انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عبداللہ اشتر بن محمدمہدی جب محمدمہدی نے خروج کیا ہے تومنصور کی طرف سے سندھ کا گورنرعمربن حفص بن عثمان بن قبیصہ بن ابی صفرہ ملقب بہ ہزارمرد تھا، محمدمہدی نے خروج کرکے اپنے بیٹے عبداللہ معروف بہ اشتر کواس کے چچا ابراہیم کے پاس بصرہ کی طرف روانہ کردیا تھا؛ یہاں پہنچ کرعبداللہ اُشتر نے اپنے چچا کے مشورے سے ایک تیز رفتار اونٹنی لے کرسندھ کا قصد کیا؛ کیونکہ عمر بن حفص حاکم سندھ سے اعانت وہمدردی کی توقع تھی، عبداللہ اشتر نے سندھ میں پہنچ کرعمربن حفص کودعوت دی اور اُس نے اس دعوت کوقبول کرکے محمدمہدی کی خلافت کوتسلیم کرلیا اور عباسیوں کے لباس اور نشانات کوچاک کرکے خطبہ میں محمد مہدی کانام داخل کردیا؛ اسی عرصہ میں عمربن حفص کے پاس محمدمہدی کے مارے جانے کی خبرپہنچی اس نے عبداللہ اشترکواس حادثہ سے اطلاع دے کرتعزیت کی، عبداللہ اشتر نے کہا کہ اب تومجھ کواپنی جان کا خطرہ ہے میں کہاں جاؤں اور کیا کروں، سندھ کی حالت اُس زمانہ میں یہ تھی کہ بہت سے چھوٹے چھوٹے راجہ جوعمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں مسلمان ہوگئے تھے وہ اپنی اپنی ریاستوں پرفرماں روائی کرتے تھے اور خلیفہ وقت کی سیادت کوتسلیم کرکے تمام اسلامی شعائر کے پابند اور اپنے حقوق حکمرانی پرقائم تھے، عمربن حفص نے عبداللہ اشتر کومشورہ دیا کہ تم سندھ کے فلاں باداشاہ کی مملکت میں چلے جاؤ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پرقربان ہوتا ہے اور ایفائے عہد میں مشہور ہے، یقین ہے کہ تمہارے ساتھ بڑی عزت ومحبت سے پیش آئے گا، عبداللہ اُشتر نے رضامندی ظاہر کی اور عمربن حفص نے اس باداشاہ سے خط وکتابت کرکے عبداللہ اشتر کی نسبت عہد نامہ لکھاکرمنگوالیا اور عبداللہ کواُس طرف روانہ کردیا، سندھ کے اس باداشہ نے اپنی بیٹی کی شادی عبداللہ اشتر سے کردی۔ سنہ۱۵۱ھ تک عبداللہ اشتر اسی جگہ رہا اسی جگہ رہا اور اس عرصہ میں قریباً چارسو عرب اطراف وجوانب سے کھینچ کھینچ کرعبداللہ اشتر کے پاس آکرجمع ہوگئے، منصور کواتفاقاً یہ حال معلوم ہوگیا کہ عبداللہ اشتر سندھ کے ایک بادشاہ کے یہاں مقیم ہے اور ایک چھوٹی سی جمعیت عربوں کی اس کے پاس موجود ہے، منصور نے سنہ۱۵۱ھ میں عمربن حفص کوسندھ کی گورنری سے بلاکرمصر کی حکومت پربھیج دیا اور سندھ کی گورنری پرہشام بن عمروتغلبی کوروانہ کیا، رخصت کرتے وقت تاکید کی کہ عبداللہ اشتر کوجس طرح ممکن ہوگرفتار کرلینا؛ اگرسندھ کا بادشاہ اُس کے دینے سے انکار کرے توفورا اُس پرچڑھائی کردینا، ہشام بن عمرو نے ہرچند کوشش کی مگرسندھ کا باداشاہ عبداللہ اشتر کے دینے پررضامند نہ ہوا، آخرطرفین سے لڑائی پرآمادگی ظاہر کی گئی، عبداللہ اشترجس حصہ ملک میں مقیم تھا اس طرف ہشام بن عمرو کے بھائی سفیح نے فوج کشی کی اتفاقاً ایک روز عبداللہ اُشتر صرف دس سواروں کے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے سیر کرتا ہوا نکل گیا، وہاں سفیح کی فوج یکایک سامنے آگئی، سفیح نے عبداللہ کوگرفتار کرنا چاہا اور عبداللہ اُشتر اور اُن کے ہمراہیوں نے مقابلہ کیا، لڑائی ہونے لگی، آخرعبداللہ اُشتر اور اُن کے ہمراہی سب کے سب مارے گئے، ہشام بن عمرو نے اس کی اطلاع منصور کودی، منصور نے لکھا کہ اس بادشاہ کے ملک کوضرور پامال کردیا جائے؛ چنانچہ لڑائیو کا سلسلہ جاری ہوا ہشام نے اس کے تمام ملک پرقبضہ کرلیا، عبداللہ اُشتر کی بیوی معہ اپنے لڑکے کے گرفتار ہوکر منصور کے پاس بھیجی گئی، منصور نے عبداللہ اُشتر کے لڑکے اور بیوی کومدینہ بھیج دیا کہ اُن کے خاندان والوں کے سپرد کردیئے جائیں۔