انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مختلف واقعات سے متعلق واقعات عہد نبوی ابوداؤد اور بیہقی نے عاصم بن کلیب سے روایت کی ہے کہ نبی کریمﷺ ایک شخص کے جنازے میں تشریف لے گئےمیت کو دفن کرنے کے بعد اس میت کی عورت نے آنحضورﷺ کی دعوت کی، آپ اس کے گھر تشریف لے گئے ،کھانا جب آیا اور آپ نے پہلا لقمہ جب چبایاتو نگلنے سے پہلے ہی آپﷺ نے فرمایا کہ یہ جس بکری کا گوشت ہے وہ مالک کی اجازت کے بغیر لی گئی ہے؛چنانچہ اس عورت نے تفصیل بیان کی کہ میں نے مقام نفیع میں جہاں بکریوں کی خرید وفروخت ہوتی ہے ایک آدمی کو خریدنے کے لیے بھیجا تھا لیکن وہاں کوئی بکری نہ ملی تو اپنے ایک پڑوسی کے یہاں بھیجا، اس نے حال ہی میں ایک بکری خریدی تھی ، پڑوسی گھر میں موجود نہیں تھا میں نے اس کی بیوی کے پاس بھیجا تو اس نے اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں وہ بکری میرے پاس بھیج دی، اس پر آنحضورﷺ نے فرمایا یہ گوشت قیدیوں کو کھلادو؛ کیونکہ قیدی مسلمان نہیں تھے اور مسلمانوں کے لیے یہ کھانا درست نہیں ہے، اس سے ثابت ہوا کہ جو خفیہ چیز آنحضرتﷺ نے محسوس کی وہ سچ ثابت ہوئی۔ معجم کبیر اور بزار میں حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں ایک دن نبی کریمﷺ کے پاس مسجد میں بیٹھا ہوا تھا؛ چنانچہ ایک انصاری اور قبیلۂ ثقیف کا ایک شخص وہاں آیا، دونوں نے سلام کےبعد عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم آپﷺ سےکچھ پوچھنے آئے ہیں، آنحضورﷺ نے فرمایا کہ تم جو کچھ پوچھنا چاہتے ہوکہوتو میں ابھی بتادوں ، انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ارشاد فرمایے، ہم کیا پوچھنا چاہتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا تم پوچھنے آئے ہو کعبہ کی زیارت کرنے کا ثواب اور طواف کے بعد کی دو رکعتوں کا اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کرنے اور دوڑ نے کا ثواب کیا ہے ؟ان دونوں نے عرض کیا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو سچا نبی بناکر بھیجا ہے یم یہی سب باتیں پوچھنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں، مخفی ارادوں کو آپ نے جان لیا اور سچ سچ بیان فرمادیا یہ آپ کا اعجاز ہے۔ ابن عساکر میں واثلہ بن اثقع سے روایت ہے کہ میں نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ےہوا آپ ﷺ صحابہ ؓکے مجمع میں بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے، میں حلقہ کے بیچ میں جاکر بیٹھ گیا ،بعض صحابہ نے کہا کہ حلقہ کے بیچ میں بیٹھنے کی ممانعت ہے، اس لیے یہاں سے اٹھ جاؤ ،نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اسے یہیں بیٹھا رہنے دو مجھے معلوم ہے کہ وہ کس مقصد سے یہاں آیا ہے، واثلہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ بتایے میں کس مقصد لیے آیا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم براو رشک کے بارے میں پوچھنے آئے ہو ،میں نے کہا قسم اس ذات کی جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے میں بر اور شک ہی کی حقیقیت پوچھنے آیا ہوں، پھر آنحضورﷺ نے فرمایا کہ بر وہ ہے جو دل میں ٹھہرے اور جس پر مومن کے دل کو اطمینان ہو اور دل اس پر جم جائے اور شک یہ ہے کہ اس پر اطمینان نہ ہو، تجھے چاہیے کے شبہ اور شک والی چیز کو چھوڑ کر غیر شبہ والی چیز کو اخیتار کرلے ،چاہے فتوی دینے والے تجھے اس کے خلاف فتوی دے دیں، واثلہ کی غرض یہ تھی کہ بہت سے امور ایسے ہی ہیں جن کا صریحی حکم نہیں ہے یہ بھلے ہیں یا برے تو نبی کریمﷺ نےایسے امور میں مومن صالح کے دلی اطمینان کو معیار قرار دیا، صحابی کے دل کی بات یہاں آنحضورﷺ نے کھول دی۔ مسلم میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ ایک سفر سے واپس ہورہے تھے جب آپﷺ مدینہ کے قریب پہنچے تو اتنی تیز آندھی چلی کہ سوار گرنے کے قریب ہوگئے ،اس وقت آپﷺ نے فرمایا کے یہ ہوا ایک منافق کی موت کے لیے چلی ہے ،جب مدینہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ رفاعہ بن زید منافق مرگیا ہے، آپﷺ کی یہ پیشن گوئی بھی سچی ثابت ہوئی۔ بیہقی نے حضرت عروہؓ سے رویت کی ہے کہ ایک دفع نبی کریم ﷺ کی اونٹنی گم ہوگئی آپﷺ نے بہت تلاش کرائی مگر نہ ملی، اس پر ایک منافق نے جس کا نام زید بن نصیب تھا طعنہ مارا کہ محمدﷺ غیب کی خبریں بتانے کا دعوی کرتے ہیں اور اپنی اونٹنی کو جانتے ہی نہیں کہ کہاں ہے ،ان کے پاس جو وحی لاتا ہے وہ ان کو اونٹنی کا حال کیوں نہیں بتادیتا، حضرت جبرئیل ؑ آئے او راس منافق کے طعن کی آپﷺ کو خبر دی اور اونٹنی جہاں تھی اس سے آپﷺ کو مطلع کردیا آنحضرتﷺ نے فرمایا میں غیب جاننے کا دعوی نہیں کرتا ،لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ منافق کے طعن کی خبر اور اونٹنی کا پتہ میرے اللہ نے مجھ کو بتادیا کہ میری اونٹنی فلاں گھاٹی میں ہے اس کی لگام ایک درخت سے الجھ گئی ہے ،یہ سن کر صحابہ کرام اس گھاٹی کی طرف دوڑے اور جاکر دیکھا تو اونٹنی بالکل اسی حال میں ہے ،جیسا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا، اس بارے میں اخبار بالغیب اور آپﷺ کا اعجاز ظاہر ہے۔ صحیحین میں حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے مجھے اور زبیر اور مقداد کو حکم دیا کہ تم لوگ مقام خاخ تک جاؤ (یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے) وہاں تم کو ایک عورت ملے گی اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے چھین لاؤ ،ہم تینوں گھوڑے پر سوار ہوکر وہاں جا پہنچے، عورت وہاں مل گئی ،ہم نے اس سے کہا کہ خط حاضر کردے اس نہ کہا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے ،ہم نے کہا کہ اگر تو خط نہیں نکالے گی تو ہم تجھے ننگا کردیں گے اور تلاشی لیں گے، یہ سن کر اس نے سر کے جوڑے سے ایک خط نکالا ہم وہ خط آنحضورﷺ کی خدمت میں لائے ، یہ خط حضرت حاطب بن بلتعہ نے مشرکین مکہ کے پاس لکھ کر بھیجا تھا ، آنحضورﷺ نے مشرکین مکہ سے لڑائی کا ارادہ کیا تھا اور یہ بات راز میں رکھی تھی، لیکن حاطب نے اس راز کو کھولنا چاہا تھا آنحضورﷺ نے حاطب سے اس کی وجہ پوچھی تو عرض کیا کہ میرے آل واولاد مکہ میں ہے، میرا کوئی دوسرا رشتہ دار وہاں نہیں ہے کہ میرے بچوں کی مدد کرے ،اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ قریش پر ایک احسان کردوں ؛ تاکہ وہ میرے بال بچوں کو نہ ستائیں ، یہ حال سن کر حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ اجازت ہو تو میں اس منافق کی گردن ماردوں ، آنحضورﷺ نے فرمایا نہیں بدری صحابیوں پر خدا کی خاص مہربانی ہوئی ہے (حاطب بھی بدری تھی)بدریوں کی خطائیں خدا نے معاف فرمائی ہیں۔ مکہ پر چڑھائی کرنے کا جو ارادہ آنحضورﷺ نے کیا تھا اس کو حاطب نے قریش پر ظاہر کرنا چاہا؛ چنانچہ جس مضمون کا خط لکھ کر بھیجا کہ محمد تم پر ایک بڑا لشکر لے کر چڑھائی کرنے والے ہیں، اگر محمد صرف تنہا بھی تم پر چڑھائی کریں تو قسم ہے خدا کی اللہ ان کی مدد کرے گا اور تم پرغالب آئیں گے ،تمہیں اپنے بچاؤ کی فکر کرنی چاہیے ،یہ خط نہایت مخفی طو رپر ایک بڑھیا کے ہاتھ قریش تک پہنچانا چاہا تھا مگر اللہ نے اس کی خبر رسول اللہﷺ کو دےدی اور عورت پکڑلی گئی، اس میں رسالت کی شان اور بدری صحابیوں کی فضیلت بھی ظاہر ہوتی ہے،حاطب کی بزرگی اور جلالت قدر کی وجہ سے حاطب کو محض تنبیہ کرکے معاف کردیاگیا ،حضرت حاطبؓ نے صاف کہہ دیا کہ ان سے یہ قصور بال بچوں کی محبت میں ہوا ہے، کفر کی محبت ہر گز نہ تھی۔