انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابوبکرؓ کا خطبہ بیعت سقیفہ سے واپس آکر اگلے روز تجہیز و تکفین نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فارغ ہوکر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے منبر پر بیٹھ کر بیعت عامہ لی بعد ازاں کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا اورحمد ونعت کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا: ‘‘میں تمہارا سر دار بنایا گیا ہوں ؛حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں پس اگر میں نیک کام کروں تو تمہارا فرض ہے کہ میری مدد کرو اوراگر میں کوئی غلط راہ اختیار کروں تو فرض ہے کہ تم مجھ کو سیدھے راستے پر قائم کرو،راستی وراست گفتاری امانت ہے اوردروغ گوئی خیانت تم میں جو ضعیف ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے، جب تک کہ میں اس کا حق نہ دلوادوں اورتم میں جو قوی ہے وہ میرے نزدیک ضعیف ہے جب تک کہ میں اس سے حق نہ لے لوں تم لوگ جہاد کو ترک نہ کرنا، جب کوئی قوم جہاد ترک کردیتی ہے تو وہ ذلیل ہوجاتی ہے،جب تک کہ میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروں تو تم میری اطاعت کرو، جب میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کروں تو تم میرا ساتھ چھوڑ دو ؛کیونکہ پھر تم پر میری اطاعت فرض نہیں ہے۔ اس روز ۳۳ ہزار صحابہ کرام نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ بیعتِ صقیفہ کے بعد مدینہ منورہ اورمہاجرین وانصار میں اُس اختلاف کا نام ونشان بھی کہیں نہیں پایا گیا ،جو بیعت سے چند منٹ پیشتر مہاجرین وانصار میں موجود تھا، سب کے سب اُسی طرح شیر وشکر اورایک دوسرے کے بھائی بھائی تھے،یہ بھی ایک سب سے بڑی دلیل اس امر کی ہے، کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو براہ راست درس گاہ نبوی سے مستفیض ہوتے تھے پورے طورپر دین کو دنیا پر مقدم کرچکے تھے اور دنیا میں کوئی گروہ اورکوئی جماعت ان کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتی، جب اس بات پر غور کیا جاتا ہے کہ صحابۂ کرام میں سے ۳۳ ہزار صحابہ نے ایک دن میں بطیب خاطر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر تمام ملک عرب اور سارے مسلمانوں نے آپ کو خلیفہ رسول اللہ تسلیم کیا تو خلافت صدیقی سے بڑھ کر کوئی دوسرا اجماعِ امت نظر نہیں آتا۔