انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** صغرِسنی میں سنی گئی روایات محدثین نے اس نکتہ پر بھی بحث اٹھائی ہے کہ چھوٹی عمر کے بچے کی روایت کیا معتبر ہے؟ روایت کرتے وقت وہ بیشک بیدار مغز اور ضابط ہے؛ لیکن جس دور کی سنی بات وہ ذکر کررہا ہے؛ اس وقت وہ بچہ تھا کیا اس وقت کی روایات اس سے لی جاسکتی ہیں؟ اس کا جواب ہاں میں ہے، صحابہؓ کی تومرسلات بھی حجت ہیں؛ گووہ جس دور کی روایت کررہے ہوں اس میں پیدا بھی نہ ہوئے ہوں؛ لیکن دوسرے صغرسن راویوں کی روایت بھی عندالتحقیق لائقِ قبول ہوگی؛ بشرطیکہ روایت کرنے کے وقت وہ پورے عادل اور ضابط ہوں، قواعد پرپوری نظر رکھتے ہوں، عہدِ جدید کے جولوگ حدیث سے جان چھڑانا چاہتے ہیں وہ اس نکتہ کوبہت اہمیت دیتے ہیں، ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ حدیث کاجوذخیرہ حضرت حسن (۵۰ھ)، حضرت عبداللہ بن عباس (۶۸ھ)، حضرت نعمان بن بشیر (۷۴ھ)، حضرت ابوسعید الخدری (۷۴ھ) اور حضرت انس بن مالک (۹۱ھ) جیسے اکابر سے مروی ہے اسے بیک جنبش قلم ایک طرف رکھ سکیں، ان حضرات کی عمریں آنحضرتﷺ کی وفات کے وقت بالترتیب ۸/سال، ۱۸/سال، ۱۰/سال، ۹/سال، ۱۹/سال اور ۱۹/سال کے قریب تھیں اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی صغر سنی تومعروف ہی ہے؛ ظاہر ہے کہ ان حضرات نے آنحضرتﷺ سے آپ کی وفات سے پانچ چھ سال پہلے سے جوروایات سنی ہوں گی ان کا تحمل روایت کس عمر میں کیا ہوگا؟ سواِن حضرات کی روایات کواگرصغر سنی کی بناء پر قابلِ قبول نہ سمجھا جائے تودین کا آخرکونسا حصہ امت کے پلے میں رہےگا۔ خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) نے الکفایہ میں اس پر سیرحاصل بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ راجح مذہب میں صغرسنی کی سنی گئی روایات حجت اور لائق قبول ہیں، محقق ابن ہمام (۸۶۱ھ) بھی فرماتے ہیں: "من شرائط الراوی کونہ بالغا حین الاداء وان کان غیربالغ وقت التحمل لاتفاق الصحابۃ وغیرھم علی قبول روایۃ ابن عباس وابن الزبیر والنعمان بن بشیر وانس بلااستفسار عن الوقت الذی تحملوا فیہ مایروونہ عن النبی "۔ (کما فی فتح الملہم:۱/۷۴) ہاں اہلِ کوفہ روایت حدیث میں بہت زیادہ محتاط واقع ہوئے ہیں، وہ اپنے بچوں کوپہلے حفظِ قرآن اور زہد وعبادت میں لگاتے اور جب محسوس کرتے کہ بچہ اب احترام حدیث کے لائق ہوچکا ہے تواسے تعلیم حدیث کے لیے بٹھاتے، خطیب بغدادی رقمطراز ہیں: "ان اھل الکوفۃ لم یکن الواحد منھم یسمع الحدیث الابعداستکمالہ عشرین سنۃ ویشتغل قبل ذلک بحفظ القرآن والتعبد"۔ (الکفایہ فی علوم الروایہ:۵۴) ترجمہ:اہلِ کوفہ میں سے ایک شخص بھی حدیث سننے کے لیے نہ بیٹھتا جب تک کہ بیس برس تک نہ پہنچ جاتا اور اس سے پہلے حفظِ قرآن اور زہد وعبادت میں وقت لگاتا۔ آنحضرتﷺ کے عہدِ مبارک میں صغر سن صحابہ نظر رسالت کے اثر اور آپ کی مجلس کی برکت سے ہی تقویٰ وتعبد کی وہ دولت پالیتے تھے جودوسرے نوجوانوں کوبیس برس کی عمرمیں بھی نہ ملتی تھی؛ سوبعد کے زمانوں میں اہل اللہ نے تعلیم حدیث کے لیے اگراسوقت بچے بٹھائے جب وہ حفظ قرآن اور تعبد اسلامی میں کافی آگے بڑھ چکے ہوں؛ تویہ اس لیے نہ تھا کہ وہ اس سے کم عمر میں حدیث کا سننا اور تحمل روایت ناجائز سمجھتے تھے؛ بلکہ یہ سب اہتمام محض احترام حدیث کے لیے تھا، ایک شدید احتیاط تھی جوان کے عمل میں کارفرماتھی، امام علی بن المدینی (۲۳۴ھ) فرماتے ہیں: ہم حضرت جریر کے پاس بیٹھے تھے کہ ہم نے سماع حدیث میں کچھ سخت شرائط لگانی شروع کردیں، آپ نے اس پر فرمایا "ءَانتم افقہ من ابن المبارک" ترجمہ:کیا تم حضرت عبداللہ بن مبارک سے زیادہ دین کی سمجھ رکھتے ہو؟۔ (الکفایہ فی علوم الروایہ:۶۷) اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ حضرت عبداللہ بن مبارک سماع حدیث کے لیے سخت شرائط اور کسی شدت کے قائل نہ تھے؛ نیزیہ بھی معلوم ہوا کہ صغرسنی کی روایت کا قبول ہونا یانہ ہونا اور تحمل روایت کے لیے کچھ شرطیں لگانا یانہ لگانا یہ سب باتیں فقہ کا موضوع ہیں اور اس میں جوفیصلہ بھی سامنے آئے گا اس میں اجتہاد ضرور کارفرما ہوگا، اس پہلو سے دیکھیں تواہلِ کوفہ کے عمل اور جمہور محدثین کے عمل میں اصولی طور پر کوئی تعارض نہیں ہے، نہ اہل کوفہ کم عمر میں روایت لینے کوناجائز سمجھتے تھے، ان کا عمل محض احتیاط اور مزید احترام کے پہلو سے تھا اور یہ بھی محض رواج کے طور پر تھا، حافظ ابونعیم فرماتے ہیں: "کان اہل الکوفۃ لایخرجون اولادھم فی طلب الحدیث صغاراً حتی یستکملوا عشرین سنۃ"۔ (الکفایہ فی علوم الروایہ:۵۵) رواج کی بات اپنی جگہ رہی عام فہم بات اس بحث میں یہ ہے کہ فہم حدیث کی صلاحیت جس عمر میں پیدا ہوجائے اس میں وہ سننے کے لائق ہوجاتا ہے، حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "ان الرد فی ذلک الی الفھم فیختلف باختلاف الاشخاص"۔ (فتح الباری:۱/۲۷۱) ترجمہ:اس باب میں بات فہم پر لوٹائی جائے گی اور وہ مختلف لوگوں میں مختلف درجے میں ہوتا ہے۔