انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** منافقت کی ابتداء مدینہ میں ایک شخص عبداللہ بن اُبی بن سلول بہت عقلمند ،تجربہ کار،ہوشیار اورچالاک شخص تھا،اوس اورخزرج کے تمام قبائل پر اس کا اثر تھا،لوگ اس کی سرداری کو متفقہ طور پرتسلیم کرتے تھے، قبائل اوس وخزرج چند روز پیشتر جنگ بعاث میں ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہو کر اوراپنے بہت سے بہادروں کو قتل کرا کر کمزور ہوچکے تھے،عبداللہ بن اُبی نے اس حالت سے فائدہ اٹھانے اور دونوں قوموں میں اپنی قبولیت کے بڑھانے میں کوتا ہی نہیں کی،مدینہ والے ارادہ کررہے تھے کہ عبداللہ بن ابی کو تمام مدینہ کا افسرِ اعلیٰ یا بادشاہ بنالیں اورایک عظیم الشان جلسہ ترتیب دے کر اس میں باقاعدہ طور پر عبداللہ بن ابی کی سرداری کا اعلان کردیں، یہاں تک کہ عبداللہ بن ابی کے لئے ایک تاج بھی بنوالیا گیا تھا، اسی دوران میں مدینہ کے اندر اسلام اوربانی اسلام علیہ السلام داخل ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ تشریف لے جانے کے بعد مدینہ میں مسلمان سب سے بڑی طاقت سمجھے جانے لگے اوربالآخر مسلمانوں کی فوقیت وافسری کو مذکورہ بالا عہد نامہ پر دستخط کرکے سب نے تسلیم کرلیا اس کا لازمی نتیجہ یہ بر آمد ہوا کہ عبداللہ بن ابی بن سلول کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا اوراس کی بادشاہت وسرداری خاک میں مل گئی؛چونکہ وہ بڑا چالاک و ہوشیار آدمی تھا ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اگرچہ اپنا رقیب اوردشمن سمجھتا تھا لیکن اس دشمنی کے اظہار کو غیر مفید سمجھ کر اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھا،قبائل اوس اورقبائل خزرج میں جو لوگ ابھی تک بُت پرست تھے وہ سب عبداللہ بن ابی کے زیر اثر تھے، قریشِ مکہ کو جب معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے رفقاء مدینہ میں پہنچ کر اطمینان کی زندگی بسر کرنے لگے اورمذہب اسلام کا دائرہ روز بروز وسیع ہورہا ہے تو انہوں نے سب سے پہلے شرارت اورشیطانی سازش یہ کی کہ عبداللہ بن ابی اور مشرکین مدینہ کے پاس ایک تہدید آمیز پیغام بھیجا کہ تم نے ہمارے آدمی کو ہماری مرضی کے خلاف اپنے یہاں ٹھہرالیا ہے،مناسب یہ ہے کہ تم اُس سے لڑو اور اپنے شہر سے نکال دو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ہم پورے ساز وسامان کے ساتھ مدینہ پر حملہ کریں گے ،تمہارے جوانوں کو قتل کردیں گے،تمہاری عورتوں پر متصرف ہوجائیں گے۔ اس پیغام کے پہنچنے پر عبداللہ بن ابی نے تمام مشرکوں کو جمع کیا اورمکہ والوں کے اس پیغام سے مطلع کرکے سب کو لڑائی پر آمادہ کردیا،اتفاقاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مجلس اوراس سازش کا حال معلوم ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً اس مجمع میں تشریف لے گئے اورلوگوں کو مخاطب کرکے کہا کہ قریشِ مکہ نے تم کو دھوکا دینا چاہا ہے،اگر تم ان کی دھمکی اور دھوکے میں آگئے تو بہت نقصان اُٹھاؤگے ،تمہارے لئے بہتر یہ ہے کہ تم ان کو صاف جواب دے دو اوراپنے عہدوقرار پر جو ہمارے ساتھ ہوچکا ہے قائم رہو،اگر قریش نے مدینہ پر حملہ کیا تو ہم کو ان کا مقابلہ کرنا اور لڑنا بہت آسان ہوگا، کیونکہ ہم سب متفقہ طور پر اُن کے سامنے آئیں گے، لیکن اگر تم مسلمانوں سے لڑے تو اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے بیٹوں،بھائیوں اور رشتہ داروں کو قتل کروگے اوربرباد ہوجاؤ گے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سُن کر تمام مجمع نے تائید کی اور اُسی وقت تمام مجمع منتشر ہوگیا،عبداللہ بن ابی دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا۔ اسی سال مسجد میں نمازیوں کو بُلانے اورمجتمع کرنے کے لئے اذان شروع ہوئی،اسی سال یہود کے ایک زبردست عالم حضرت عبداللہ بن سلام مسلمان ہوئے،اسی سال حضرت سلمان فارسیؓ جو اول مجوسی تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے، اسی سال زکوٰۃ فرض ہوئی۔