انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ملک کا سیاسی اور سماجی نظام حضور اکرم ﷺ کی بعثت سے قبل پورے عرب میں طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا، مختلف قبائل اپنے اپنے علاقہ میں حکمراں تھے اور اپنی من مانی کیا کرتے تھے ،یمن کے علاقہ پر پہلے حبشہ کی حکمرانی تھی، بعد میں ایران کی عملداری میں آیا، پھر بعد میں مسلمانوں نے اسے فتح کیا اور اس وقت کے ایرانی گورنر نے اسلام قبول کیا، بحرین سے دریائے فرات تک کا علاقہ عراق عرب کہلاتا تھا، اس کے والی ایران کی سرپرستی میں یہاں حکومت کرتے تھے، جن کا پایہ تخت حیرہ تھا، ان کا آخری حکمران منذر بن نعمان تھاجس کو حضرت خالیدؓ بن ولید نے شکست دی، شام میں آل غسّان کی حکمرانی تھی اور اس سے ملحقہ علاقہ فلسطین رومی حکومت کے زیر نگیں تھا، یہاں کا آخری فرماں روجبلہ بن ایہم حضرت عمرؓ کے دور ِخلافت میں۱۶ ہجری میں مسلمان ہوا ؛لیکن بعد میں مرتد ہوکر قسطنطنیہ میں ہر قل سے جا ملا، بحرین کے حکمران بھی ایرانی حکومت کے ماتحت تھے، عرب ریگستانی علاقہ ہے اور زیادہ تر حصہ غیر آباد اور بے آب و گیاہ ہے، جگہ جگہ پہاڑ پائے جاتے ہیں جہاں چشمے موجود ہیں، اس پانی سے کھجور اور ببول کے درختوں کے جُھنڈ کے جُھنڈ پائے جاتے ہیں جنھیں نخلستان کہتے ہیں، نخلستانوں کے پاس پانی کے چشمے ہوتے ہیں، وہاں بدو لوگ ڈیرے ڈال کر قیام کرتے تھے، جانوروں میں بھیڑ ، بکریاں، گھوڑے اور اونٹ پالتے تھے ، ان کا دودھ اور گوشت استعمال کرتے، ان جانوروں کے چمڑے سے خیمے تیار کرتے اور ان کے اُون سے لباس بناتے اور ان کی مینگنیاں جلانے کے کام آتی تھیں، ان عرب بدوؤں کی معیشت کا دارو مدار اونٹوں پر تھا اور انہی اونٹوں کی پیٹھ پر سواری کر کے ریگستانوں کے دشوار راستوں کا سفر کرتے، عرب کے باشندے پیشہ کے لحاظ سے دو طبقوں میں منقسم تھے، پہلا طبقہ حضری یا شہری لوگوں کا تھا اوردوسرا طبقہ خانہ بدوش تھا،یمن، مکہ، جدہ ، طائف اور یثرب کی آبادی شہری تھی ؛لیکن ان کے علاوہ زیادہ تر لوگ بدویانہ زندگی بسر کرتے تھے، شہری علاقوں کا اپنا تمدن تھا اور ان کے شادی بیاہ کے طریقے متعین تھے، تجارت اور زراعت ان کا پیشہ تھا، مکانات کی تعمیر میں اینٹ، پتھر استعمال کرتے تھے، ان کا لباس بھی مخصوص ہوتا تھا، شعر و شاعری اور خطابت کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے ، مہمان نوازی ان کا خاص وصف تھا ، خانگی زندگی میں عورتوں پر مردوں کو بر تری حاصل تھی، بدوی عرب خانہ بدوش ہوا کرتے تھے، جو غذا اور چارہ کی تلاش میں اِدھر اُدھر پھرتے رہتے تھے اور خیموں میں رہتے تھے، دلیر، شجاع ، مہمان نواز اور وعدہ کے پکے تھے ؛لیکن جنگجو فطرت کے حامل اور جرائم پیشہ تھے، رہزنی کو دلیری سمجھتے اور اسی لئے اپنی اولاد کو درندوں کے نام سے پکارتے جیسے اسد ، کلب ، ذئب ، حفص وغیرہ ، ان عربوں میں اخلاقی برائیاں بھی بہت تھیں، شراب ان کی گھٹی میں پڑی تھی اور سود خواری کے عادی تھے، باپ کے مرنے کے بعد سوتیلی ماں بیٹے کے حرم میں آجاتی،ایک عورت کے کئی کئی شوہر ہوتے تھے، لڑکیوں کی پیدائش کو منحوس سمجھ کر انھیں زندہ دفن کر دیتے تھے،کینہ پرور اور متتقم مزاج تھے ،اسی لئے انتقامی لڑائیاں برسہابرس جاری رہتیں، کاہنوں کی باتوں پر یقین رکھتے، تیروں کے ذریعہ فال نکالتے، بتوں کو حاجت روا سمجھ کر ان کے نام پر جانورچھوڑتے اور ان پر انسانوں کو بھینٹ چڑھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے، اخلاقی پستی انتہا کو پہنچ چکی تھی، انسان، پتھر، بتوں اور جھاڑ اور ستاروں کا پجاری بن گیا تھا ، ایسے سماجی اور اخلاقی گراوٹ کے ماحول میں اللہ تعالیٰ نے ان ہی عربوں میں اپنے آخری پیغمبر اور رسول حضور اکرم ﷺ کو مبعوث کیا جنھوں نے لوگوں کو شرک کرنے سے اجتناب کرنے اور خدائے واحد کی پرستش کرنے کی تعلیم دی اور دین اسلام ہی کو قبول کرنے کی دعوت عام دی،