انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** لوازم تمدن تجارت قریش کا پیشہ تجارت تھا، زراعت کو وہ عار سمجھتے تھے، حتی کہ ابوجہل مرتے وقت بھی زراعت پیشہ لوگوں کے ہاتھ سے قتل کے عار کو نہ برداشت کرسکا (بخاری :۲/۵۶۵) قریش کی تجارت کا سلسلہ بہت وسیع تھا ان کے تجارتی قافلے ملکوں ملکوں پھر کر بیوپار کرتے تھے، عموماً ان کے کاروانِ تجارت سال میں دو مرتبہ جاتے تھے،سورہ ٔقریش میں اسی کی طرف اشارہ ہے: لِاِیْلٰفِ قُرَیْـــشٍoاٖلٰفِہِمْ رِحْلَۃَ الشِّـتَاۗءِ وَالصَّیْفِoفَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِoالَّذِیْٓ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍoۥۙ وَّاٰمَنَہُمْ مِّنْ خَوْفٍ۔ (قریش) تعجب ہے کہ قریش کواپنے جاڑے اورگرمی کے سفر(تجارت) سے کس قدر الفت ہے ان کو چاہیے کہ اس گھر کے رب کو پوجیں جس نے ان کو بھوک سے بچانے کے لیے کھانا کھلایا اورخوف سے امن بخشا قریش کی تجارت کو قصی نے بہت بااصول اورمنتظم کردیا تھا، نجاشی شاہ حبش اورقیصر روم سے اجازت نامے حاصل کیے تاکہ قریش آسانی اورامن سے ان کے حدودِ حکومت میں اپنا تجارتی کاروبار پھیلا سکیں، اس زمانہ میں اگرچہ راستے پر امن نہ تھے، رہزنی اورلوٹ مار عام تھی تاہم قریش کے کاروانِ تجارت سے کوئی تعرض نہیں کرتا تھا اوروہ بے خوف وخطر گھوم پھر کر اپنا بیوپار کرتے تھے،اس کی وجہ یہ تھی کہ قریش حرم کے متولی ہونے کی وجہ سے"جیراللہ" اللہ کے پڑوسی کہلاتے تھے اورخانہ کعبہ کی عظمت تمام عرب کرتے تھے،اس نسبت سے وہ لوگ قریش کا بھی بہت احترام کرتے تھے اوران سے کسی قسم کا تعرض نہیں کرتے تھے، قریش میں اس درجہ تجارت کا چرچا تھا کہ اس میں مرد عورت ،بوڑھے جوان بچے سب اپنا سرمایہ لگاتے تھے، چنانچہ حضرت خدیجہ ؓ بیوگی کے زمانہ میں بڑے پیمانہ پر تجارت کرتی تھیں، بروایت ابن سعد تنہا حضرت خدیجہ ؓ کا مال تجارت کل قریش کے سامان تجارت کے برابر ہوتا تھا، خودآنحضرت ﷺ حضرت خدیجہ ؓ کا مال لے کر بصرہ تشریف لے گئے ہیں،(سیرہ ابن ہشام:۱/۱۰۰) آنحضرت ﷺ بہ نفس نفیس بھی تجارت فرماتے تھے اورآپ کی تجارت کے واقعات کتب احادیث میں مذکور ہیں،چنانچہ سائب نامی ایک شخص کی اورآپﷺ کی تجارت مشترک تھی اوربعداسلام انہوں نے آپ کی خوش معاملگی کی شہادت بھی دی،(ابوداؤد :۲/۲۱۷) آپ یمن کے بازار جرش میں دوبار تشریف لے گئے،بحرین میں بھی آپ کا جانا ثابت ہے، ابو طالب بھی تاجر تھے، اکابر قریش میں ابو سہل اورابو سفیان وغیرہ تجارت کرتے تھے،(ارض القرآن :۱۳۸/۱)حضرت ابوبکر ؓ کا بھی شغل تجارت تھا،(ابن سعد:۳/۱۳۰) مدینہ میں مقام سلخ پر آپ کا ایک پرچہ بافی کا کارخانہ تھا،کبھی کبھی خود مال لے کر باہر تشریف لے جاتے تھے ؛چنانچہ اسلام کے بعد بصریٰ مال تجارت لے کر جاتے تھے۔ (ابن ماجہ باب المزاج) حضرت عمر بھی تاجر تھے (مسند ابن حنبل:۱/۶۲) ان کی تجارت کا سلسلہ ایران تک پھیلا ہوا تھا(مسند ابن حنبل:۳/۳۴۷) اوربذات خود تجارت کے سلسلہ میں بہت آیا جایا کرتے تھے،چنانچہ خود کہتے ہیں کہ بہت سے ارشادات نبوی میں تجارت کی دوڑدھوپ کی وجہ سے نہ سن سکا (بخاری :۱/ ۲۷۷) حضرت عثمان ؓ عرب کے بہت بڑے تاجر تھے، اسی بناپر ان کو غنی کہا جاتا ہے، بنو قینقاع کے بازاروں میں آپ کا کھجوروں کا کاروبار تھا( مسند احمد بن حنبل )زمانہ جاہلیت میں ربیعہ بن حارث کی شرکت میں تجارت کرتے تھے،(اصابہ:۲/۱۹) حضرت علی ؓ نے بھی اذخر کی تجارت کی ہے،(بخاری :۱/۲۸۰) ابان بن ،سعید قرشی بھی تاجر تھے، اورشام وغیرہ جاکر تجارت کرتے تھے،(اسد الغابہ:۱/۳۶) آنحضرت ﷺ نے شاہانِ عالم کے نام دعوتِ اسلام کے خطوط بھیجے، تو ان میں ایک خط قیصرروم کے نام بھی تھا، جب قاصد خط لے کر پہنچا تواس وقت قریش کے تاجر وہاں موجود تھے، چنانچہ قیصر نے ان سے آنحضرت ﷺ کے متعلق سوالات کیے،(بخاری :۱/۴)غرضکہ تمام قریش تجارت پیشہ تھے، چنانچہ ابن اسحاق کے الفاظ یہ ہیں، کانت قریش قوما تجارا،چنانچہ قریش نے جب مسلمانوں کو حج سے روکا تو انہوں نے یہ دھکمی دی کہ ہم تمہاری شام کی تجارت روک دیں گے عرب عموما ان چیزوں کی تجارت کرتے تھے(ا)کھانے کا مسالہ اورخوشبودارجڑیں۔(۲) سونا لوہا جواہرات۔(۳) خام کھالیں ،بناہوا چمڑا،زین پوش اوربھیڑ بکری وغیرہ۔ توراۃ میں جا بجا ان چیزوں کا ذکر آیا ہے،قریش بھی غالباً ان کی تجارت کرتے ہوں گے، بعض تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ چمڑا اورچاندی کی تجارت کرتے تھے، قریش کے مہاجرین کے خلاف جو وفد نجاشی کے پاس تحفہ لے کر بھیجا ،وہ تحفہ بھی یہی چمڑہ تھا (سیرۃ ابن ہشام : ۱۰۰) طبری نے لکھا ہے کہ "ومعہ نضتہ کثیرۃ وھہ عظم تجارتھم" (طبری: ۱۳۷۴) عرب کی دس تجارتی منڈیاں تھیں، ان میں قریش زیادہ تر بازار ذوالمجاز اورعکاظ میں شریک ہوتے تھے،(یعقوبی:۱/۳۱۴) زمانہ اسلام میں لوگوں نے اس غرض سے حج کی شرکت کو براجانا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ("کتاب البیوع باب ماجاء فی قول للہ تعالی فاذا قضیت الصلوۃ فانتشر وافی الارض") لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ (بقرہ:۱۹۸) تمہارے لیے اس میں کوئی حرج نہیں (کہ زمانہ حج میں ) اپنے رب کا فضل تلاش کرو زمانہ اسلام میں تجارت اورزیادہ چمکی،چنانچہ مہاجرین کا زیادہ وقت بازاروں میں کاروبار تجارت میں گذرتا تھا، اورزمانۂ جہالت کی منڈیوں میں بھی وہی چہل باقی رہی اورزمانہ اسلام میں تقریباً سواسوبرس تک یہ بازار گرم رہے، سب سے پہلے ۱۲۹ھ میں بازار عکاظ خارجیوں کی لوٹ مار کے خوف سے بند ہوا۔ علوم وفنون یوں تو شاعری اورزبان آوری کا مذاق تمام عرب میں تھا تاہم بعض مخصوص قبائل ایسے تھے، جن کی زبان معتبر اورقابل اسناد سمجھی جاتی تھی،ازآنجملہ قبیلہ مضر کی زبان زیادہ معتبر تھی، ان میں بھی قریش زیادہ فصیح اللسان مانے جاتے تھے، ان کی فصاحت کی سندا اس سے بڑھ کر اورکیا ہوسکتی ہے کہ قرآن کریم جو فصاحت و بلاغت کا سرچشمہ ہے، قریش کی زبان میں اترا،(بخاری:۱/۴۹۷) خود آنحضرت صلی اللہ علییہ وسلم نے قریش کے فصیح اللسان ہونے کا تذکرہ فرمایا ہے کہ میں تم سب میں فصیح تر ہوں، اس لیے کہ میں قریش کے خاندان سے ہوں اور میری زبان بنی سعد کی زبان ہے،(طبقات ابن سعد:۱/۷۱) قریش میں بڑے بڑے باکمال شعراء پیدا ہوئے ؛بلکہ خاص بنو ہاشم میں متعدد شعراء تھے، خلفائے اربعہ میں بھی شاعری کا ذوق تھا، چنانچہ ابن رشیق نے کتاب العمدہ میں ان کے اشعار بھی نقل کیے ہیں،(کتاب العمدہ:۱۳،۱۴) قریش میں ذوق شاعری کے ساتھ ساتھ تعلیم کا بھی کچھ نہ کچھ رواج تھا، اگرچہ ان میں تعلیم عام نہ تھی تاہم ظہور اسلام کے وقت پڑھے لکھے اشخاص کی خاصی تعداد موجود تھی، چنانچہ حضرت عمر ؓ، حضرت علی ؓ، حضرت عثمان ؓ، ابوعبیدہ ؓ،طلحہ ؓ، یزید بن ابی سفیان ؓ،ابو حذیفہ بن عتبہ ؓ،حاطب بن عمرو، ابو سلمہ بن عبدالاسد ،آبان ابن سعید،خالد بن سعید، عبداللہ بن سعد، ابو سفیان بن حرب ، امیر معاویہ ؓ وغیرہم اچھی طرح پڑھنا لکھنا جانتے تھے،یہ تعلیم صرف مردوں تک محدود نہ تھی، بلکہ مشہور عورتوں میں ام المومنین حضرت حفصہ ؓ لکھنا پڑھنا جانتی تھیں اور حضرت ام سلمہ ؓ صرف پڑھ سکتی تھیں لکھ نہیں سکتی تھیں، ان کے علاوہ قریش کی غیر معروف عورتیں مثلاً ام کلثوم بن عقبہ، کریمہ بنت مقداد لکھنا جانتی تھیں،عائشہ بنت سعد نے تعلیم حاصل کی تھی۔ (بخاری :۲/۹۰۹) رفاہ عام کے کام قریش کی مذہبی سیادت کے علاوہ ان کے دوسرے اعمال بھی عام حجازیوں سے ان کو ممتاز کرتے تھے ،جس سے ان کے معاصر قبائل میں ان کی قدرومنزلت زیادہ ہوتی تھی؛ چنانچہ اہل مکہ اوراس کے قریب وجوار کے قبائل کی آسایش کے خیال سے قریش کے خاندان نے متعدد کنوئیں مختلف مقامات پر کھدوائے تھے، اہل مکہ کی سب سے بڑی خدمت یہی تھی کہ اس بے آب وگیاہ زمین میں ا ن کے لیے آب شیریں مہیا کیا جائے، ان کے کنوؤں اوران کے مالکوں کے نام کی تفصیل یہ ہے۔ (سیرۃ ابن ہشام:۱/۸۹) شہر مکہ کے اندرونی کنوئیں نام شخص کنوؤں کے نام جگہ عبد شمس ہاشم بن عبدمناف مطعم بن عدی بنو اسد ابن عبدالعزی بنوعبددار بنو جمح بنو مہم بدر سجلہ سقیہ ام احراد سبلہ غمر مکہ کے بالائی حصہ میں ابو طالب کی گھاٹی پر مکہ کے بیرونی کنوئیں مرہ بن کعب بنی کلاب بن مرہ احرم خم خم اسلام کا ظہور قریش بلکہ پورے عرب پر جہالت کی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں کہ دفعۃ افق مکہ پر برق تجلی چمکی،نورحق کا اجالا تمام عرب میں پھیل گیا، ابھی آفتاب رسالت کی کرنیں پھوٹی ہی تھیں کہ خیرہ چشموں کی آنکھیں تابِ نظارہ نہ لاسکیں اورہرچہار جانب سے ظلم و تعدی کے بادل امنڈنے لگے کہ نورحق کی روشنی کو تاریکی میں چھپادیں ،یعنی آنحضرت ﷺ نے دعوتِ اسلام کی ابتداہی کی تھی کہ ہرطرف سے مخالفت کے طوفان اُٹھنے لگے، مگر سیل صداقت برابر پھیلتا گیا، یہاں تک کہ ریگستان عرب کو رشک گلزاربنادیا۔ آنحضرت ﷺ نے جب دعوت اسلام شروع کی تو ابتداء مشرکین نے آپ کی تعلیم کو زیادہ اہمیت نہ دی مگر رفتہ رفتہ جب دعوت کا حلقہ وسیع ہونے لگا اورلوگ برابر دائرہ اسلام میں داخل ہونا شروع ہوئے تو ان کو سخت تشویش پیدا ہوئی اوراس کے استیصال کی تمام امکانی کوششیں شروع کردیں، وہ اشاعت اسلام سے زیادہ بیچ وتاب اپنے مذہب اوراپنے معبودوں کی مذمت پرکھاتے تھے، پہلے تو آنحضرت ﷺ کو خود سمجھاتے بجھاتے رہے، مگرجب آپﷺ پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا اورآپﷺ کی تبلیغی سرگرمی برابر جاری رہی تو مجبوراً ان لوگوں کو ابو طالب کی طرف رجوع کرنا پڑا کہ وہ آپﷺ کے کفیل تھے، چنانچہ عمائد قریش کا ایک وفد ان کے پاس گیا اوراپنے ارادہ سے آگاہ کیا کہ تمہارا بھتیجا ہمارے معبودوں کو برابھلا کہتا ہے ہمارے مذہب کی مذمت کرتاہے، ہمارے سمجھدار اشخاص کو بے شعور کہتا ہے اور ہمارے آباواجداد کو گمراہ بتاتا ہے،اس لیے یا تو تم اس کو روکوورنہ ہمارے حوالہ کردو، اس وقت ابو طالب نے خوش اسلوبی سے معاملہ کو رفع دفع کردیا ،مگر پھر مشرکین نے دیکھا کہ اس شکایت کا بھی کوئی اثر آنحضرت ﷺ پر نہ پڑا اورآپ کے سابق طرزِ عمل میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تو دوبارہ ابو طالب کے پاس آئے اس مرتبہ ابو طالب نے آنحضرت ﷺکو بہت سمجھایا کہ بیٹاچچا پر ناقابل برداشت بوجھ نہ ڈالو، اوراپنی قوم کی مخالفت چھوڑدو یہ سن کر آنحضرت ﷺ کو خیال پیدا ہوا کہ اب چچا ہماری طرف سے مدافعت نہیں کرسکتے اوران کی شفقت بھی ہمارا ساتھ چھوڑدے گی اس سے آپﷺ بہت متاثر ہوئے ،مگر اس بے بسی کے عالم میں بھی آبدیدہ ہوکر جواب دیا کہ چچا خدا کی قسم! اگر کفار میرے داہنے ہاتھ پر آفتاب اوربائیں پر ماہتاب رکھ دیں کہ میں اس فریضہ کو چھوڑ دوں تو بھی نہیں چھوڑ سکتا ؛تا آنکہ اس میں میں ہلکا ہوجاؤں یا کامیاب ہوں ،اس جواب سے ابوطالب بہت متاثر ہوئے اورکہا کہ بیٹا جاؤ جو جی میں آئے کرو، میں تم کو کسی حالت میں نہیں چھوڑوں گا،(سیرۃ ابن ہشام :۱/۱۳۹،۱۴۰) جب قریش کو ابو طالب کے اس فیصلہ کی اطلاع ہوئی، تو تیسری مرتبہ پھر آئے مگر اس مرتبہ انہوں نے صاف جواب دے دیا ،جب وہ لوگ اس طرف سے بالکل مایوس ہوگئے توآنحضرت ﷺ کو جاہ وثروت کا لالچ دلانا شروع کیا کہ شاید اس سے وہ باز آجائیں ،چنانچہ ابوالولید نے روسائے قریش کے مشورہ سے متعدد دنیاوی دلفریبیاں آپﷺ کے سامنے پیش کیں کہ اگر تم اپنے مذہب کی اشاعت سے مال جمع کرنا چاہتے ہو تو ہم تمہارے لیے اس قدر مال جمع کردیں کہ تم ہم سب سے زیادہ دولتمند بن جاؤ اوراگر سرداری کی خواہش ہے تو تم کو اپنا سردار بنالیں اوراگر بادشاہی کی تمنا ہے تو بادشاہ بنانے پر بھی تیار ہیں۔ جب تمام ترغیبات ابوالولید دے چکا،توآنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اب میری بھی کچھ سنو! یہ کہہ کر آپ نے سورۂ حم سجدہ کی چندآیتیں تلاوت فرمائیں، عتبہ نہایت خاموشی اورتاثر سے سنتا رہا جب سن چکا تو آپ نے فرمایا یہ میرا جواب ہے۔ عتبہ جب یہاں سے اپنے ساتھیوں میں گیا تو وہ لوگ اس کا بدلا ہوا رنگ دیکھ کر سرگوشیاں کرنے لگے کہ یہ تو وہ عتبہ نہیں معلوم ہوتے جویہاں سے بھیجے گئے تھے، سبھوں نے ماجرا پوچھا، انہوں نے کہا میں نے عجیب وغریب کلام سنا ہے، خدا کی قسم اس سے بہتر کلام آج تک میرے کانوں نے نہیں سنا،واللہ نہ وہ جادو ہے،نہ وہ شعر ہے اورنہ وہ کہانت ہے، میرے رائے ہے کہ تم اس شخص کو اس کی حالت پر چھوڑدو عجب نہیں کہ اس کا کلام غیبی آواز ہو،بالفرض اگر وہ کامیاب بھی ہوگیا تو اس کی بادشاہت تمہاری بادشاہت ہے اوراس کی عزت تمہاری عزت ہے اور اگر وہ ناکام رہا تو عربوں کی کامیابی بھی تمہاری کامیابی ہے، عتبہ کے یہ خیالات سن کر لوگوں نے کہا تم اس کی زبان سے مسحور ہوگئے ہو عتبہ نے جواب دیا کہ جو کچھ بھی ہو مگر یہ میری رائے ہے آیندہ تم لوگ جو چاہوکرو۔ (سیرۃ ابن ہشام :۱/۱۴۵،۱۵۵) غرض جب تر غیب وترہیب کوئی چیز کارگر نہ ہوئی اورآنحضرت ﷺ کسی طرح اپنے فریضہ سے دست کش نہ ہوئے، بلکہ انہماک اورسرگرمی پہلے سے بھی زیادہ بڑھتی گئی اورقبائل قریش میں مسلمانوں کا زورافزوں اضافہ ہوتا گیا، اکابر قریش میں حضرت عمر ؓ اورحضرت حمزہ ؓ مشرف باسلام ہوچکے، تو مشرکین کا جنون تیز ہوگیا اورشانِ نبوت میں طرح طرح کی گستاخیاں شروع کردیں، کوئی آپﷺ پر خاک ڈالتا، کوئی آپﷺ کے دروازہ پر غلاظت ڈال جاتا ،کوئی آپﷺ کے برتنوں میں گندی چیزیں ڈال دیتا، امیہ بن خلف آپﷺ کے چہرہ مبارک پر غلاظت پھینک دیتا،ایک مرتبہ آپﷺ سجدہ میں تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آپﷺ کی گردن پر سوار ہوگیا اور اس زور سے دبایا کہ آنکھیں نکل پڑیں، بعض مرتبہ یہ سنگ دل اس طرح سے گلا گھونٹتے کہ دم گھٹتے گھٹتے رہ جاتا،ایک مرتبہ قریش کچھ مشورہ کررہے تھے، اتفاقا ًآنحضرت ﷺ اس طرف سے گذرے ،سبھوں نے دوڑکر گھیرلیا اورپوچھا کہ کیا تم ہی ہمارے معبودوں کو برا کہتےہو؟ آپ نے فرمایا ہاں میں ہی ہوں اس پر ایک شخص نے مجمع سے نکل آپ کی چادر سے آپ کا گلابڑی زورسے گھوٹنا شروع کیا، حضرت ابوبکر ؓ موجود تھے، یہ دردناک منظر نہ دیکھ سکے اورروکر فرمانے لگے کہ کیا تم ایسے آدمی کی جان صرف اس بات پر لینے کو آمادہ ہو کہ وہ اللہ کو ایک کہتا ہے۔ (سیرۃ ابن ہشام :۱/۱۵۳،بخاری باب بنیان الکعبہ باب مبعث النبی میں یہی واقعہ تھورے تغیر کے ساتھ مذکور ہے) آنحضرت ﷺ کا خاندان قریش میں بہت معزز تھا،اس لیے ان مخالفتوں کے باوجود آپ کے بہت سے حامی موجود تھے، آنحضرت ﷺ کے علاوہ دوسرے اکابر قریش جو مشرف باسلام ہوچکے تھے ان کو بھی خاندانی عظمت اوروجاہت سے زیادہ نہ ستاسکتے تھے اس لیے ساراغصہ ان غریب مسلمانوں پر ٹوٹتا تھا، جن کا کوئی یارومددگار نہ تھا ،کفار کے درندگی کی داستان صرف مارپیٹ پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ مارپیٹ کے علاوہ نئے نئے اندازِ ستم ایجاد کرتے تھے۔ امیہ بن خلف حضرت بلال ؓ کو چلچلاتی ہوئی دھوپ میں جب کہ مکہ کی زمین توے کی طرح تپتی ہوئی گرم ریت پر لٹا تا اورسینہ پر بھاری پتھر رکھ دیتا، کہ جنبش نہ کرسکیں اور کہتا کہ محمد سے توبہ کرکے لات وعزیٰ کی پرستش کا اقرار کرو، ورنہ یوں ہی سسک کر مرجاؤ گے مگر اس وقت بھی اس شیدائے رسالت کی زبان سے احد احد کی صدا بلند ہوتی ۔ (سیرۃ ابن ہشام : ا/۱۷۰،اسد الغابہ:۱/۲۰۶) حضرت عمار بن یاسر ؓ بھی بے یار ومددگار تھے اس لیے قریش کا دستِ ستم ان پر بھی دراز ہوتا اوران کو دوپہر کے وقت انگاروں پر لٹاتے پانی میں غوطہ دیتے مگر زبان کلمہ حق سے نہ پھرتی ایک مرتبہ مشرکین ان کو انگاروں پر لٹارہے تھے کہ آنحضرت ﷺ اس طرف سے گذرے اورآپ کے سرپر ہاتھ پھیر کر فرمایا"یَانَارُکُوْنِیْ بَرْدًاوَّ سَلاَمًا عَلٰی عَمَّارَ کَمَا کُنْتِ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ"اچھے ہونے کے بعد بھی ان کی پیٹھ پر زخم کے نشانات باقی تھے۔ (طبقات ابن سعد جزوثالث قسم اول : ۱۷۷،۱۷۸) حضرت خباب بن ارت ؓ بھی مشرکین کے ظلم و ستم کے شکار تھے وہ خود حضرت عمر ؓ کواپنی مظلومی کی داستان سناتے تھے کہ مشرکین انگارے دھکاتے اورمجھ کو پیٹھ کے بل لٹاتے اورایک شخص چھاتی پر پتھر رکھ کر جنبش نہ کرنے دیتا اوراس عذاب میں اس وقت تک مبتلا رہتا،جب تک کہ خود میرے زخموں کی رطوبت آگ کو نہ بجھا دیتی۔ ( ایضاً صفحہ ۱۱۷) حضرت صہیب ؓ بھی ان ہی بیکس لوگوں میں تھے، جن کو ستاکر مشرکین دل ٹھنڈاکرتے تھے جب انہوں نے ہجرت کا ارادہ کیا، تو مشرکین نے کہا کہ تو ہمارے یہاں افلاس وفقر کی حالت میں آیا تھا،یہاں رہ کر دولت مند ہوا،اب چاہتا ہے کہ جان مال لے کر نکل جائے ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا، انہوں نے فرمایا، اگر میں سب مال و متاع تم کو دے دوں تو مجھے جانے دو گے انہوں نے کہا ہاں انہوں نے سارا مال حوالہ کردیا، آنحضرت ﷺ نے اس قربانی کی خبر سنی تو فرمایا: "ربح صھیب ربح صھیب" صہیب نفع مند رہے، صہیب نفع مند رہے۔ ( ایضاً ۱۱۲) یہ تو مردوں کی مثالیں تھیں، ان اشقیا کے دستِ ستم سے عورتیں بھی نہ بچ سکیں، حضرت سمیہ ؓ حضرت عمار بن یاسر ؓ کی والدہ سابقاتِ اسلام میں تھیں ،ان کو ابو جہل بہت ستاتا تھا،حتی کہ نیزے سے زخمی کرکے شہید کرڈالا۔ (اصابہ :۸/۱۱۴) حضرت زنیرؓ دائرہ اسلام میں ابتداہی میں داخل ہوئیں ابو جہل ان کو بہت اذیتیں دیتا تھا ،حضرت عمر ؓ بھی قبل از اسلام ان کو بہت ماراکرتے تھے، (اصابہ :۸/۹۱) ان ہی میں ایک خاتون لبینہ ؓ بھی تھیں منجملہ دیگر ضعفائے اسلام کے حضرت ابوبکر ؓ نے ان کو بھی خرید کر آزاد کردیا تھا۔ (اصابہ :۸/ ۱۷۹) یہ تمام مہاجرین ضعفائے اسلام میں تھے، جن کا کوئی حامی و مددگار نہ تھا، اس لیے ان پر جوستم ڈھاتے کم تھے جب کہ ان کی زد سے ذی وجاہت اورصاحب حیثیت لوگ نہ بچ سکے،حضرت ابوبکر ؓ زمانہ جاہلیت میں خاصی عمر کے تھے اوراپنے قبیلہ میں معزز تھے،تاہم کسی مشرک نے آنحضرت ﷺ کی حمایت پر ان کی ڈاڑھی نوچ لی۔ (سیرۃ ابن ہشام: ا/۱۵۳) حضرت عثمان ؓ جب مشرف باسلام ہوئے تو ان کے چچا حکم بن ابو العاص رسی سے باندھتے اور کہتے کہ اب بھی اس نئے دین کو نہ چھوڑوگے۔ (طبقات جوزواول قسم ثالث:۱۳۸) حضرت عمر ؓ نے قبل از اسلام اپنے بہن فاطمہ ؓ اوربہنوئی سعید بن زید ؓ کو اسلام لانے پر اس قدر مارا کہ ان کے چہرے سے خون کے فوارے چھوٹنے لگے،یہ مذکورہ بالا چند واقعات مثال کے طور پر لکھ دیے گئے ہیں ورنہ ان کی فہرست کہیں زیادہ طویل ہے۔