انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خاندانِ بویہ دیلمی کا آغاز چونکہ اب تاریخ میں خاندان بویہ کے افراد کا تذکرہ خلفائے عباسیہ کے حالات میں بار بار آنے والا ہے؛ لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ اس خاندان کی ابتدائی تاریخ بیان کردی جائے، اطروش یعنی حسن بن علی بن حسین بن علی زین العابدین کا ذکر اوپر بیان ہوچکا ہے کہ محمد بن زید علوی کے مقتول ہونے کے بعد اطروش نے دیلم میں جاکر لوگوں کواسلام کی دعوت دی اور تیرہ برس تک برابر دیلم وطبرستان میں مصروف تبلیغ اسلام رہ کراس علاقہ کے لوگوں کومسلمان بنایا۔ اس زمانے میں دیلم کا حکمران حسان نامی ایک شخص تھا، حسان نے اطروش کے بڑھتے ہوئے اثر کوروکنے کی کوشش کی؛ مگراطروش کا اثر ترقی پذیر ہی رہا، اس نے مسجدیں بنوائیں اور لوگوں کواسلام پرعامل بناکر عشر بھی وصول کرنا شروعکردیا، آخر اطروش نے ان نومسلموں کی ایک جمعیت مرتب ومسلح کرکے قزوین وسالوس وغیرہ سرحدی شہروں پرحملہ کیا اور ان سب کواسلام کی دعوت دے کراسلام میں داخل کرلیا، طبرستان کی ولایت سامانی حکمران کے علاقہ میں شامل تھی، طبرستان کے سامانی عامل نے ظلم وستم پرکمرباندھی، اطوش نے اہلِ دیلم کوترغیب دی کہ طبرستان پرحملہ کرو؛ چنانچہ سنہ۳۰۱ھ میں اطروش نے اہلِ دیلم کی ایک فوج مرتب کرکے طبرستان پرحملہ کیا اور محمد بن ابراہیم بن صعلوک حاکم طبرستان کوشکست دے کربھگادیا اور خود طبرستان پرقابض ہوگیا، اطروش کے بعد اس کا داماد حسن بن قاسم اور اس کی اولاد طبرستان، جرجان، ساریہ، آمد اور استرآباد پرقابض ومتصرف ہوئی؛ مگران سب کے فوجی سردار سپہ سالار دیلمی لوگ تھے، ان دیلمیوں میں ایک شخص لیلیٰ بن نعمان تھا، جس کوحسن بن قاسم نے جرجان کی حکومت سپرد کی تھی، یہ لیلیٰ بن نعمان سنہ۳۰۹ھ میں سامانیوں سے لڑتا ہوا مارا گیا، اس کے بعد سامانیوں نے بنی اطروش پرمتعدد حملے کیے، ان حملوں کی مدافعت بنی اطروش کی طرف سے سرخاب نامی ایک دیلمی سپہ سالار نے کی اور اسی میں وہ مارا گیا، سرخاب کا چچاماکان بن کانی دیلمی بنی اطروش کی طرف سے استرآباد کی حکومت پرمامور تھا۔ ماکان نے اپنے ہم وطن دیلمیوں کواپنے گرد جمع کرکے ایک فوج مرتب کی اور جرجان پرقبضہ کرلیا، ان دیلمیوں میں جوماکان کے معاون ہوئے تھے، ایک نامور سردار اسفار بن شیرویہ دیلمی تھا، ماکان نے اپنی خود مختار حکومت قائم کرکے طبرستان کے اکثر حصہ پرقبضہ کرلیا اور اسفار بن شیرویہ کوکسی بات پرنارض ہوکر نکال دیا، اسفار ماکان سے جدا ہوکر بکر بن محمد بن الیسع کے پاس نیشاپور کے چلاگیا، جوسامانیوں کی طرف سے نیشاپور کا عامل تھا، بکر بن محمد نے اسفار کوایک فوج دے کرجرجان کے فتح کرنے کوروانہ کیا، اِن دنوں ماکان طبرستان میں تھا اور اس کا بھائی ابوالحسن بن کانی اپنے بھائی کی طرف سے جرجان میں مامور تھا۔ یہاں ابوعلی بن اطروش بھی مقیم تھا اور اس کے قبضہ میں کوئی حکومت باقی نہ رہی تھی، ابوعلی نے موقع پاکر ایک دن ابوالحسن کانی کوقتل کردیا اور دیلمیوں کی اس فوج نے جوجرجان میں مقیم تھی، ابوعلی کے ہاتھ پربیعت کرلی، ابوعلی نے اپنی طرف سے علی بن خورشید دیلمی کوجرجان کی حکومت پرمامور کیا، یہ وہ زمانہ تھا کہ اسفار سامانیوں کی طرف سے فوج لیے ہوئے جرجان کے قری پہنچ چکا تھا، علی بن خورشید نے اسفار کولکھا کہ تم بجائے اس کے کہ ہم پرحملہ کرو، ہمارے ساتھ مل کرکے ماکان پرجوطبرستان میں ہے، حملہ کیوں نہیں کرتے؟ اسفار نے بکر بن محمد سے اجازت حاصل کرکے اس بات کومنظور کرلیا، یہ خبر سن کرماکان بن کانی طبرستان سے فوج لے کرجرجان کی طرف چلا، علی بن خورشید اور اسفار بن شیرویہ نے مل کراس کا مقابلہ کیا اور ماکان کوشکست دے کربھگادیا اور طبرستان میں قابض ہوگئے، چند روز کے بعد لعی بن خورشید اور ابوعلی بن اطروش دونوں فوت ہوگئے اور طبرستان پراخار بن شیرویہ بلامزاحمت حکومت کرنے لگا، ماکان نے اس موقع کومناسب سمجھ کراسفار پرحملہ کیا اور طبرستان پرقابض ہوگیا، اسفار، بکر بن محمد بن الیسع کے پاس جرجان چلا گیا۔ سنہ۳۱۵ھ میں بکر بن محمد بن الیسع فوت ہوا توسامانی بادشاہ نے اس کی وفات کے بعد اپنی طرف سے اسفار بن شیرویہ کوجرجان کی حکومت پر معین کردیا، اسفار بن شیرویہ کے سرداروں میں ایک شخص مرداویح نامی تھا، اس کواسفار نے فوج دے کرجرجان سے طبرستان پرحملہ کرنے کے لیے روانہ کیا، ماکان بن کانی اپنا لشکر آراستہ کرکے مقابلہ پرآیا، ماکان کوشکست ہوئی اور مرداویح نے طبرستان پرقبضہ کرلیا، ماکان بھاگ کرحسن بن قاسم داماد اطروش کے پاس مقام رَے میں پہنچا، وہاں سے حسن بن قاسم مارا گیا اور ماکان بھاگ کررَے چلا گیا ۔ اسفار نے طبرستان وجرجان پرقابض ومتصرف ہوکر نصر بن احمد بن سامان والی خراسان وماوراء النہر کے نام کا خطبہ جاری کیا، اس کے بعد رَے کی طرف بڑھا اور رَے کوبھی ماکان کے قبضہ سے نکال لیا، ماکان آوارہ ہوکر جبالِ طبرستان کی طرف چلا گیا، اب اسفار بن شیرویہ کا قبضہ صوبہ رَے، قزوین، زنجان، ابہرقم اور کرخ پرہوگیا اور بڑی کامیابی کے ساتھ ایک وسیع ملک پرحکومت کرنے لگا، اب اسفار کے دل میں خود مختاری کا خیال آیا، اس نے سامانی سلطان سے بغاوت کی کہ اسفار سے اس ملک کوچھین لے مگرہارون کواسفار کے مقابلہ میں شکست ہوئی، اس کے بعد نصر بن احمد بن سامان نے اسفار کی سرکوبی کے لیے بخارا سے خود مع فوج حرکت کی، اسفار نے اپنے قصور کی معافی چاہی اور خراج گزاری کا وعدہ کیا، نصر نے اس کی درحواست منظور کرکے صوبہ رَے کی حکومت اس کے پاس رکھی اور خود بخارا کولوٹ لیا، اسفار کے سردارں میں مرداویح نے سرداروں کواپنے ساتھ شامل کرکے علم بغاوت بلند کیا، اسفار کوپکڑ کرقتل کردیا اور ہمدان واصفہان وغیرہ کوبھی فتح کرکے ایک وسیع ملک پرحکومت کرنے لگا اور ماکان بن کانی کوبلاکرطبرستان وجرجان کی حکومت پرمامور کیا؛ پھرماکان کواس حکومت سے معزول کردیا، ماکان دیلم چلاگیا اور وہاں سے جمعیت فراہم کرکے طبرستان پرحملہ کیا؛ مگرمرداویح کے عامل سے شکست کھاکر نیشاپور کی طرف بھاگ گیا۔ سنہ۳۱۹ھ میں مرداویح نے مناسب سمجھا کہ اپنے تمام مفتوحہ ومقبوضہ ملک کی سند عباسی خلیفہ سے حاصل کرلینی چاہیے؛ چنانچہ اس نے دربارِ خلافت میں درخواست بھیجی کہ مجھ کوان بلاد کی سندِ حکومت عطا فرمائی جائے، میں دولاکھ دینار سالانہ خراج دربارِ خلافت میں بھیجتا رہوں گا، خلیفہ نے یہ درخواست منظور کرکے سند بھیج دی اور اپنی طرف سے جاگیر بھی عطا فرمائی، سنہ۳۲۰ھ میں مرداویح نے گیلان سے اپنے بھائی وثمگیر کوبھی بلوابھیجا، مرداویح کی حکومت وسلطنت میں ابوشجاع بویہ نامی کے تین بیٹوں نے بہ سلسلہ ملازمت سرداریاں حاصل کیں اور انہیں کی وجہ سے یہ تمام داستان سنانی پڑی، ابوشجاع بویہ دیلمی ایک نہایت مفلس ماہی گیر تھا، مچھلیاں پکڑ کراپنی اور اپنے عیال کی روزی بڑی محنت اور مشکل سے حاصل کرتا تھا، ایک روز اس نے خواب میں دیکھا کہ میں پیشاب کرنے بیٹھا ہوں اور میری پیشاب گاہ سے آگ کا ایک شعلہ نکلا، جس نے پھیل کردنیا کوروشن کردیا، اس خواب کی اس نے یہ تعبیر کی کہ میری اولاد بادشاہ ہوگی اور جہاں تک اس شعلہ کی روشنی گئی ہے، وہاں تک اس کی حکومت ہوگئی، اس کے بعد بویہ ماہی گیر کے تین بیٹے ہوئے، جن کے نام علی، حسن اور احمد تھے؛ چونکہ بعد میں ان تینوں بھائیوں نے بڑی ترقی کی اور عمادالدولہ، رکن الدولہ، معزالدولہ کے نام سے صاحب حکومت وعزت ہوئے؛ لہٰذا کسی نے ان کا نسب یزدجردشاہ ایران سے ملایا اور کسی نے ان کوبہرام گور کی اولاد میں بتایا، دولت وحکومت کے ساتھ ہی عالمی نسبی کی بھی کوشش عام طور پرلوگ کیا کرتے تھے اور خوشامدی لوگ اس کام کی سرانجام دہی میں سب سے زیادہ مفید ثابت ہوا کرتے تھے۔ ہمارا شہرنجیب آباد پٹھانوں کا آباد کیا ہوا شہر ہے؛ یہاں پٹھان ایک معزز قوم سمجھی جاتی ہے، جن کوہرقسم کی دولت وحکومت وعزت حاصل تھی، غدر سنہ۵۷ھ کے بعد جب پٹھانوں پرتباہی آئی توبہت سے رام پور، بریلی، شاہجہان پور کی طرف جاکر آباد ہوگئے، بہت سوں کی نسلیں منقطع ہوکر نام ونشان گم ہوگیا، بہت ہی تھوڑے باقی رہ گئے، جن پرافلاس نے طاری ہوکر ایسے ستم ڈھائے کہ وہ اب کسی قطار شمار میں نہیں آتے، ان کے غلاموں اور نوکروں کوچونکہ: إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ وَتِلْكَ الأيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاء وَاللَّهُ لاَ يُحِبُّ الظَّالِمِينَ۔ (آل عمران:۱۴۰) ترجمہ: اگرتمھیں ایک زخم لگا ہے توان لوگوں کوبھی اسی جیسا زخم پہلے لگ چکا ہے، یہ توآتے جاتے دن ہیں؛ جنھیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں اور مقصد یہ تھا کہ اللہ ایمان والوں کوجانچ لے اور تم میں سے کچھ لوگوں کوشہید قرار دے اور اللہ ظالموں کوپسند نہیں کرتا۔ (توضیح القرآن:۱/۲۲۳، مفتی محمدتقی عثمانی، فرید بکڈپو، دہلی) کے قانون کے موافق اب خوب دولت وثروت حاصل ہے؛ لہٰذا بہت سے غلام اپنے آپ کوپٹھان بتاتے ہیں، بہت سے جوگی بچوں نے اپنا سلسلہ نسب نواب نجیب الدولہ سے ملادیا ہے، بہت سے تیلیوں، سقوں، حجاموں، جلاہوں، مراسیوں، دھوبیوں، باغبانوں اور ماہی گیروں نے علی الاعلان اپنے آپ کوپٹھان اور خان کہلانا شروع کردیا ہے اور مال ودولت کی فراوانی نے ان کواپنے اصلی نسب پرقانع نہیں رہنے دیا؛ چنانچہ کسی نجیب الطرفین پٹھان کی اب یہ مجال نہیں کہ ان کوان کا اصلی شجرہ نسب سنائے اور آج کل کی نئی پود کوسمجھائے کہ نجیب آباد میں کون اصلی پٹھان ہے اور کون نقلی؛ جب کہ ہم اپنی آنکھوں سے لوگوں کواپنے نسب تبدیل کرتے اور دوسرے نسبوں میں شامل ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں تویہ بویہ ماہی گیر کے بیٹوں کا دولت وحکومت کے مقام رفیع تک پہنچ کراپنا سلسلہ نسب شاہان ایران سے ملادینا ہم کوحیرت میں نہیں ڈال سکتا، ماکان بن کانی نے جب اہلِ دیلم کواپنی فوج میں بھرتی کیا توبویہ کے تینوں بیٹے بھی اس کی فوج میں بھرتی ہوگئے، جب ماکان کوناکامی ہوئی اور اس کا کام بگڑ گیا تواس کے بہت سے آدمی جدا ہوہو کرمرداویح کے پاس چلے آئے، مرداویح نے ان لوگوں کی خوب قدردانی کی اور ہرایک کواس کے مرتبہ سے زیادہ مناصب عطا کیے، انہیں لوگوں میں بویہ کے تینوں بیٹے بھی شامل تھے؛ انہوں نے اپنی خدمت گزاری، مستعدی اور ہوشیاری سے مرداویح کی خدمت میں رُسوخ حاصل کرلیا اور مرداویح نے علی بن بویہ کوکرخ کی حکومت پرمامور کرکے روانہ کیا، علی بن بویہ کے ہمراہ اس کے دونوں چھوٹے بھائی حسن اور احمد بھی روانہ ہوئے، ان دنوں مرداویح کی جانب سے رَے میں اس کا بھائی وثمگیر حکومت کررہا تھا۔ وثمگیر نے حسین بن محمد بن عرف عمید کواپنا وزیربنارکھا تھا، علی بن بویہ جب رَے میں پہنچا تواس نے عمید سے ملاقات کی اور ایک خچر بطورِ نذر پیش کیا، اس کے بعد کرخ کی طرف روانہ ہوا اور وہاں جاکر حکومت کرنے لگا، مرداویح کوجب علی بن لویہ کے اس طرح عمید سے ملنے اور نذر پیش کرنے کا حال معلوم ہوا تواس کوشبہ گزرا کہ کہیں ماکان کے پاس سے آئے ہوئے سردار جن کواچھے اچھے عہدے اور شہروں کی حکومت سپرد کردی گئی ہے، آپس میں کوئی سازش کرکے باعث تکلیف نہ ہوں؛ چنانچہ اس نے اپنے بھائی وثمگیر کولکھا کہ ماکان کے پاس سے آئے ہوئے جن لوگوں کواس طرف شہروں پرمامور کیا گیا ہے، سب کوگرفتار کرلو؛ چنانچہ بعض توگرفتار کرلیے گئے؛ مگرعلی بن بویہ کوجوکرخ پرقابض ہوچکا تھا، فساد برپا ہونے کے اندیشہ سے گرفتار کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، علی بن بویہ نے کرخ کے نواح پرکئی قلعوں کومفتوح کیا، ان میں سے جومال ہاتھ آیا، وہ لشکریوں کوتقسیم کردیا، اس سے سپاہیوں کواس سےمحبت ہوگئی اور اس کا رُعب وداب ترقی کرنے لگا، سنہ۳۲۱ھ میں مرداویح نے ان سرداروں کوجورَے میں نظر بند تھے، رہا کردیا، وہ سب کرخ میں علی بن بویہ کے پاس چلے گئے، اس نے ان کی بہت خاطر مدارات کی، انہیں ایام میں ایک دیلمی سردار شیرزاد نامی مع ایک جمعیت کے علی بن بویہ کے پاس آیا اور اس کواصفہان پرحملہ کرنے کی ترغیب دی، مرداویح کوجب معلوم ہوا کہ تمام دیلمیوں کا اجتماع علی بن بویہ کے پاس ہوگیا ہے توا سنے لکھا کہ ان تمام سرداروں کوجورہا ہوکر گئے ہیں، ہمارے پاس واپس بھیج دو۔ علی بن بویہ نے اس کے حکم کی تعمیل سے انکار کیا اور شیرزاد کی ہمراہی میں اصفہان پرحملہ کرنے کی تیاری کرنے لگا، اصفہان میں ان دنوں مظفر بن یاقوت اور ابوعلی بن رستم حکومت کررہے تھے، یہ دونوں خلیفہ سے ناراض اور بغاوت کا اعلان کرچکے تھے، علی بن بویہ نے اصفہان پرچڑھائی کرکے مظفر بن یاقوت کوبھگادیا، ابوعلی بن رستم فوت ہوگیا اور اصفہان پرعلی بن بویہ نے قبضہ کرلیا، یہ خبر سن کرمرداویح کوبڑی فکر پیدا ہوئی؛ کیونکہ اب علی بن بویہ کی طاقت بہت ترقی کرچکی تھی، اس نے اپنے بھائی وثمگیر کوفوج دے کراصفہان کی طرف علی بن بویہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا، علی بن بویہ ے مطلع ہوکر اصفہان کوتوچھوڑ دیا اور جرجان پرقابض ہوگیا، یہ واقعہ ماہ ذی الحجہ سنہ۳۲۱ھ کووقوع پذیر ہوا، وثمگیر نے اصفہان پرقبضہ کرلیا؛ مگرپھرمظفربن یاقوت کواصفہان کی حکومت سپرد کردی، علی بن بویہ نے اپنے بھائی حسن کوگازرون کی طرف خراج وصول کرنے کے لیے بھیجا، وہاں راستے میں مظفر بن یاقوت کی ایک فوج سے مقابلہ ہوا، حسن نے اس کوشکست دی اور روپیہ وصول کرکے بھائی کے پاس لایا۔ علی بن بویہ اصطخر کی طرف روانہ ہوا، ابن یاقوت نے ایک زبردست فوج سے تعاقب کرکے علی بن بویہ کومقابلہ کے لیے للکارا، لڑائی ہوئی، علی بن بویہ کے بھائی احمد نے اس لڑائی میں بڑی بہادری دکھائی، مظفر بن یاقوت شکست کھاکر فرار ہوا اور واسط جاکر دم لیا، علی بن بویہ نے شیراز آکر اس پرقبضہ کیا اور اس طرح تمام صوبہ فارس اس کے قبضہ وتصرف میں آگیا؛ یہاں لشکریوں نے جن کی تعداد بھی زیادہ ہوگئی تھی، تنخواہوں کا مطالبہ کیا، علی بن بویہ کے پاس اتنا روپیہ نہ تھا کہ بے باق کرے؛ اسی فکر میں ایک مکان کے اندر چھت پرلیٹ گیا، چھت میں سے ایک سانپ گرا، ابن بویہ نے حکم دیا کہ اس مکان کی چھت گرادی جائے، چھت کوتوڑنے لگے تواس میں سونے کے بھرے ہوئے صندوق برآمد ہوئے، یہ تمام اس نے لشکر میں تقسیم کردیا، اس طرح اس فکر سے نجات ملی، اس کے بعد اس نے کوئی کپڑا سینے کے لیے ایک درزی بلوایا، سپاہی درزی کوبلاکر لائے تودرزی یہ سمجھا کہ اب مجھ کوگرفتار کیا جائے گا اس نے ڈر کے مارے چھوٹتے ہی یہ کہا کہ میرے پاس صندوقوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور میں نے ابھی تک اُن کوکھول کربھی نہیں دیکھا کہ ان میں کیا ہے؟ چنانچہ اس سے وہ صندوق منگوائے گئے، توان میں سے اشرفیاں برآمد ہوئیں، علی بن بویہ نے اس پربھی قبضہ کیا، یہ تمام مال مظفر بن یاقوت کا جمع کیا ہوا تھا، جووہ اپنے ساتھ نہیں لے جاسکا تھا، اتفاق کی بات کہ انہیں ایام میں اس کودولت صفاریہ کا جمع کیا ہوا خزانہ بھی مل گیا، جس کی تعداد پانچ لاکھ دینار تھی، اسی اثناء میں علی بن بویہ ایک روز چلاجارہا تھا کہ اس کے گھوڑے کے پاؤژ زمین میں دھنس گئے، کھدواکر دیکھا توایک بڑا خزانہ برآمد ہوا، اس طرح علی بن بویہ کے پاس بڑا خزانہ جمع ہوگیا اور اس نے صوبہ فارس پرکامیابی کے ساتھ حکومت شروع کرکے اپنی طاقت کودم بہ دم ترقی دینی شروع کی اور مرداویح کا مدمقابل بن کراس کے لیے خوف وخطرات کا باعث ہوگیا۔