریب ہو تو خود ہی رکھ لے یا اولاد اوراہل خاندان میں کوئی غریب ہو تو ان کو دیدے اورصدقہ کی کسی بھی صورت میں اس کا مالک آجائے اور وہ اس صدقہ کو جائز قرار دیتا ہو تو وہ اجروثواب کا مستحق ہوگا اور وہ اس کی اجازت نہیں دیتا ہے تو پھر اس کا بدل دینا ہوگا۔ حوالہ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ : أَنَّ رَجُلاً مِنْ بَنِى رُؤَاسٍ وَجَدَ صُرَّةً فَأَتَى بِهَا عَلِيًّا رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ : إِنِّى وَجَدْتُ صُرَّةً فِيهَا دَرَاهِمُ وَقَدْ عَرَّفْتُهَا وَلَمْ نَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا وَجَعَلْتُ أَشْتَهِى أَنْ لاَ يَجِىءَ مَنْ يَعْرِفُهَا قَالَ : تَصَدَّقَ بِهَا فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَرَضِىَ كَانَ لَهُ الأَجْرُ وَإِنْ لَمْ يَرْضَ غَرِمْتَهَا وَكَانَ لَكَ الأَجْرُ(السنن الكبري للبيهقي باب اللُّقَطَةِ يَأْكُلُهَا الْغَنِىُّ وَالْفَقِيرُ إِذَا لَمْ تُعْتَرَفْ بَعْدَ تَعْرِيفِ سَنَةٍ ۱۲۴۲۱) بند (۷)لقیط( ایسے نابالغ بچہ کو کہتے ہیں جو پڑا ہوا ملے،اس کے والدین کا پتہ نہ ہو اگرچہ وہ باشعور ہو) کو اٹھالینا مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے اگر کسی نے نہیں اٹھایا اور وہ مرگیا تو سارے علاقے والے گناہ گار ہونگے۔ حوالہ اللقيط… أحكامه: الالتقاط عند الحنفية مندوب إليه وهو من أفضل الأعمال؛ لأنه يترتب عليه إحياء النفس، ويكون فرض كفاية إن غلب على الظن هلاك الولد لو لم يأخذه، كأن وجد في مغارة ونحوها من المهالك، لحصول المقصود بالبعض وهو صيانته۔(الفقه الاسلامي وادلته حقيقة اللقيط وأحكامه۶۰۹/۶) بند (۸)اگر لقیط مسلمانوں کے علاقے میں پایا گیا تو مسلمان اور غیر مسلموں کے علاقہ میں پایا گیا تو غیر مسلم تصور کیا جائیگا، اگر مسلمان کی پرورش میں ہو گیا تو مسلمان اورغیر مسلم کی پرورش میں رہا تو غیر مسلم مانا جائیگا۔ حوالہ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا(الروم: ۲۹) عن أَبي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ يُحَدِّثُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ﴿ فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ﴾ (بخاري بَاب إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ ۱۲۷۰)وَاللَّقِيطُ الَّذِي هُوَ فِي يَدِ الْمُسْلِمِ وَتَصَرُّفِهِ يَكُونُ مُسْلِمًا ظَاهِرًا ، وَالْمَوْجُودُ فِي الْمَكَانِ الَّذِي هُوَ فِي أَيْدِي أَهْلِ الذِّمَّةِ وَتَصَرُّفِهِمْ فِي أَيْدِيهِمْ وَاللَّقِيطُ الَّذِي هُوَ فِي يَدِ الذِّمِّيِّ وَتَصَرُّفِهِ يَكُونُ ذِمِّيًّا ظَاهِرًا ، فَكَانَ اعْتِبَارُ الْمَكَانِ أَوْلَى فَإِنْ وَجَدَهُ مُسْلِمٌ فِي مِصْرٍ مِنْ أَمْصَارِ الْمُسْلِمِينَ فَبَلَغَ كَافِرًا يُجْبَرُ عَلَى الْإِسْلَامِ وَلَكِنْ لَا يُقْتَلُ ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يُعْرَفْ(بدائع الصنائع فصل بيان حا ل اللقيط ۶۷/۱۴) بند (۹)جس نے لقیط کو اٹھایا وہ دوسروں کے مقابلے میں پرورش کا زیادہ مستحق ہوگا اورمسلمانوں کی حکومت ہو تو اسے بیت المال سے نفقہ بھی دیا جائے گا۔ حوالہ عَنْ سُنَيْنٍ أَبِي جَمِيلَةَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ أَنَّهُ وَجَدَ مَنْبُوذًا فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ فَجِئْتُ بِهِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ مَا حَمَلَكَ عَلَى أَخْذِ هَذِهِ النَّسَمَةِ فَقَالَ وَجَدْتُهَا ضَائِعَةً فَأَخَذْتُهَا فَقَالَ لَهُ عَرِيفُهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّهُ رَجُلٌ صَالِحٌ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ أَكَذَلِكَ قَالَ نَعَمْ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ اذْهَبْ فَهُوَ حُرٌّ وَلَكَ وَلَاؤُهُ وَعَلَيْنَا نَفَقَتُهُ(موطا مالك، بَاب الْقَضَاءِ فِي الْمَنْبُوذِ۱۲۲۳) بند (۱۰)اگر اس کا نسب ثابت نہ ہوسکا تو حکومت کو اس کی ولایت حاصل ہوگی۔ حوالہ عن عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ …فَإِنَّ السُّلْطَانَ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ(مسند احمد حديث السيدة عائشة رضي الله عنها۲۵۳۶۵) بند