انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** شہدائے احد مسلمانوں کے ستر (۷۰) آدمی مارے گئے جن میں زیادہ تر انصار تھے ، اتنا کپڑا بھی نہ تھا کہ پردہ پوشی ہوسکتی، حضرت مصعبؓ بن عمیر کا پاؤں چھپایا جاتا تو سر کھل جاتا اور سر ڈھانکا جاتا تو پاؤں کھل جاتے آخر پاؤں از خر گھاس سے چھپائے گئے، شہداء بے غسل اسی طرح خون میں لتھڑے ہوئے دو دو ملا کر ایک قبر میں دفن کئے گئے، جس کو زیادہ قرآن یاد ہو تا اس کو مقدم کیا جاتا ، ان شہداء پر نماز جنازہ بھی اس وقت نہیں پڑھی گئی(یہ صحیح بخاری کی روایت ہے لیکن دوسری کتابوں میں بعض ایسی روایتیں بھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺنے حضرت حمزۃؓ پر تو خصوصیت کے ساتھ اور دوسرے شہداء پر بھی نماز جنازہ پڑھی،یہ شہداء ایک ایک کر کے اور بعض میں سے دس، دس کر کے لائے جاتے تھے اور آپﷺ ان پر نمازجنازہ پڑھتے جاتے تھے اور حضرت حمزہؓ کی لاش پر ہر جماعت کے ساتھ گویا ستّر دفعہ نمازاد ا کی گئی) ( سیرۃ النبی جلد اول) زخمیوں کی تعداد بھی ستر (۷۰) تھی۔ آنحضرت ﷺمدینہ شریف میں تشریف لائے تو تمام مدینہ ماتم کدہ تھا، جس طرف سے گذرتے تھے گھروں سے ماتم کی آوازیں آتی تھیں ، آپﷺ کو رنج ہوا کہ سب عزیز واقارب ماتم کررہے ہیں؛ لیکن حمزہؓ کا کوئی نوحہ خواں نہیں ہے ، رِقّت کے جوش میں آپﷺ کی زبان سے بے اختیار نکلا،" لیکن حمزہؓ کا کوئی رونے والا نہیں" انصار نے یہ الفاظ سنے تو تڑپ اٹھے ، سب نے جاکر اپنی بیویوں کو حکم دیا کہ دولت کدہ پر جاکر حضرت حمزہؓ کا ماتم کرو، حضور ﷺ نے دیکھا تو دروازہ پر پردہ نشینان انصار کی بھیڑ تھی اور حضرت حمزہؓ کا ماتم بلند تھا، آپﷺ نے ان کے حق میں دعائے خیر کی اور فرمایا : تمہاری ہمدردی کا شکر گذار ہوں؛ لیکن مردوں پر نوحہ کرنا جائز نہیں ، یہ رسم اسی دن سے بند کردی گئی اور فرمایا گیا کہ آج سے کسی مردہ پر نوحہ نہ کیا جائے ، بعدکو یہ بھی ارشاد ہواکہ اس طرح ماتم کرنا مسلمان کی شان نہیں۔ حضرت امیر معاویہؓ کے دورِ خلافت میں اُحد کے راستہ سے ایک نہر نکالی گئی، اس وقت شہدائے اُحد کے قبور کھولے گئے تو ان کی لاشیں ترو تازہ نکلیں، جب یہ نہر سید الشہدا ء حضرت حمزہؓ کے قدموں تک پہنچی تو پاؤں سے خون بہتا ہوا محسوس ہوا ، دامن اُحد میں دو حجرے تھے جن میں شہدائے اُحد کی قبریں تھیں ، حضرت حمزہؓ کی قبر ان سے الگ تھی، انہیں پہلے وادیٔ قناۃ کے جنوب میں سپرد خاک کیا گیا تھا، لیکن بار بار کے سیلاب کی وجہ سے دورعباسیہ میں موجودہ جگہ دفن کیا گیا، شہادت کے تین سو سال بعد جب دوسری بار قبر کھودی گئی تو لاش ترو تازہ تھی۔ مقتولین قریش: مقتولین قریش کی تعداد ابن ہشام نے (۲۲) بتلائی ہے جبکہ ابن سعد نے (۲۳) لکھی ہے ، شاہ مصباح الدین شکیل جنگ اُحد کے نتائج اور اثرات بتلاتے ہوئے لکھتے ہیں،" عام طور پر جنگ اُحد کا نتیجہ شکست بتلایا جاتا ہے، منافق تو اس درجہ گستاخ ہوئے کہ کہنے لگے،بدر کی فتح مندی اگر محمد (ﷺ ) کی توثیق رسالت کی نشانی تھی تو اُحد میں آپﷺ کے صاحب کی شکست کو کس سے تعبیر کیجئے گا" جنگ اُحد کا جائزہ لیتے ہوئے جنگی نقطہ نظر یا حربی اندازِ فکر صحیح نتائج اخذ کرنے میں مدد دے گا: ۱، کیا فاتح نے اپنے غلبہ سے کوئی فائدہ اٹھایا؟ ۲، کتنا مال غنیمت ملا؟ ۳، کتنے مجاہد اسیر ہوئے؟ ۴،کیا حریف ِ مخالف کو عسکری حیثیت سے تباہ و بر باد کر دیا گیا ؟ ۵، کیا ان کے حوصلے پست کرنے میں کامیاب ہوئے؟ ۶، کیا فاتح اس طرح میدان چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے؟ ۷، کیا مفتوح فاتح کا تعاقب کرتاہے؟ ۸، مسلمانوں کے دارالحکومت کو نقصان پہنچانے کا عزم کس حد تک کامیاب ہوا؟ اس میں سے ہر سوال کا جواب نفی میں ہے ، اسی میزان پر شکست اور فتح کو تول لیا جائے ، بے شک مسلمانوں کا جانی نقصان زیادہ ہوا ؛لیکن وہ سزا تھی حکمِ رسول سے بے اعتنائی کی، اسے غیرمفضل جنگ یعنی ہار جیت کے فیصلہ کے بغیر اختتام کہہ سکتے ہیں۔