انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت جعفر طیار ؓ نام،نسب جعفر نام،ابوعبداللہ کنیت،والدکا نام عبدالمناف (ابوطالب) اوروالدہ کا نام فاطمہ تھا،شجرہ نسب یہ ہے جعفر بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم مبن عبدمناف بن قصی القرشی الہاشمی۔ آنحضرت ﷺ کے ابن عم اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ ؓ کے سگے بھائی تھے،اورعمر میں ان سے تقریبا دس سال بڑے تھے۔ اسلام آنحضرت ﷺ ایک روز حضرت علی ؓ کے ساتھ مشغول عبادت تھے،خاندان ہاشم کے سردارابوطالب نے اپنے دوعزیزوں کو بارگاہ صمدیت میں سربسجود دیکھا تو دل پرخاص اثرہوا، اپنے صاحبزادہ حضرت جعفر ؓ کی طرف دیکھ کر کہا، جعفر ؓ تم بھی اپنے ابن عم کے پہلو میں کھڑے ہوجاؤ، حضرت جعفر ؓ نے بائیں طرف کھڑے ہوکر نماز ادا کی،ان کو خدائے لایزال کی عبادت وپرستش میں ایسا مزہ ملا کہ وہ بہت جلد یعنی آنحضرت ﷺ کے زید بن ارقم ؓ کے گھر میں پناہ گزین ہونے کے قبل ہمیشہ کے لیے اس کے پرستاروں میں داخل ہوگئے ،اس وقت تک اکتیس بتیس آدمی اس سعادت سے مشرف ہوئے تھے۔ ہجرت حبش مشرکینِ مکہ کی ستم آرائیوں سے تنگ آکر جب مسلمانوں کی جماعت نے حبش کی راہ لی تو حضرت جعفرؓ بھی اس کے ساتھ ہوگئے؛ لیکن قریش نے یہاں بھی چین لینے نہ دیا، نجاشی کے دربار میں مکہ سے گراں قدرتحائف کے ساتھ ایک وفد آیا اوراس نے درباری پادریوں کوتائید پر آمادہ کرکے نجاشی سے درخواست کی کہ"ہماری قوم کے چند ناسمجھ نوجوان اپنے آبائی مذہب سے برگشتہ ہوکر حضور کے قلمرو ے حکومت میں چلے آئے ہیں، انہوں نے ایک ایسا نرالا مذہب ایجاد کیا ہے جس کو پہلے کوئی جانتا بھی نہ تھا، ہم کو ان کے بندگوں اوررشتہ داروں نے بھیجا ہے کہ حضور ان لوگوں کو ہمارے ساتھ واپس کردیں،درباریوں نے بھی بلند آہنگی کے ساتھ اس مطالبہ کی تائید کی،نجاشی نے مسلمانوں سے بلا کر پوچھا کہ وہ کون سانیا مذہب ہے جس کے لیے تم لوگوں نے اپنا خاندانی مذہب چھوڑدیا؟ حضرت جعفر ؓ کی دربارِ حبش میں اسلام پر تقریر مسلمانوں نے نجاشی سے گفتگو کے لیے اپنی طرف سے حضرت جعفر ؓ کو منتخب کیا،انہوں نے اس طرح تقریر کی :بادشاہ سلامت!ہماری قوم نہایت جاہل تھی،ہم بت پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے،بدکاریاں کرتے تھے،رشتہ داروں اورپڑوسیوں کو ستاتے تھے،طاقت ورکمزوروں کو کھاجاتا تھا، غرض! ہم اسی بدبختی میں تھے کہ خدا نے خود ہی ہماری جماعت میں سے ایک شخص کو ہمارے پاس رسول بنا کر بھیجا، ہم اس کی شرافت،راستی،دیانت داری اورپاکبازی سے اچھی طرح آگاہ تھے،اس نے ہم کو شرک وبت پرستی سے روک کر توحید کی دعوت دی،راست بازی، امانت داری، ہمسایہ اوررشتہ داروں سے محبت کاسبق ہم کو سکھایا اورہم سے کہا کہ ہم جھوٹ نہ بولیں،بے وجہ دنیا میں خونریزی نہ کریں،بدکاری اورفریب سے بازآئیں،یتیم کا مال نہ کھائیں،شریف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں،بت پرستی چھوڑدیں،ایک خدا پر ایمان لائیں، نماز پر پڑھیں،روزے رکھیں، زکوٰۃ دیں،ہم اس پر ایمان لائے اوراس کی تعلیم پرچلے ہم نے بتوں کو پوجنا چھوڑا،صرف ایک خدا کی پرستش کی،اورحلال کو حلال اورحرام کو حرام سمجھا، اس پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہوگئی، اس نے طرح طرح سے ظلم و تشدد کرکے ہم کو پھر بت پرستی اورجاہلیت کے برے کاموں میں مبتلا کرنا چاہا، یہاں تک کہ ہم لوگ ان کے ظلم و ستم سے تنگ آکر آپ کی حکومت میں چلے آئے۔ نجاشی نے کہا تمہارے نبی پر جو کتاب نازل ہوئی، اس کو کہیں سے پڑھ کر سناؤ، حضرت جعفر ؓ نے سورۂ مریم کی چند آیتیں تلاوت کیں تو نجاشی پر ایک خاص کیفیت طاری ہوگئی اس نے کہا خدا کی قسم !یہ اور تورات ایک ہی چراغ کے پرتو ہیں اورقریش کے سفیروں سے مخاطب ہوکر کہا واللہ! میں ان کو کبھی واپس جانے نہ دوں گا۔ سفرائے قریش نے ایک د فعہ پھر کوشش کی اور دوسرے روز دربار میں باریاب ہوکر عرض کیا حضور!کچھ یہ بھی جانتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق ان لوگوں کا کیاخیال ہے،نجاشی نے جواب دینے کے لیے مسلمانوں کو بلایا،ان لوگوں کو سخت تردد تھا کہ کیا جواب دیں حضرت جعفر ؓ نے کہا کچھ بھی ہو،خدا اوررسول نے جو کچھ بتایا ہے ہم اس سے انحراف نہیں کریں گے،غرض دربار میں پہنچا تو نجاشی نے پوچھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت تمہارا کیا اعتقاد ہے؟" حضرت جعفر ؓ نے کہا واللہ جو کچھ تم نے کہا عیسی بن مریم اس سے اس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں ہیں، یہ سن کر دربار کے پادری جو ابن اللہ کا عقیدہ رکھتے تھے،نہایت برہم ہوئے ،نتھنوں سے خرخراہٹ کی آوازیں آنے لگیں، لیکن نجاشی نے کچھ پرواہ نہ کی اورقریش کی سفارت ناکام واپس آئی۔ (مسند احمد :۱/۲۰۱ تا ۲۰۳) حبش سے مدینہ حضرت جعفر ؓ آنحضرت ﷺ کے مدینہ کی ہجرت کے چھ سال بعد تک حبشہ ہی میں رہے،۷ھ میں وہ حبش سے مدینہ آئے،یہ وہ زمانہ تھا کہ خیبر فتح ہوگیا تھا اور مسلمان اس کی خوشی منا رہے تھے کہ مسلمانوں کو اپنے دور افتادہ بھائیوں کہ واپسی کی دوہری خوشی حاصل ہوئی،حضرت جعفر ؓ سامنے آئے تو آنحضرت ﷺ نے ان کو گلے سے لگایا اورپیشانی چوم کر فرمایا، میں نہیں جانتا کہ مجھ کو جعفر کے آنے سے زیادہ خوشی ہوئی یا خیبر کی فتح سے۔ (طبقات ابن سعد ،جلد ۴ قسم اول صفحہ ۱۲۳ مختصراً بخاری ذکر غزوۂ خیبر میں ہے) حضرت جعفر ؓ کی واپسی کو ابھی ایک سال بھی گذرنے نہ پایا تھا کہ ان کے امتحان کا وقت آگیا۔ غزوۂ موتہ جمادی الاولیٰ ۸ھ میں موتہ پر فوج کشی ہوئی، آنحضرت ﷺ نے فوج کا علم حضرت زید بن حارثہ ؓ کو عطا کرکے فرمایا کہ"اگرزید شہیدہوں تو جعفر ؓ اوراگر جعفر ؓ بھی شہید ہوں تو عبداللہ ابن رواحہ ؓ،اس جماعت کے امیر ہوں گے،(بخاری کتاب لالمغازی باب غزوۂ موتہ)چونکہ حضرت جعفر ؓ اپنے مخصوص تعلقات کی بنا پر متوقع تھے کہ شرفِ امارت ان ہی کو حاصل ہوگا،اس لیے انہوں نے کھڑے ہوکر عرض کیا"یارسول اللہ!میراکبھی یہ خیال نہ تھا کہ آپ ﷺ زید ؓ کو مجھ پر امیر بنائیں گے،ارشاد ہوا اس کو جانے دو تم نہیں جان سکتے کہ بہتری کس میں ہے،(طبقات ابن سعد قسم اول :۳/ ۳۲) آنحضرت ﷺ اس غزوۂ کے انجام و نتیجہ سے آگاہ تھے،اس لیے فرمایا کہ اگر زید ؓ شہید ہوں تو جعفر علم سنبھالیں،اگروہ بھی شہید ہوں تو عبداللہ بن بن رواحہ ان کی جگہ لیں۔ (طبقات ابن سعد حصہِ مغازی غزوۂ موتہ) شہادت موتہ پہنچ کر معرکہ کارزار گرم ہوا،تین ہزار غازیان دین کے مقابلہ میں غنیم کا ایک لاکھ ٹڈی دل لشکر تھا،امیر فوجِ حضرت زید ؓ شہید ہوئے تو حضرت جعفر ؓ گھوڑے سے کود پڑے اورعلم کو سنبھال کر غنیم کی صفیں چیرتے ہوئے آگے بڑھے دشمنوں کا ہر طرف سے نرغہ تھا،تیغ وتبر،تیروسنان کی بارش ہورہی تھی یہاں تک کہ تمام بدن زخموں سے چھلنی ہوگیا،دونوں ہاتھ بھی یکے بعد دیگرے شہید ہوئے مگر اس جانباز نے اس حالت میں بھی توحید کے جھنڈے کو سرنگوں ہونے نہ دیا،(اسدالغابہ:۱/۲۸۸)بالآخر شہید ہوکر گرے تو عبداللہ بن رواحہ ؓ نے اوران کے بعد حضرت خالد سیف اللہ نے علم ہاتھ میں لیا اورمسلمانوں کو بچالائے۔ (طبقات ابن سعد حصہ مغازی،۱۲منہ) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اس جنگ میں شریک تھے، فرماتے ہیں کہ میں نے جعفر ؓ کی لاش کو تلاش کرکے دیکھا تو صرف سامنے کی طرف بچاس زخم تھے،تمام بدن کے زخموں کا شمار تو نوے سے بھی متجاوز تھا،(بخاری باب غزوۂ موتہ) لیکن ان میں سے کوئی زخم پشت پر نہ تھا۔ (بخاری باب غزوۂ موتہ) رسول اللہ ﷺ کا حزن وملال میدانِ جنگ میں جو کچھ ہورہا تھا،خدا کے حکم سے آنحضرت ﷺ کے سامنے تھے، چنانچہ آنے سے پہلے ہی آپ ﷺ نے حضرت جعفر ؓ وغیرہ کی شہادت کا حال بیان فرمادیا،اس وقت آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے اور روئے انور پر حزن و ملال کے آثار نمایاں تھے۔ (اسد الغابہ:۱/ ۲۸۸) حضرت جعفر ؓ کی اہلیہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ فرماتی ہیں کہ میں آٹا گوندھ چکی تھی،اور لڑکوں کو نہلا دھلا کر صاف کپڑے پہنارہی تھی کہ آنحضرت ﷺ تشریف لائے اورفرمایا جعفر ؓ کے بچوں کو لاؤ، میں نے ان کو حاضر خدمت کیا، تو آپ ﷺ نے آبدیدہ ہوکر ان کو پیار فرمایا، میں نے کہا میرے ماں باپ فداہوں،حضور آبدیدہ کیوں ہیں کیا جعفر اوران کے ساتھیوں کے متعلق کوئی اطلاع آئی ہے، فرمایا ہاں! شہید ہوگئے،یہ سن کر میں چیخنے چلانے لگی،محلہ کی عورتیں میرے ارد گرد جمع ہوگئیں، آنحضرت ﷺ واپس تشریف لے گئے،اورازواج مطہرات ؓ سے فرمایا کہ آلِ جعفر ؓ کا خیال رکھنا،آج وہ اپنے ہوش میں نہیں ہیں۔ (مستدرک حاکم :۳/۲۰۹) سیدہ جنت حضرت فاطمہ زہرا ؓ کو بھی اپنے عم محترم کی مفارقت کا شاید غم تھا، شہادت کی خبر سن کر بادیدہ ترواعماہ! واعماہ!کہتے ہوئے بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئیں،آنحضرت ﷺ نے فرمایا،بے شک!جعفر ؓ جیسے شخص پر رونے والیوں کو رونا چاہئے، آپ ﷺ کو عرصہ تک شدید غم رہا،یہاں تک کہ روح الامین نے یہ بشارت دی کہ"خدانے جعفر ؓ کو دو کٹے ہوئے بازوؤں کے بدلہ میں دو نئے بازو عنایت کیئے ہیں، جن سے وہ ملائکہ جنت کے ساتھ مصروفِ پرواز رہتے ہیں۔ (مستدرک حاکم :۳/۲۰۹) فضائل ومحاسن حضرت جعفر ؓ کشادہ دست وفیاض تھے،غرباءومساکین کو کھانا کھلانے میں ان کو خاص لطف حاصل ہوتا تھا،آنحضرت ﷺ ان کو ابوالمساکین کے نام سے یاد فرمایا کرتے تھے، حضرت ابوہرہرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں اکثر بھوک کے باعث پیٹ کو کنکروں سے دبائے رکھتا تھا، اورآیت یاد بھی رہتی تو اس کو لوگوں سے پوچھتا پھرتا، کہ شاید کوئی مجھ کو اپنے گھر لے جائے اورکچھ کھلائے،لیکن میں نے جعفر ؓ کو مسکینوں کے حق میں سب سے بہتر پایا،وہ ہم لوگوں (اصحاب صفہ) کو اپنے گھر لے جاتے تھے، اورجو کچھ ہوتا تھا، سامنے لاکر رکھ دیتے تھے،یہاں تک کہ بعض اوقات گھی یا شہد کا خال مشکیزہ تک لادیتے اور اس کو پھاڑ کر ہمارے سامنے رکھ دیتے اور ہم اس کو چاٹ لیتے تھے۔ (صحیح بخاری مناقب حضرت جعفر ؓ) حضرت جعفر ؓ کے فضائل ومناقب کا پایہ نہایت بلند تھا،خود آنحضرت ﷺ ان سے فرمایا کرتے تھے کہ"جعفر ؓ!تم میری صورت وسیرت دونوں میں مجھ سے مشابہ ہو،(صحیح بخاری مناقب حضرت جعفر ؓ)آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے سے پہلے جس قدر نبی گذرے ہیں ان کو صرف سات رفیق دیئے گئے تھے، لیکن میرے رفقائے خاص کی تعداد چودہ ہے، ان میں سے ایک جعفر ؓ بھی ہیں،(جامع ترمذی مناقب اہل بیت) حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ"رسول اللہ ﷺ کے بعد جعفر ؓ سب سے افضل ہیں،(جامع ترمذی مناقب حضرت جعفر ؓ) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ان کے صاحبزادہ کو سلام کرتے تو کہتے، السلام علیک یاابن ذی الجناحین،(صحیح بخاری غزوۂ موتہ) حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات میں حضرت علی ؓ سے کچھ مانگتا تو وہ انکار کردیتے ،لیکن جب اپنے والد جعفر ؓ کا واسطہ دیتا تو بغیر کچھ دیئے نہ رہتے ۔ ازواج واولاد بیویوں کی صحیح تعداد نہیں معلوم،آپ کی بیوی اسماء سے تین صاحبزادے تھے،عبداللہ،محمد اورعوف،ان میں صرف عبداللہ سے نسل چلی۔