انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** روزہ چھوڑنے کی جائز صورتیں warning: preg_match() [function.preg-match]: Compilation failed: regular expression is too large at offset 34224 in E:\wamp\www\Anwar-e-Islam\ast-anwar\includes\path.inc on line 251. اسلام دین فطرت ہے ، وہ انسان کو اس کے طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا، اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے ، اس لئے اس نے روزہ رکھنے کی وجہ سے اگر نقصان یا مشقت کا اندیشہ ہو تو انہیں دوسرے دنوں میں قضاء کرنے اور فی الحال روزہ چھوڑنے کی اجازت دی ہے۔ حوالہ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة:۲۸۶) بند مندرجہ ذیل صورتوں میں روزہ کا چھوڑدینا جائز ہے۔ (۱)جب مریض کو روزہ کی وجہ سے نقصان کا اندیشہ ہو یا مرض کے بڑھ جانے یا مرض کی مدت کے لمبا ہونے کا اندیشہ ہو۔ حوالہ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَر (البقرة:۱۸۵) بند (۲)لمبا سفر کرنے والا مسافر ۔ حوالہ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَر (البقرة:۱۸۵) بند (۳) جسے اس قدر سخت بھوک یا پیاس لگے کہ اسے یہ گمان غالب ہو جائے کہاگر وہ روزہ نہیں توڑے گا تو ہلاک ہو جائے گا۔ حوالہ (۴)جب روزہ حاملہ عورت کیلئے یا پیٹ کے بچے کیلئے نقصان دہ ہو۔ حوالہ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ قَالَ أَغَارَتْ عَلَيْنَا خَيْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَغَدَّى فَقَالَ ادْنُ فَكُلْ قُلْتُ إِنِّي صَائِمٌ قَالَ اجْلِسْ أُحَدِّثْكَ عَنْ الصَّوْمِ أَوْ الصِّيَامِ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَضَعَ عَنْ الْمُسَافِرِ شَطْرَ الصَّلَاةِ وَعَنْ الْمُسَافِرِ وَالْحَامِلِ وَالْمُرْضِعِ الصَّوْمَ أَوْ الصِّيَامَ (ابن ماجه بَاب مَا جَاءَ فِي الْإِفْطَارِ لِلْحَامِلِ وَالْمُرْضِعِ ۱۶۵۷) بند (۵)جب روزہ دودھ پلانے والی کیلئے یا اس کے دودھ پینے والےبچے کیلئے نقصان دہ ہو ۔ حوالہ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ قَالَ أَغَارَتْ عَلَيْنَا خَيْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَغَدَّى فَقَالَ ادْنُ فَكُلْ قُلْتُ إِنِّي صَائِمٌ قَالَ اجْلِسْ أُحَدِّثْكَ عَنْ الصَّوْمِ أَوْ الصِّيَامِ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَضَعَ عَنْ الْمُسَافِرِ شَطْرَ الصَّلَاةِ وَعَنْ الْمُسَافِرِ وَالْحَامِلِ وَالْمُرْضِعِ الصَّوْمَ أَوْ الصِّيَامَ (ابن ماجه بَاب مَا جَاءَ فِي الْإِفْطَارِ لِلْحَامِلِ وَالْمُرْضِعِ ۱۶۵۷) بند (۶) حیض اور نفاس والی عورت کیلئے بھی روزہ چھوڑنا جائز ہے، بلکہ ان کیلئے تو روزہ چھوڑنا ضروری ہے ان کا روزہ ہی صحیح نہیں ہوتا۔ حوالہ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَضْحَى أَوْ فِطْرٍ إِلَى الْمُصَلَّى فَمَرَّ عَلَى النِّسَاءِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ النِّسَاء … أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ قُلْنَ بَلَى قَالَ فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا (بخاري بَاب تَرْكِ الْحَائِضِ الصَّوْمَ ۲ ( وَمِنْهَا الطَّهَارَةُ عَنْ الْحَيْضِ ، وَالنِّفَاسِ فَإِنَّهَا شَرْطُ صِحَّةِ الْأَدَاءِ بِإِجْمَاعِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ (بدائع الصنائع فَصْلٌ شَرَائِطُ انواع الصيام: ۱۷۰/۴)۔ بند (۷) انتہائی ضعیف اور کمزور بوڑھے کیلئے جو بڑھاپے کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا ایسے شخص پر قضاء بھی نہیں ہے ، بلکہ اس کے ذمہ فدیہ ہے۔ حوالہ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ إِذَا عَجَزَ الشَّيْخُ الْكَبِيرُ عَنِ الصِّيَامِ أَطْعَمَ عَنْ كُلِّ يَوْمٍ مُدًّا مُدًّا (دار قطني باب الإِفْطَارِ فِى رَمَضَانَ لِكِبَرٍ أَوْ رَضَاعٍ أَوْ عُذْرٍ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ ۲۳۹۹) بند (۸)نفل روزہ رکھنے والے کیلئے بغیر کسی عذر کے روزہ توڑنا جائز ہے اور دوسرے دن میں اس پر اس کی قضاء کرنا جائز ہے۔ حوالہ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كُنْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ صَائِمَتَيْنِ فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَدَرَتْنِي إِلَيْهِ حَفْصَةُ وَكَانَتْ ابْنَةَ أَبِيهَا فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا صَائِمَتَيْنِ فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ قَالَ اقْضِيَا يَوْمًا آخَرَ مَكَانَهُ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي إِيجَابِ الْقَضَاءِ عَلَيْهِ ۶۶۷) بند (۹)جو شخص دشمن کے مقابلہ میں ہو اس کیلئے بھی روزہ چھوڑنا جائز ہے۔ حوالہ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَرَأَى زِحَامًا وَرَجُلًا قَدْ ظُلِّلَ عَلَيْهِ فَقَالَ مَا هَذَا فَقَالُوا صَائِمٌ فَقَالَ لَيْسَ مِنْ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِي السَّفَرِ (بخاري بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ ظُلِّلَ عَلَيْهِ وَاشْتَدَّ الْحَرُّ ۱۸۱۰) تَبَيَّنَ مِنْ رِوَايَة جَعْفَر بْن مُحَمَّد عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِر أَنَّهَا غَزْوَة الْفَتْح (فتح الباري ۲۰۲/۶) بند مسئلہ: جس کے ذمہ قضا ہو اس کو قضا کرنے میں جلدی کرنا مستحب ہے، لیکن اگر قضا کرنے میں تاخیر کردے تو بھی جائز ہے، قضاء روزے مسلسل رکھنا یا متفرق طور پر رکھنا (جيسی سہولت ہو) دونوں طرح جائز ہے۔ اور اگر قضا کو مؤخر کردے یہاں تک کہ دوسرا رمضان آجائے تو ادا کو قضا پر مقدم کرے اور اس قضا میں تاخیر کی وجہ سے کفارہ واجب نہ ہوگا۔ حوالہ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَر (البقرة:۱۸۵) عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ قَالَ :بَلَغَنِى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم سُئِلَ عَنْ تَقْطِيعِ قَضَاءِ صِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ فَقَالَ :« ذَلِكَ إِلَيْكَ أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَى أَحَدِكُمْ دَيْنٌ فَقَضَى الدِّرْهَمَ وَالدِّرْهَمَيْنِ أَلَمْ يَكُنْ قَضَاءً؟ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ يَعْفُوَ أَوْ يَغْفِرَ ». قَالَ عَلِىٌّ :إِسْنَادُهُ حَسَنٌ إِلاَّ أَنَّهُ مُرْسَلٌ (السنن الكبري للبيهقي باب قَضَاءِ شَهْرِ رَمَضَانَ إِنْ شَاءَ مُتَفَرِّقًا وَإِنْ شَاءَ مُتَتَابِعًا ۸۵۰۳)عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ كَانَ يَكُونُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقْضِيَ إِلَّا فِي شَعْبَانَ قَالَ يَحْيَى الشُّغْلُ مِنْ النَّبِيِّ أَوْ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (بخاري بَاب مَتَى يُقْضَى قَضَاءُ رَمَضَانَ ۱۸۱۴) عن أبي هريرة قال إن إنسانا مرض في رمضان ثم صح فلم يقضه حتى أدركه شهر رمضان آخر فليصم الذي أحدث ثم يقضي الآخر(مصنف عبد الرزاق باب المريض في رمضان وقضائه ۲۳۴/۴) ويندب تعجيل القضاء إبراء للذمة ومسارعة إلى إسقاط الواجب (الفقه الاسلامي وادلته ووقت قضاء رمضان ۱۰۸/۳) بند