انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت طفیل بن عمروؓ بیہقی اور ابن جریر نے روایت کی ہے کہ طفیل بن عمرو نے نبی کریمﷺ سے عرض کیا مجھے کوئی کرامت یا نشانی عطا فرمایے جس کو دیکھ کر میری قوم میری صداقت کی قائل ہوجائے؛ چنانچہ آنحضورﷺ نے دعا فرمائی کے اے خدا طفیل کو ایک نور عطا فرما جو برابر اس کے ساتھ رہے اس دعا کے اثر سے طفیل کی پیشانی پر بالکل سامنے ایک نور ظاہر ہوگیا طفیل نہ کہا کہ یا اللہ میری قوم طعنے دےگی کہ اس کہ چہرے پر سفید داغ ہے چنانچہ وہ نور طفیل کے کوڑے کے ایک کنارے پر ظاہر ہوگیا اور یہ نور ایسا تھا کہ رات کو چراغ کی طرح روشن رہتا اسی وجہ سے حضرت طفیل کو ذوالنور کہا جاتا تھا۔ قصہ یوں بیان کیاگیا ہے کہ :جس زمانہ میں آنحضرتﷺ مکہ میں دعوت اسلام فرمارہے تھے،اس زمانہ میں طفیل کا مکہ آنا ہوا، قریش کے وہ اشخاص جو لوگوں کو آنحضرت ﷺ کے پاس آنے سے روکتے تھے،ان کے پاس بھی پہنچے اورکہا تم ہمارے شہر میں مہمان آئے ہو،اس لیے ازراہ خیر خواہی تم کو آگاہ کیے دیتے ہیں کہ اس شخص آنحضرتﷺ نےہماری جماعت میں پھوٹ ڈال کر ہمارا شیرازہ بکھیردیا ہے اورہم لوگوں کو بہت تنگ کر رکھا ہے نہیں معلوم اس کی زبان میں کیا سحر ہے جس کے زور سے بیٹے کو باپ سے بھائی کو بھائی سے بیوی کو شوہر سے چھڑادیتا ہے، ہم کو خوف ہے کہ کہیں تم اور تمہاری قوم بھی ہم لوگوں کی طرح اس کے دام میں نہ آجائے، اس لیے ہمارا دوستانہ مشورہ ہے کہ تم اس سے نہ ملو اور نہ اس کی بات سنو،غرض ان لوگوں نے طفیل کو سب نشیب و فراز سمجھا کر آنحضرت ﷺ کی ملاقات سے روک دیا،طفیل نے اس خیال سے کہ مباداآنحضرتﷺ کے آواز کانوں میں نہ پڑجائے،دونوں کانوں میں روئی ٹھونس لی۔ اتفاق سے اسی حالت میں ایک دن مسجد کی طرف سے گذرے،اس وقت آنحضرتﷺ خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے، اسلام کا شرف ان کی قسمت میں مقدر ہوچکا تھا، اس لیے تمام احتیاطیں بے کار ثابت ہوئیں اور کچھ آیتیں ان کے کان تک پہنچ گئیں یہ کھڑے ہوکر سننے لگے، تو اس میں بڑی دلآویزی معلوم ہوئی،دل ہی دل میں کہنے لگے کہ میں بھی کیا وہمی ہوں، میں خود اچھا شاعر ہوں،کلام کے محاسن و مصائب کو سمجھ سکتا ہوں پھر اس شخص کا کلام کیوں نہ سنوں ،اگر اس میں کوئی خوبی ہے تو اس کے اعتراف میں بخل نہ کرنا چاہیے اور اگر ناقابل توجہ ہے تو التفات کی ضرورت نہیں، غرض اس طرح دل کو تسلی دے کر پورے غور سے آیات قرآنی سنیں، یہ کیا معلوم تھا کہ کلام کے حسن و قبح کا فیصلہ ان کی قسمت کا فیصلہ کردیگا جب تک آنحضرتﷺ نماز پڑہتے رہے،طفیل گوش ہوش سے سنتے رہے،ادھر آپ نے نماز ختم کی،ادھر طفیل کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا اور وہ بے اختیارانہ آپ کے پیچھے پیچھے چلے، کاشانۂ اقدس پر پہنچ کر قریش کی پوری گفتگو سناکر عرض کیا: اس خوف سے میں نے کانوں میں روئی رکھ لی تھی کہ آپ کا معجزانہ کلام نہ سن سکوں؛ لیکن اللہ کو سنانا منظور تھا،اس لیے یہ احتیاط بے کار ثابت ہوئی، اب آپ اپنی تعلیمات سنائیے،آنحضرتﷺ نے اسلام کی تعلیمات بتا کر قرآن کی کچھ آیات تلاوت فرمائیں، طفیل سن کر متحیر ہوگئے اور بے اختیار زبان سے نکل گیا، اللہ کی قسم آج تک اس سے بہتر کلام نہ میرے کانوں نے سنا اورنہ اس سے زیادہ عادلانہ کوئی مذہب دیکھا، میں بطیب خاطر اس مذہب حق کو قبول کرتا ہوں۔ (ابن سعد،جز۴،ق۱:۱۷۵) اسلام لانے کے بعد عرض کیا، یا رسول اللہ!میں اپنی قوم کا سربرآوردہ شخص ہوں،اس لیے چاہتا ہوں کہ وہاں جاکر اہل وطن کو بھی دعوتِ اسلام دوں،مجھے کوئی کرامت یا نشانی عطا فرمایے جس کو دیکھ کر میری قوم میری صداقت کی قائل ہوجائے چنانچہ آنحضورﷺ نے دعا فرمائی کے اے خدا طفیل کو ایک نور عطا فرما جو برابر اس کے ساتھ رہے اس دعا کے اثر سے طفیل کی پیشانی پر بالکل سامنے ایک نور ظاہر ہوگیا طفیل نہ کہا کہ یا اللہ میری قوم طعنہ دےگی کہ اس کہ چہرے پر سفید داغ ہے ؛چنانچہ وہ نور طفیل کے کوڑے کے ایک کنارے پر ظاہر ہوگیا۔ (معرفۃ الصحابہ لابی نعیم) گھر پہنچے تو والد ملنے آئے،کہا قبلہ! آپ مجھ سے الگ رہیے، اب آپ کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، انہوں نے کہا کیوں؟ کہا میں نے دین اسلام قبول کرکے محمدﷺ کا طوق غلامی گردن میں ڈال چکا ہوں، اس لیے آپ سے کوئی واسطہ باقی نہیں رہا، باپ کی قسمت میں بھی یہ سعادت لکھی تھی، بولے بیٹا!جودین تمہارا وہی دین میرا،چنانچہ اسی وقت نہلادھلا کر ان کو اسلام کے دائرہ میں داخل کیا، بیوی کو آمد کی خبر ہوئی تو وہ بھی آئیں، ان کو بھی وہی جواب دیا، جو پہلے والد کو دے چکے تھے، بیوی نے کہا میں تمہارے مذہب کے خلاف کیسے رہ سکتی ہوں، مجھے بھی اس نعمت میں شریک کرو، چنانچہ ان کو بھی مشرف باسلام کیا، گھر روشن کرنے کے بعد قبیلہ کی طرف متوجہ ہوئے؛لیکن اس میں آواز بے اثر رہی تو مکہ واپس آئے اورآنحضرتﷺ سے عرض کیا کہ میری قوم میرا کہنا نہیں مانتی،آپ ان کےلیےبدعا فرمائیے،آپ نے دعا فرمائی کہ :اےاللہ! دوس کو ہدایت دے اور اس پر ابررحمت کا نزول فرما، دعا کے بعد ہدایت فرمائی کہ نرمی اور آشتی کے ساتھ جاکر اسلام کی طرف مائل کرو؛چنانچہ وہ حسب ارشاد نبویﷺ دوبارہ گھر لوٹ کر تبلیغ وہدایت میں مشغول ہوگئے اورآنحضرتﷺ کی دعا کی برکت سے کچھ دنوں کے بعد دوس کی معتدبہ تعداد اسلام کے حلقۂ اثر میں آگئی۔ (ابن سعد،جز۴،ق۱:۱۷۵)