انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** صیغہ عدالت اسلام میں صیغۂ قضاءا گرچہ عہد نبوت ہی میں قائم ہوگیا تھا، لیکن ابتداءمیں یہ صیغہ اورصیغوں کے ساتھ مخلوط تھا، چنانچہ آپ نے حضرت علی ؓ اورحضرت معاذ بنؓ جبل کو یمن کا عامل مقرر فرما کر بھیجا تو اورفرائض کے ساتھ یہ خدمت بھی ان کے متعلق کی،(ابوداؤد کتاب القضا) اور اس کے آئین واصول بتائے حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی مدتوں یہ خلط مبحث رہا؛ لیکن انہوں نے اپنے وسط خلافت میں اس صیغہ کو اورصیغوں سے الگ کردیا اورمستقل طورپر قضاۃ مقرر کرکے ان کی تنخواہیں مقرر کیں۔ (کنز العمال،جلد۳صفحہ ۱۷۵،۱۷۶) اصول وآئین عدالت اس باب میں سب سے مقدم چیز اصول وآئین عدالت کا منضبط کرنا تھا ،حضرت ابوبکرؓ کے زمانے تک یہ قاعدہ تھا کہ جب کوئی مقدمہ پیش ہوتا تھا تو پہلے قرآن مجید کی طرف پھر حدیث کی طرف رجوع کرتے تھے اورسب سے اخیر میں مسلمانوں سے مشورہ لیتے تھے ،اجتہاد اورقیاس کو بالکل دخل نہیں دیتے تھے۔ (دارمی،صفحہ ۳۲،۳۳) لیکن حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں جب تمدن کو زیادہ وسعت ہوئی تو انہوں نے قضاۃ کو اجماع اورقیاس سے بھی مدد لینے کی ہدایت کی لیکن قیاس کو سب سے موخر رکھا،(مسند دارمی ،صفحہ۳۴) اس لئے ساتھ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے نام آداب قضاءت کے متلعق ایک مفصل فرمان لکھا جو کنزالعمال اوردارقطنی میں، بلفظہ منقول ہے (کنزالعمال،جلد۳،صفحہ۱۷۴ اوردارقطنی،صفحہ۵۱۲) ، اس فرمان میں قضأت کے متعلق جو احکام مذکور ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔ (۱)قاضی کو تمام لوگوں کے ساتھ یکساں برتاؤ کرنا چاہئے۔ (۲)بارثبوت صرف مدعی پر ہے۔ (۳)مدعاعلیہ کے پاس اگر ثبوت شہادت نہیں ہے تو اس سے قسم لی جائے گی۔ (۴)فریقین ہر حالت میں صلح کرسکتے ہیں؛ لیکن جو امر خلاف قانون ہے اس میں صلح نہیں ہوسکتی ۔ (۵)قاضی خود اپنی مرضی سے مقدمہ کے فیصل کرنے کے بعد اس پر نظر ثانی کرسکتا ہے۔ (۶)مقدمہ کے پیشی کی ایک تاریخ مقرر ہونی چاہئے۔ (۷)اگر مدعا علیہ تاریخ معینہ پر حاضر نہ ہو تو مقدمہ اس کے خلاف فیصل کیا جائے گا۔ (۸)ہر مسلمان قابل ادائے شہادت ہے؛لیکن جو سزایا فتہ ہو یا جس کا جھوٹی گواہی دینا ثابت ہو وہ قابل شہادت نہیں۔ (۹)اخلاقی حیثیت سے قاضی کو غصہ کرنا اورگھبرانا نہیں چاہئے۔ آج اس تمدنی زمانے میں بھی عدالت کے اساسی قوانین یہی ہیں۔ قضاۃ کا انتخاب قضأت کے متعلق سب سے اہم کام قابل اور متدین احکام کا انتخاب تھا، صحابہ میں جو لوگ علم و فضل میں مسلم تھے، مثلا حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت عبادہ بن الصامتؓ،حضرت عبداللہؓ بن مسعود، ان کے انتخاب کے لئے صرف یہی کافی تھا کہ وہ خود منتخب روز گار تھے؛لیکن حضرت عمرؓ اورلوگوں کو عملی تجربہ اورذاتی امتحان کے بعد منتخب کرتے تھے، چنانچہ حضرت کعب بن سورازدیؓ جو بصرہ کے قاضی تھے ان کی تقرری کا واقعہ یہ ہے کہ وہ ایک بار حضرت عمرؓ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک عورت آئی اورکہا کہ میں نے اپنے شوہر سے بہتر آدمی نہیں دیکھا، وہ رات بھر نماز پڑھتا ہے اور دن بھر روزے رکھتا ہے ،حضرت عمرؓ نے عورت کی تعریف کی اوراس کے لئے استغفار کیا، وہ شرمندہ ہوکر چلی گئی تو حضرت کعبؓ نے کہا کہ اے امیر المومنین آپ نے عورت کا انصاف اس کے شوہر سے نہیں دلوایا ،وہ مستغیث ہوکر آئی تھی، اب حضرت عمرؓ نے اس کو بلوابھیجا اورکہا کہ یہ کہتے ہیں کہ تم کو یہ شکایت ہے کہ تمہارا شوہر تم سے تعلق نہیں رکھتا اس نے کہا سچ ہے ،حضرت عمرؓ نے اس کے شوہر کو بلوا بھیجا اورحضرت کعبؓ سے اصرار کیا کہ تمہیں نے اس مقدمہ کو سمجھا ہے اور تمہیں اس کا فیصلہ کرو، انہوں نے فیصلہ کیا تو اس قدر خوش ہوئے کہ ان کو بصرہ کا قاضی مقرر کردیا۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت کعب بن سورؓ) قضأت کی ذمہ داریوں کا احساس حدیث شریف میں آیا ہے۔ من ولی القضاء فقدذبح بغیر سکین جو شخص قاضی بنایا گیا وہ بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا۔ (ابوداؤد کتاب القضاء) اس حدیث کی بنا پر بعض صحابہ جو بہت زیادہ محتاط تھے وہ سرے سے عہدہ قضا ہی کو قبول نہیں کرتے تھے،چنانچہ حضرت عثمانؓ نے حضرت عبداللہ ؓبن عمرؓ کو قاضی مقرر کرنا چاہا تو انہوں نے صاف انکار کردیا، (مسند ابن حنبل،جلد۱صفحہ۶۶) لیکن جن صحابہ کو اس عہدے کے قبول کرنے سے انکار نہ تھا وہ بھی شدت کے ساتھ اس کی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے تھے،حضرت ابوالدرداؓ بیت المقدس کے قاضی تھے ،ایک بار انہوں نے لکھا کہ زمین کسی کو مقدس نہیں بناسکتی،انسان کو صرف اس کا عمل مقدس بناتا ہے،مجھے معلوم ہوا کہ تم طبیب (قاضی) مقرر کئے گئے ہو، اگر تم سے لوگ شفایاب ہوں تو کیا کہنا ورنہ اگر جعلی طبیب ہو تو کسی انسان کو مار کر دوزخ میں نہ داخل ہو،حضرت ابوالدردا پر اس خط کا یہ اثر پڑا کہ مقدمہ فیصل ہونے کے بعد فریقین واپس جاتے تھے تو احتیاطاً بلا کر دوبارہ اظہار لیتے تھے۔ (موطا امام مالک کتاب الاقضیر باب جامع القضاء) عدل وانصاف خلفاء مقدمات کے فیصل کرنے میں کسی قسم کی رعایت کو جائز نہیں رکھتے تھے ایک بار حضرت عمرؓ حضرت زیدبن ثابتؓ کے یہاں خود فریق مقدمہ بن کر آئے تو انہوں نے ان کو اپنے پاس بٹھا نا چاہا، لیکن انہوں نے کہا کہ یہ پہلا ظلم ہے جو تم نے کیا میں اپنے فریق کے ساتھ بیٹھوں گا۔ (کنزالعمال ،جلد۳صفحہ۱۷۴) ایک بار حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے یہاں ایک مہمان آیا اورانہوں نے اس کو کئی دن تک مہمان رکھا ؛لیکن ایک دن جب وہ فریق مقدمہ ہوکر آیا اوران کے سامنے حاضر ہوا،توبولے اب آپ تشریف لیجائے ہم فریق کو صرف فریق کے ساتھ ٹھہراسکتے ہیں۔ (کنز العمال ،جلد۳،صفحہ۱۷۲) ایک بار ایک یہودی اورایک مسلمان کا مقدمہ پیش ہوا،حضرت عمرؓ نے یہودی کے حق میں فیصلہ کیا تو وہ بے ساختہ بول اٹھا آپ نے انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا۔ (موطا امام مالک کتاب الاقضیہ باب الترغیب فی القضاء بالحق) رشوت ستانی کی روک ٹوک حضرت عمرؓ نے صیغہ عدالت قائم کیا تو رشوت ستانی کے انسداد کے لئے سخت بندشیں قائم کیں اورعام طورپر تمام حکام کو لکھ بھیجا۔ اجعلو الناس عند کم فی الحق سواء قریبھم کبعیدھم کقریبھم وایاکم والسرشی (کنز العمال،جلد۳،صفحہ ۱۷۴) انصاف میں تمام لوگوں کو برابر سمجھو،قریب و بعید میں فرق وامتیاز نہ کرو اوررشوت سے بچو۔ اس کے ساتھ قضاۃ کی بیش قرار تنخواہیں مقرر کیں اورقاعدہ مقرر کیا کہ جو شخص معزز اوردولتمند نہ ہو وہ قاضی نہ مقرر کیا جائے اس کی وجہ یہ تھی کہ دولت مند رشوت کی طرف راغب نہ ہوگا اوراور معزز آدمی پر فیصلہ کرنے میں کسی گلے، رعب و ادب کا اثر نہ پڑیگا۔ علانیہ رشوت خواری کے علاوہ بہت سی مخفی طریقے ہیں جن کے ذریعہ سے رشوت دی جا سکتی ہے،مثلا حکام کو اگر تجارت کی اجازت دی جائے تو وہ اس کے ذریعہ سے بہت کچھ ذاتی فوائد حاصل کرسکتے ہیں، ہدیہ بھی رشوت خواری کا ایک مہذب ذریعہ بن سکتا ہے اوربنتا ہے، حضر عمرؓ نے ان تمام طریقوں کا سد باب کیا ؛چنانچہ قاضی شتریح کو جب قضات کے عہدے پر مامور کیا تو فرمایا ۔ لا تشترولا تبع ولا ترتش (کنزالعمال ،جلد۳،صفحہ ۱۷۵) نہ کچھ خریدو،نہ کچھ بیچو اورنہ رشوت لو۔ ہدیہ کی طرف ایک واقعہ کے اثر سے ان کی توجہ مبذول ہوئی، ایک شخص معمولاً ہر سال ان کی خدمت میں اونٹ کی ایک ران ہدیۃ بھیجا کرتا تھا، ایک بار وہ فریق مقدمہ ہوکر دربار خلافت میں حاضر ہوا تو کہا کہ امیر المومنین !ہمارے مقدمہ کا ایسا دو ٹوک فیصلہ کیجئے جس طرح اونٹ کے ران کی بوٹیاں ایک دوسرے سے جدا کی جاتی ہیں، حضرت عمرؓ اس ناجائز اشارے کو سمجھ گئے اوراسی وقت تمام عمال کو لکھ بھیجا کہ ہدیہ نہ قبول کرو ؛کیونکہ وہ رشوت ہے۔ (کنز ل العمال جلد۳،صفحہ ۱۷۷) ماہرین فن کی شہادت مقدمات میں شہادت کی توثیق واعتبار کا ایک بڑا ذریعہ یہ ہے کہ ماہرین فن کی شہادت لی جائے یعنی جوامر کسی خاص فن سے تعلق رکھتا ہے، اس کے متعلق اس فن کے ماہرین کا اظہار لے کر فیصلہ کیا جائے، حضرت عمرؓ نے اس اصول پر نہایت کثرت سے عمل کیا،ایک بار حطیہ نے زبر قان بن بدر کی ہجو کہی اوراس نے دربار خلافت میں مقدمہ دائر کیا تو حضر عمرؓ نے پہلے حسان بن ثابتؓ سے مشورہ لیا اس کے بعد حطیہ کو سزادی۔ (اسدالغابہ تذکرہ زبرقان بن بدر) ایک بار ایک بیوہ عورت نے عدت کے دن گذارکے دوسرے شخص سےنکاح کرلیا؛لیکن وہ پہلے سے حاملہ تھی اس لیے دوسرےشوہر کے پاس ساڑھے چار مہینے کے بعد اس کے بچہ پیدا ہوا،حضرت عمرؓ کی خدمت میں معاملہ پیش ہوا تو انہوں نے زمانۂ جاہلیت کی پرانی عورتوں سے معلوم کیا اورانہوں نے اس کی ایک ایسی معقول وجہ بیان کی جس سے عورت بے قصور ثابت ہوئی ،اس لئے حضرت عمرؓ نے بچہ کو پہلے شوہر کی طرف منسوب کیا اور دونوں میاں بی بی سے کہا اس میں تمہارا کوئی قصور نہ تھا، ایک اورمقدمہ پیش ہوا جس میں دو شخص ایک بچے کے باپ ہونے کے مدعی تھے اس کی نسبت حضرت عمرؓ نے ایک قیافہ شناس سے معلوم کیا۔ (موطا امام مالک کتاب الاقضیۃ باب الشہادات) تحریری فیصلے اس زمانہ کے تمدن کے لحاظ سے اگرچہ مقدمات کا فیصلہ نہایت سادہ طورپر کیا جاتا تھا، اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تمام مقدمات کے فیصلے لکھے جاتے تھے؛ تاہم غور وغوض و جستجو سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے اہم مقدمات کے فیصلے لکھے جاتے تھے جو آئیندہ چل کر فریق مقدمہ کے کام آتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت رباب بن حذیفہؓ نے ایک عورت سے نکاح کیا اوراس کے بطن سے تین اولاد پیدا ہوئی، ان کے مرنے کے بعد حضرت عمروبن العاصؓ نے جوان کے عصبہ تھے ان تمام بچوں کو شام بھیج دیا اوروہ وہاں جاکر مرگئے ،ان کے بعد وراثت کے متعلق نزاع ہوئی تو حضرت عمرؓ نے عصبہ کو وارثت دلوائی اور تحریر لکھوادی جس میں تین شخص یعنی حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ ،حضرت زید بن ثابتؓ اورایک اورشخص کے دستخط بطور شاہد کے ثبت تھے؛ چنانچہ ایک موقع پر جب ان لوگوں میں نزاع ہوئی تو عبدالملک نے اسی تحریر کے مطابق فیصلہ کیا۔ (ابوداؤد کتاب الفرائض باب فی الولا) حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ اورحضرت عباس ؓ کے مقابلہ میں صفایائے نبوی کی نسبت جو فیصلہ کیا تھا وہ بھی ایک شخص کے پاس لکھا ہوا محفوظ تھا۔ (ابوداؤد کتاب الخراج والامارۃ باب فی صفایا رسول اللہ ﷺ) اخلاق کا اثر مقدمات پر مقدمات کی کثرت وقلت کو ایک بہت بڑا اخلاقی معیار قراردیا جاسکتا ہے، جس ملک جس قوم اورجس خاندان کی اخلاقی حالت نہایت پست ہوجاتی ہے، اس میں ذرا ذرسی بات پر نزاع ہوتی ہے، مقدمات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ہر معاملہ کی نسبت لوگ جھوٹی سچی شہادت دینے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں، چنانچہ ایک بار جب رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون لوگ بہتر ہیں تو آپ نے فرمایا۔ خیر امتی القرن الذین یلونی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم ثم یجی قوم نتبدی شھادۃ احدھم یمینہ وتبدی یمینہ شھادتہ (مسلم کتاب ) سب سے بہتر زمانہ میرا ہے ،پھر صحابہ کا پھر تابعین کا اس کے بعد ایک ایسی قوم پیدا ہوگی جو شہادت سے پہلے قسم کھائے گی،اور قسم سے پہلے شہادت دے گی۔ لیکن صحابہ کرام کے زمانہ تک جھوٹی شہادت ایک ایسا جرم خیال کی جاتی تھی کہ لوگ بچوں کو اس سے بچنے کی ہدایت کرتے تھے،اسی حدیث میں ہے۔ قال ابراھیم کانواینھوننا ونحن غلمان عن العھدوالشھادات ابراہیم کہتے ہیں کہ بچپن میں لوگ ہم کو شہادت (گواہی دینے سے)اورعہد سے منع کرتے تھے۔ ایک بار عراق کا ایک شخص حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اورکہا کہ میں ایک ایسے معاملہ کے لئے آیا ہوں جس کا نہ تو سر ہے نہ دم، ہمارے ملک میں جھوٹی شہادتوں کا رواج ہو چلا ہے، حضرت عمرؓ نے نہایت تعجب سے کہا کہ کیاایسا ہے۔ (موطا امام مالک کتاب الاقضیہ باب الشہادت) مقدمات کی قلت کا یہ حال تھا کہ حضرت سلمانؓ ربیعہ باہلی جو کوفہ کے قاضی تھے ان کی نسبت ابووائل کا بیان ہے، کہ میں مستقل چالیس دن تک ان کے پاس آتا جاتا رہا؛لیکن ان کے یہاں کسی فریق مقدمہ کو نہیں دیکھا۔ (اسدالغابہ تذکرہ سلمان بنؓ ربیعہ باہلی)