انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جہنم کی غذا سے عبرت امام احمد بن حنبلؒ امام احمد بن حنبل فرمایا کرتے تھے مجھے خوف(جہنم)کھانے پینے سے روک لیتا ہے جس کی وجہ سے مجھے کھانے کی خواہش ہی نہیں ہوتی۔ حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ کے پاس شام کا کھانا لایا گیا آپ نے روزہ رکھا ہوا تھا پس انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ إِنَّ لَدَيْنَا أَنْکَالًا وَجَحِيمًا ، وَطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَعَذَابًا أَلِيمًا (المزمل:۱۲،۱۳) (ترجمہ)بلاشبہ ہمارے پاس بیڑیاں ہیں اور دوزخ ہے اور گلے میں پھنس جانے والا کھانا ہے اور دردناک عذاب ہے بس اس کے بعد روتے ہی رہے یہاں تک کہ ان کے سامنے سے کھانا اٹھا لیا گیا اورانہوں نے کھانا نہ کھایا جبکہ وہ روزہ دار تھے۔ (جوزجانی) دوبزرگوں کی حکایت حضرت حسن بصری فرماتے ہیں ایک آدمی دوسرے کو ملا اور اسے کہا اے فلاں میں تجھے دیکھتا ہوں کہ تیرارنگ اڑچکا ہے اورجسم کمزور ہوچکا ہے ایسا کیوں ہے؟ تو دوسرے نے پہلے سے پوچھا کہ میں بھی تجھے ایسا ہی دیکھتا ہوں یہ کیوں ہے؟تو اس نے بتلایا میں تین روز سے مسلسل روزہ کی حالت میں ہوں جب میرے سامنے شام کا کھانا لایا جاتا ہے تو یہ آیت میرے سامنے آجاتی ہے: وَيُسْقَى مِنْ مَاءٍ صَدِيدٍ،يَتَجَرَّعُهُ وَلَا يَکَادُ يُسِيغُهُ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَکَانٍ وَمَا هُوَ بِمَيِّتٍ وَمِنْ وَرَائِهِ عَذَابٌ غَلِيظٌ (ابراھیم:۱۶،۱۸) (ترجمہ)اس کو(دوزخ میں)ایسا پانی پینے کو دیا جائے گا جو کہ پیپ (لہو کے مشابہ) ہو گا جس کو(غایت تشنگی کی وجہ سے) گھونٹ گھونٹ کر کے پیےگا اور(غایت حرارت وکراہت کی وجہ سے)گلے سے آسانی کے ساتھ اتارنے کی کوئی صورت نہ ہوگی اور ہر(چہار)طرف سے اس پر(سامان)موت کی آمد ہوگی اور وہ کسی طرح مرے گا نہیں(بلکہ یوں ہی سسکتارہے گا اور پھر) یہ بھی نہیں کہ یہی عذاب مذکور ایک حالت پر رہے گا؛بلکہ) اس شخص کو اور(زیادہ) سخت عذاب کا سامنا(برابر)ہوا(کرے گا(جس سے عادت پڑنے کا احتمال ہی نہیں ہوسکتا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا جب ان کا ایک چمڑا جل جائے گا تو ہم انہیں دوسرا چمڑا پہنادیں گے) بس اس خوف کی وجہ سے ہمت نہیں ہوتی کہ میں شام کا کھانا کھاسکوں پس اس حالت میں صبح ہوجاتی ہے اور میں روزہ رکھ لیتا ہوں مجھے اس حالت میں تین دن گذرچکے ہیں اور تین دن سے روزہ میں ہوں دوسرے نے بھی یہی وجہ بیان کی۔ (ابن ابی الدنیا) حضرت حسن بصریؒ خلید بن حسان فرماتے ہیں حضرت حسن بصریؒ نے روزہ کی حالت میں شام کی اور ان کے پاس شام کا کھانا لایا گیا تو ان کے سامنے یہ آیت آگئی : إِنَّ لَدَيْنَا أَنْکَالًا وَجَحِيمًا،وَطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَعَذَابًا أَلِيمًا (المزمل:۱۲،۱۳) (ترجمہ)ہمارے پاس بیڑیاں اور جہنم(کاعذاب ہے)اورطعام ہے گلے میں اٹکنے والا اور دردناک عذاب ہے۔ توانہوں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اورفرمایا کھانا اٹھا لوپھر صبح کو انہوں نے(دوبارہ)روزہ رکھ لیا جب شام ہوئی تو افطاری کا سامان ان کے پاس لایا گیا تو پھر مذکورہ آیت ان کے سامنے آگئی تو پھر آپ نے فرمایا اسے اٹھا لو ہم نے عرض کیا اے ابو سعید(اگر آپ نے کھانا نہ کھایا تو)ہلاک یا ضعیف ہوجائیں گے پھر آپ نے تیسرے روز بھی (بغیر کھائے پئے)روزہ رکھ لیا پس ان کے صاحبزادےحضرت یحیی البکاءاورثابت البنانیؒ اور ریزید النصبیؒ کے پاس گئے اور کہا میرے والد کو سنبھالیں وہ تو ایسی حالت میں پہنچ چکے ہیں کہ شاید)ہلاک ہونے والے ہیں تو وہ سب بزرگ انہیں ستو کے ساتھ پانی پلاتےرہے. (تاکہ انہیں طاقت آجائے)۔ حضرت عطاء سلمیؒ صالح المریؒ حضرت عطا سلمیؒ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا جب جہنم کو یاد کرتا ہوں تو نہ تو میرے حلق سے کھانا اترتا ہے نہ پانی۔ (امام احمد بسندہ) مرجی بن ودعا کہتے ہیں میں صالح مری کے ساتھ چلا اور عطا سلمی کے پاس پہنچے ہم نے انہیں عرض کیا کہ آپ نے کھانا پینا کیوں چھوڑدیا ہے؟فرمایا جب میں دوزخیوں کا پیپ کا کھانا یاد کرتا ہوں تو میں اس کھانے کو نگل نہیں سکتا۔ (عبداللہ بن احمد) حضرت رباحؒ عبدالمومن السائع فرماتے ہیں میں نے حضرت رباح القیسی کی اپنے گھر پر ایک رات دعوت کی تو وہ میرے پاس سحری کے وقت آئے پس میں نے جب کھانا ان کے قریب کیا تو انہوں نے اس سے تھوڑا سا کھایا تو میں نے انہیں کہا اور کھائیے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ابھی سیر نہیں ہوئے تو انہوں نے ایک ایسی چیخ ماری جس نے مجھ میں گھبراہٹ پیدا کردی اورکہا میں دنیا کے دنوں میں کیسے سیر ہوکر کھاسکتا ہوں جبکہ زقوم درخت کا کھانا جو گناہ گار کا ہے میرے سامنے ہو ، عبدالمومن فرماتے ہیں میں نے ان کے سامنے سے کھانا اٹھا لیا اور انہیں کہا آپ اس حالت میں ہیں تو ہم دوسری حالت (امید)میں ہیں۔ (ابن ابی الدنیا) حضرت حبابہؒ حضرت عبید اللہ بن ولید تیمی حضرت حبابہ تیمیمہؒ کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے ان کے سامنے گھی روٹی اورشہد پیش کیا تو انہوں نے فرمایا اے حبابہ آپ اس بات سے نہیں ڈرتیں کہ یہ کھانا بعد میں جھاڑ کانٹے(جہنم کا کھانا)بن جائے ابو سعید(اس بات کے راوی) کہتے ہیں اس بات کے بعد وہ بھی روتے رہے اوروہ بھی روتی رہیں یہاں تک کہ وہ اٹھ کھڑے ہوئے اورکچھ بھی نہ کھایا۔ (ابن ابی الدنیا) حضرت عمر بن درہم سوار بن عبداللہ فرماتے ہیں ہم ایک سفر میں عمر بن درھم کے ساتھ کسی ساحل سمندر پر رہ رہے تھے اوریہ کھانا نہیں کھاتے تھے مگر سحری سے سحری کے وقت پس ہم ان کے پاس کھانا لائے جب انہوں نے لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھایا تو کسی تہجد پڑھنے والے سے یہ آیات پڑھتے ہوئے سنا۔ إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ ، طَعَامُ الْأَثِيمِ ، کَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ ، کَغَلْيِ الْحَمِيمِ (الدخان:۴۳،۴۵) (ترجمہ)بے شک زقوم کا درخت بڑے مجرم (یعنی کافر)کاکھانا ہوگا۔ جو(صورت کے مکروہ ہونے میں)تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا(اور)وہ پیٹ میں ایسا کھولے گا جیسے تیز گرم پانی کھولتا ہے،تو ان پر غشی طاری ہوگئی اورہاتھ سے لقمہ گرپڑا اورکہیں طلوع فجر کے بعد جاکر ہوش آیا اسی حالت پر یہ سات روز تک رہے کہ کچھ بھی نہیں کھاتے جب بھی ان کے پاس کھانا لایا جاتا یہ آیت سامنے آجاتی اوراٹھ جاتے تھوڑا سا بھی نہ کھاتے تھے یہ حالت دیکھ کر ان کے شاگردان کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ سبحان اللہ آپ اپنے آپ کو قتل کرنا چاہتے ہیں بس وہ برابر ایسی بات کہتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے کچھ کھانا شروع کردیا۔ (ابن ابی الدنیا) حضرت طاؤسؒ مشہور محدث مفسر حضرت طاوسؒ کے(آنے جانے کے دو راستے تھے جب وہ مسجد سے لوٹتے تھے،ان میں سے ایک راستہ میں سریاں بھوننے والے کی دوکان تھی،جب وہ نماز مغرب کے بعد واپس لوٹتے اور وہ راستہ اختیار فرماتے جس میں سریاں بھوننے والا بیٹھتا تھا تو وہ شام کا کھانا نہیں کھاتے تھے، تو انہیں عرض کیا گیا تو آپ نے فرمایا جب سروں کو بھونا ہوا دیکھتا ہوں تو مجھ میں ہمت نہیں ہوتی کہ کھانا کھاؤں،ان کی یہ حکایت حضرت امام مالکؒ نے بیان فرمائی اور امام مالک نے فرمایا ان کی یہ حالت فرمان خداوندی : وَهُمْ فِيهَا کَالِحُونَ (المومنون:۱۰۴)کی وجہ سے ہوتی تھی۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ایک مرتبہ ٹھنڈا پانی پیا اور روپڑے اور رونا بھی تیز ہوگیا تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو کیا شئے رلارہی ہے؟تو فرمایا مجھے کتاب اللہ کی یہ آیت یاد آگئی :وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ (سباء:۵۴) (ترجمہ)اوران میں اوران کی آرزو میں ایک آڑکردی جائے گی(یعنی آرزو پوری نہ ہوگی) مجھے معلوم ہے کہ دوزخی کی خواہش ٹھنڈے پانی کی(بھی)ہوگی جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: أَفِيضُوا عَلَيْنَا مِنَ الْمَاءِ أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ (الاعراف:۵۰) (ترجمہ) (دوزخ والے جنت والوں کو پکاریں گے کہ ہم پر تھوڑا سا پانی ہی(خدا کے واسطے)ڈالدو(شاید کچھ تسکیں ہوجائے یا اور ہی کچھ دیدو جو اللہ تعالی نے تم کو دے رکھا ہے(جنت والے کہیں گے کہ اللہ تعالی نے دونوں چیزوں کی(یعنی جنت کے کھانے اورپینے کی) کافروں کے لئے بندش کر رکھی ہے)۔ (ابن ابی الدنیا) حضرت حسن بصریؒ سلام بن ابی مطیعؒ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصریؒ کے پاس پانی سے بھرا ایک کوزہ لایا گیا تاکہ وہ روزہ افطار کریں جب انہوں نے اسے اپنے منہ کے قریب کیا تو رونے لگے اور فرمایا میں نے دوزخ والوں کی آرزویاد کرلی تھی کہ وہ (جہنم میں) پانی اور کچھ رزق کی آرزو کریں گے اور یہ بھی یاد کیا کہ انہیں یہ جواب دیا جائے گاکہ اللہ تعالی نے ان دونوں چیزوں کو کافروں پر حرام فرمادیا ہے۔ عبدالملک بن مروانؒ عبدالملک بن مروان(بادشاہ)کی بات ہے کہ انہوں نے ٹھنڈا پانی پیا اور درمیان ہی میں چھوڑدیا اور رونے لگے انہیں پوچھا گیا اے امیر المومنین کس بات نے آپ کو رلایا ہے؟تو فرمایا روزقیامت میں پیاس کی سختی کو یاد کرلیا تھا اور دوزخ والوں کو اوران کے ٹھنڈے پانی سے روکے جانے کو بھی یاد کرلیا تھا پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی : يَتَجَرَّعُهُ وَلَا يَکَادُ يُسِيغُهُ (ابراھیم:۱۷) (یعنی)دوزخی کو دوزخ میں ایسا پانی پینے کو دیا جائے گا جو کہ پیپ لہو(کہ مشابہ ہوگا)جس کو(غایت تشنگی کی وجہ سے گھونٹ گھونٹ کر کے پیے گا اور(غایت حرارت وکراہت کی وجہ سے)گلے سے آسانی کے ساتھ اتارنے کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ حضرت ابراہیم نخعیؒ حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں میں نہیں پڑھتا یہ آیت مگر میں ٹھنڈے پانی کو یاد کرتا ہوں پھر یہ آیت پڑھی۔ وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ (سبا:۵۴) ان میں اوران کی آرزو کے درمیان رکاوٹ کردی جائے گی(یعنی دوزخ والوں کی کوئی آرزو اور خواہش پوری نہ ہوگی ہمیشہ عذاب میں گرفتار رہیں گے) محمد بن مصعبؒ عابد محمد بن مصعب عابد نے پانی طلب فرمایا اورٹھنڈک کی آواز سنی تو چیخ نکل گئی اوراپنے نفس کو فرمایا تیرے لئے آگ میں ٹھنڈک کہاں سے آئے گی پھر یہ آیت پڑھی۔ وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ کَالْمُهْلِ (الکہف:۲۹) (ترجمہ)اور اگر یہ(پانی کی)فریاد کریں گے تو پیپ جیسے پانی سے ان کی فریاد رسی کی جائے گی۔