انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فضائل ومناقب نوشت وخواند حضرت عثمان ؓ ان صحابہ میں سے تھے جو اسلام سے پہلے ہی نوشت وخواند جانتے تھے،اسلام کے بعد اس ملکہ میں اور زیادہ ترقی ہوئی۔ کتابت وحی آپ کی تحریر وکتابت کی مہارت کی بناپر حضورپرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کتابت وحی پر مامور کیا تھا اور جب کبھی کوئی آیت نازل ہوتی تھی تو آپ کو بلاکر لکھوایا کرتے تھے، حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ شب کے وقت وحی نازل ہوئی،حضرت عثمان ؓ موجود تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو لکھنے کا حکم دیا تو انہوں نے اسی وقت تعمیل ارشاد کی۔ (کنز العمال جلد ۶ : ۳۷۷) اسلوب تحریر اسلوب تحریر کا اندازہ ان فرامین وخطوط سے ہوسکتا ہے جواب تک کتابوں میں محفوظ ہیں، افسوس ہے کہ الفاظ کی فصاحت اورکلام کی بلاغت کا لطف ترجمہ میں قائم نہیں رہ سکتا، بیعت خلافت کے بعد تمام ملک میں جو مختلف فرامین بھیجے ہیں ان میں سے ایک کے چند فقرے یہ ہیں: "إنما بلغتم ما بلغتم بالاقتداء والاتباع فلا تلفتنكم الدنيا عن أمركم فإن أمر هذه الأمة صائر إلى الابتداع بعد اجتماع ثلاث فيكم تكامل النعم وبلوغ أولادكم من السبايا وقراءة الأعراب والأعاجم القرآن فإن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال الكفر في العجمة فإذا استعجم عليهم أمر تكلفوا وابتدعوا" "اتباع اوراطاعت ہی سے تم کو یہ درجہ حاصل ہوا ہے،پس دنیا طلبی تم کو تمہارے مقصد سے برگشتہ نہ کرنے پائے، امت میں تین اسباب کے مجتمع ہوجانے کے بعد بدعات کا سلسلہ شروع ہوجائے گا،دولت کی بہتات، لونڈیوں سے اولادوں کی کثرت، اعراب، اوراعاجم کا قرآن پڑھنا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کفر عجمیت میں ہے کیونکہ وہ جب کوئی بات نہیں سمجھ سکتے تو(خواہ مخواہ) تکلیف کرکے نئی نئی باتیں گھڑلیتے ہیں۔" ایک فرمان میں عمال کو تحریر فرماتے ہیں: "وليوشكن أئمتكم أن يصيروا جباة ولا يكونوا رعاة فإذا عادوا كذلك انقطع الحياء والأمانة والوفاء ألا وإن أعدل السيرة أن تنظروا في أمور المسلمين فيما عليهم فتعطوهم ما لهم وتأخذوهم بما عليهم" "قریب ہے کہ تمہارےائمہ نگہبان ہونےکے بجائے صرف تحصیلدار ہوکر رہ جائیں ،جب ایسی حالت ہو جائے گی تو حیا، امانت اور وفاداری ناپید ہو جائے گی، ہاں !بہتر طریقہ یہ ہے کہ تم مسلمانوں کے نفع نقصان کا خیال رکھو ،ان کا حق ان کو دلواؤ جوان سے لینا چاہے وہ اس سے وصول کرے" تقریر برجستہ تقریر وخطابت کا ملکہ نہ تھا؛چنانچہ مسند نشینی کے بعد پہلے پہل جب منبر پر تشریف لائے تو زبان نے یاری نہ کی اور صرف یہ کہہ کر اترآئے کہ ابوبکر صدیق ؓ وعمر ؓ پہلے سے اس کے لئے تیار ہوکر آتے تھے،میں بھی آئندہ تیار ہوکر آؤں گا؛لیکن تم کو تقریر کرنے والے امام سے زیادہ کام کرنے والے امام کی ضرورت ہے،آپ کی تقریر مختصر ؛لیکن فصیح و موثر ہوتی تھی، ایک خطبہ کے چند ابتدائی فقرے یہ ہیں: "أيها الناس إن بعض الطمع فقر وإن بعض اليأس غنى وإنكم تجمعون ما لا تأكلون وتأملون ما لا تدركون وأنتم مؤجلون في دار غرور" "لوگو!بعض حرص وطمع احتیاجِ محض ہے اوربعض ناامیدی تونگری وبے نیازی کے مترادف ہے، تم ایسی چیزیں جمع کرتے ہو جس سے متمتع نہیں ہوسکتے اور ایسی امیدیں باندھتے ہو جو پوری نہیں ہوسکتی ہیں، تم لوگ اس دھوکہ کے گھر میں ایک وقت مقررہ تک کے لئے چھوڑے گئے ہو" قرآن پاک حضرت عثمان ؓ روایت کرتے ہیں کہ قرآن کا پڑھنا یا پڑھانا سب سے افضل ہے، (ابن حنبل ج ۱ : ۵۷)غالباً اسی لئے ان کو قرآن شریف سے خاص شغف تھا، دوسرے اکابر صحابہ ؓ کی طرح وہ بھی قرآن مجید کے حافظ تھے اورچونکہ کاتب وحی رہ چکے تھے، اس لئے ہر آیت کے شان نزول اوراس کے حقیقی مفہوم سے واقف تھے، کہتے ہیں کہ عہد نبوت میں انہوں نے بھی ایک مصحف جمع کیاتھا۔( نزہتہ الابرار قلمی : ۴۱ کتب خانہ حبیب گنج) آیات قرآنی سے استدلال،استنباط احکام اورتفریع مسائل میں خاص ملکہ رکھتے تھے،قرآن پاک کو نومسلم قوموں کی تحریف سے بچانا ان کا بڑاکارنامہ ہے،یہ واقعہ بھی ان کی فضیلت کا ایک باب ہے کہ اس وقت بھی جب وہ دشمنوں کے نرغہ میں تھے اور قاتل تیغ بکف ان کے سامنے تھے اوروہ قرآن کی تلاوت میں مصروف تھے۔ حدیث شریف سلسلہ احادیث میں دوسرے صحابہ کی نسبت حضرت عثمان ؓ سے مرفوع احادیث بہت کم مروی ہیں،آپ کی کل روایتوں کی تعداد ۱۴۶ ہے، جن میں تین متفق علیہ ہیں، یعنی بخاری ومسلم دونوں میں موجود ہیں اورآٹھ صرف بخاری اور پانچ صرف مسلم میں ہیں، اس طرح صحیحین میں آپ کی کل ۱۶ حدیثیں ہیں۔ ان کی روایات کی قلت کی وجہ یہ ہے کہ وہ روایات حدیث میں حددرجہ محتاط تھے، فرماتے تھے کہ‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرنے میں یہ چیز مانع ہوتی ہے کہ شاید دیگر صحابہ کے مقابلہ میں میرا حافظہ زیادہ قوی نہ ہو؛لیکن میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ جو شخص میری طرف وہ منسوب کرے گا جو میں نے نہیں کہا ہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ (ابن حنبل جلد اول ۶۵) اس لئے وہ حدیث کی روایت میں سخت احتیاط کرتے تھے، عبدالرحمن بن حاطب کا بیان ہے کہ میں نے کسی صحابی کو حضرت عثمان ؓ سے زیادہ پوری بات کرنے والا نہیں دیکھا ؛لیکن وہ حدیث بیان کرتے ڈرتے تھے۔ (ابن سعد جلد ۳ قسم اول ۳۹) فقہ واجتہاد حضرت عثمان ؓ اگر چہ حضرت ابوبکر ،عمر وعلی ؓ کی طرح اکابر مجتہدین میں داخل نہیں، تاہم وہ شرعی اورمذہبی مسائل میں مجتہد کی حیثیت رکھتے تھے اور دوسرے مجتہد صحابہ ؓ کی طرح ان کے اجتہاد ات اورفیصلے بھی کتب آثار میں مذکور ہیں، لوگ ان کے قول وعمل سے استفادہ کرتےتھے(بخاری، کتاب الغسل،ابن حنبل ج ۱ : ۶۰۔۷۰ وغیرہ)خصوصاً حج کے ارکان اورمسائل کے علم میں ان کا پایہ بہت بلند تھا ،اس علم میں ان کے بعد حضر عبداللہ بن عمرؓ کا درجہ تھا، شیخین کے عہد خلافت میں بھی حضرت عثمان ؓ سے فتوے پوچھے جاتے تھے اورپیچیدہ مسائل میں ان کی رائے دریافت کی جاتی تھی۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ مکہ میں گئے اوراپنی چادر ایک شخص پر جو خانہ کعبہ میں کھڑا ہوا تھاڈال دی،اتفاق سےاس پر ایک کبوتر بیٹھ گیا، انہوں نے اس خیال سے کہ چادر کو اپنی بیٹ سے گندہ نہ کردے اس کو اڑادیا،کبوتر اڑکر دوسری جگہ جا بیٹھا،وہاں اس کو ایک سانپ نے کاٹ لیا اور وہ اسی وقت مرگیا، حضرت عثمان ؓ کے سامنے یہ مسئلہ آیا تو انہوں نے کفارہ کا فتویٰ دیا،کیونکہ وہ اس کبوتر کو ایک محفوظ مقام سے غیر محفوظ مقام میں پہنچانے کا باعث ہوئے تھے۔ (مسند شافعی طبع ارہ : ۷۹) بیعت خلافت کے بعد حضرت عثمان ؓ کے سامنے ہر مزان کے قتل کا مقدمہ پیش ہوا حضرت عبیداللہ بن عمر ؓ مدعا علیہ تھے، اس مقدمہ میں جو فیصلہ ہوا وہ بھی درحقیقت ایک اجتہادپر مبنی ہے یعنی مقتول کا اگر کوئی وارث نہ ہو تو حاکم وقت اس کا ولی ہوتا ہے ؛چونکہ ہر مزان کا کوئی وارث نہ تھا اس لئے حضرت عثمان ؓ نے بحیثیت ولی کے قصاص کے بجائے دیت لینا قبول کیا اور وہ رقم بھی اپنے ذاتی مال سے دے کر بیت المال میں داخل کردی۔ حضرت عثمان ؓ نے اپنے بعض اجتہاد سے بعض معاملات میں سہولت پیداکر دی ،مثلاً دیت میں اونٹ دینے کا رواج تھا،حضرت عثمان ؓ نے اس کی قیمت بھی دینی جائز قراردی۔ (کتاب الخراج مصر : ۹۲) ان کے بعض اجتہادی مسائل سے دوسری مجتہدین صحابہ ؓ کو اختلاف بھی تھا؛لیکن حضرت عثمان ؓ چونکہ اپنی رائے کو صحیح سمجھتے تھے، اس لئے انہوں نے اپنے اجتہاد سے رجوع نہیں کیا،مثلاً آپ لوگوں کو حج تمتع یعنی حج اورعمرہ کے لئے علیحدہ علیحدہ نیت کرنے سے اس بنا پر روکتے تھے کہ اس کے جواز کی علت اب باقی نہیں رہی، یعنی کفار کا خوف؛لیکن حضرت علی ؓ اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔( مسند ابن حنبل ج ۱ : ۶۱)اسی لئے حضرت عثمان ؓ کا خیال تھا کہ اگر کوئی شخص حج کے موقع پر اقامت کی نیت کرلے تو اس کو منی میں بھی پوری چاررکعت نماز ادا کرنی چاہئے، حضرت علی ؓ منیٰ میں قصر کرنا ضروری سمجھتے تھے،حضرت عثمان ؓ حالت احرام میں ناجائز قرار دیتے ہیں،(مسند ابن حنبل ج۱ : ۶۸)کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے اس کی ممانعت سنی تھی؛لیکن حضرت علی اوردوسرے صحابہ ؓ اس کے جواز کا فتویٰ دیتے تھے ،حضرت عثمان ؓ اس زن مطلقہ کو جس کو طلاق بائن دی گئی ہو، حالت عدت میں وارث قرار دیتےتھے۔(مسند شافعی طبع آرہ : ۱۷۰)کیونکہ ان کے خیال میں جب تک عدت پوری نہ ہوجائے اس وقت تک ایک رشتہ قائم ہے،حضرت علی ؓ کو اس سے اختلاف تھا،حضرت عثمان ؓ کا خیال تھا کہ اگر کوئی شخص حالت عدت میں کسی عورت سے نکاح کرلے تو مستوجب سزا ہے کہ قرآن نے اس کی ممانعت کی ہے؛چنانچہ ایک شخص ان کے عہد میں اس کا مرتکب ہوا تو انہوں نے اس کو جِلاوطن کردیا(نزہتہ الابرار قلمی : ۴۱) حضرت علی ؓ اس کو کسی حد شرعی کا مستوجب نہیں سمجھتے تھے؛ غرض اسی طرح بعض اورمسائل میں بھی حضرت عثمان ؓ اور دوسرے صحابہ کرام ؓ کے درمیان اختلاف تھا؛لیکن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ اختلاف کسی نفسانیت پر مبنی تھا،ان بزرگوں کی رواداری اورصفائی قلب کا یہ حال تھا کہ جب حضرت عثمان ؓ نے منی میں دورکعت نماز کے بجائے پوری چاررکعت نماز ادا کی تو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا اگرچہ میرے خیال میں قصر ضروری ہے ؛لیکن میں عملاً امیرالمومنین کی مخالفت نہیں کروں گا؛چنانچہ خود بھی دو کےبجائے پوری رکعتیں پڑھیں۔ اسی طرح حضرت عثمان ؓ کو جب یہ معلوم ہوا کہ بعض مسائل میں دوسرے صحابہ کو اختلاف ہے تو فرمایا کہ‘‘ہر شخص کو اختیار ہے جو حق نظر آئے اس پر عمل کرے ،میں کسی کو اپنی رائے ماننے پر مجبور نہیں کرتا۔’’ بعض ناواقفوں نے حضرت عثمان ؓ کے کسی مسئلہ پر اعتراض کیا تو فرمایا ہم لوگ خدا کی قسم سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے، ہم بیمار ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری عیادت فرماتے ،ہمارے جنازوں کے پیچھے چلتے ہم کو ساتھ لے کر جہاد کرتے تھے، کم وبیش جو کچھ ہوتا اس سے ہماری غمخواری فرماتے،اب ایسے لوگ ہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بتانا چاہتے ہیں جنہوں نے شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت بھی نہ دیکھی ہو۔ ( مسند احمد بن حنبل ج۱ : ۲۹) علم الفرائض حضرت عثمان ؓ کو چونکہ تجارتی کاروبار سے ہمیشہ سابقہ پڑتا تھا اس لئے ان کو علم حساب سے ضرور دلچسپی رہی ہوگی،جس کا ثبوت یہ ہے کہ فرائض یعنی علم تقسیم ترکہ سے جس میں حساب کو بڑادخل ہے، مناسبت تھی؛چنانچہ اس فن کی تدوین اورترتیب میں حضرت زید بن ثابت ؓ کے ساتھ ان کا ہاتھ بھی شامل ہے، قرآن شریف میں ذوی الفروض اوربعض عصبات کا ذکر ہے،حضرت عثمان ؓ اورزید بن ثابت ؓ نےاپنی مجتہدانہ قوت سے اسی کو بنیاد قراردے کر موجودہ علم الفرائض کی عمارت قائم کی۔ یہ دونوں اپنے زمانہ میں اس فن کے امام سمجھے جاتے تھے، عہد صدیقی اور عہد فاروقی میں وارثت کے جھگڑوں کا فیصلہ بھی کرتے تھے اور اس سے متعلق تمام مشکل عقدوں کو حل فرماتے تھے، بعض صحابہ کو یہاں تک خوف تھا کہ ان دونوں کی وفات سے فرائض کا علم ہی جاتا رہے گا۔ ( کنز العمال ج ۶ : ۳۷۲)