انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** بغاوتوں کے اسباب اندلس کی ان پہیم اور مسلسل بغاوتوں کا کوئی خاص سبب ہم کو ضرور تلاش کرنا چاہیے جنہوں نے امیر عبدالرحمن کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا اس میں شک نہیں کہ اندلس میں کچھ اسی قسم کےلوگ جمع ہوگئے اور اندلس کی تمام اسلامی آبادی کامزاج کچھ ایسا واقعہ ہوا تھا کہ وہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے رقیب تھے اور ساتھ ہی کسی کے زیر حکومت رہنا نہیں چاہتے تھے ،موجودہ حاکم چونکہ ایک غریب الوطن شخص تھا جس کے خاندان کی حکومت وعظمت مشرق میں تباہ ہوچکی تھی ،لہذا وہ امیر عبدالرحمن کی حکومت کو بھی دیر تک رکھنے کے خلاف تھے یہ تو وہ اسباب ہیں جن کا اس سے پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے اور بالکل پیش پاافتادہ ہیں لیکن اس کے سوا ایک اورسبب خص بھی ہے،اور درحقیقت عبدالرحمن کی پریشانیوں اور مصیبتوں کا اصلی سبب وہی ہے عباسی خلفاء جنہوں نے بغداد کو اپنا دارالخلافہ بنالیا تھا امیر عبدالرحمن سے فاصلے پر تھے ان کی حدود حکومت اور مک اندلس کےدرمیان سمندر حائل تھا۔ وہ عبدالرحمن کی حکومت اور طاقت کے حالات کو تو سنتے تھے لیکن دور دراز فاصلے پر اس کا کچھ بگاڑ نہ سکتے تھے ،عباسیوں نے دو مرتبہ فوج کشی کی اور ان دونوں مرتبہ ان کے سپہ سالار وں کو موت کے گھاٹ اتارنا اور عباسی مہم کو ذلت کے ساتھ ناکام رہنا نصیب ہوا علویوں کی سازشوں اورممالک مشرقیہ کی پیچیدگیوں نے ان کو فوجی مہم کے اور زیادہ تجربہ کرنے کا موقعہ نہیں دیااور اس معاملہ میں ان کی ہمت پست ہوگئی لیکن انہوں نے عبدالرحمن بن معاویہ کی مخالفت میں اسی سازشی طریقہ کو استعمال کیا جس کو وہ بنو امیہ کی بربادی اور خلافت دمشق کا تختہ الٹنے میں استعمال کرچکے تھے ،انہوں نےخفیہ ریشہ دوانیوں کے ذریعے ملک اندلس کے عرب قبائل اور غدارانہ خصائل رکھنے والے بربریوں میں عباسیوں کی حمایر اور خلافت عباسیہ کی اعانت پر آمادہ کرنے کا اشاعتی سلسلہ جاری کیا ،غیر معلوم اور غیر محسوس طریقہ پر عباسی مناد اندلس میں آنے جانے اورانواع واقسام کے طریقوں سے اپنا کام کرنے لگے، اسطرح اکثر عرب سردار اور بربری نومسلم امیر عبدالرحمن ککی حکومت مٹانے اور عباسی خلیفہ کی نگاہ میں اپنی عزت بڑھانے کے لیے مستعد ہوگئے ان لوگوں نے بار بار بغاوتیں کیں اور خود ہی نقصانات اٹھائے،کیونکہ دربار بغداد سے کوئی فوجی امداد اندلس کے باغیوں کو نہیں بھیجی جاسکتی تھی۔ اندلس کے ان ناقابت اندیش باغیوں اور سرکش سرداروں نے ایک طرف امیر عبدالرحمن کو ملک کی بغاوتیں فرو کرنے کے کام میں الجھائے رکھا اور دوسری طرف ایسٹریا س کے عیسائیوں کو جن کا ذکر اوپر آچکا ہے اور جو جبل البرتات میں اپنی ایک چھوٹی سی عیسائی ریاست قائم کرچکے تھے اس وسیع فرصت میں اپنی طاقت بڑھانے اور دامن کوہ اور پہاڑ کے علاقے میں اپنی محدود حکومت کو وسیع کرنے کا موقع مل گیا ،اوپر بیان ہوچکا ہے کہ جس سال عندالرحمن بن معاویہ نے اندلس میں قدم رکھا ہے اسی سال عیسائی ریاست کے حاکم الفانسو کا انتقال ہوگیا تھا ،الفانسو کی جگہ اس کا بیما فردلیذ یافرد یا علی رائی ریاست کا حاکم بن گیا تھا فردیلہ نے اپنی ریاست کے حدود بڑھائے ،عیسائیوں کو اپنے گرد جمع کرنےاور اپنا ہمدرد بنانے اور آئندہ کے لیے ترقیات کے منصوبے سوچنے کا خوب موقعہ پایا ،ادھر جنوبی فرانس کا صوبہ جو مسلمانوں کے قبضے میں تھا اس کی طرف متوجہ ہونے اور وہاں کے مسلمانوں کو امداد پہنچانے کا دربار قرطبہ کو موقع ہی نہیں ملا کیونکہ اگر اس طرف فوجیں بھیجی جاتیں اور فرانسیسیوں سے سلسلہ جنگ شروع کیاجاتا تو ملک اندلس کا بچانا امیر عبدالحمن کے لیے محال تھا ۔ اب جب کہ عباسیوں کے ہمدردوں نے آئے دن بغاوتیں شروع کردیں تو فراسیسیوں نے شہر ناربون پر حملہ کرکے اس کا محاصصرہ کرلیا ،چھ سال تک بلا امداد غیرے شہر ناربون کے مسلمانوں نے فراسیسی فوجوں کا مقابلہ جاری رکھا اور آخر نتیجہ یہ نکلا کہ چالیس سال سے میادہ جنوبی فرانس مسلمانوں کے قبضہ میں رہنے کے بعد پھر فرانسیسیوں کے قبضے میں چلاگیا۔ خلیفہ بغداد کےسپہ سالار عبدلرحمن بن حبیب کے مارے جانے کے بعد ملک فرانس میں جولوگ عباسی سازش کے مؤید وہمدرد تھےان میں حسین بن عاصی اور سلیمان بن یقظان خاص طور پر قابل تذکرہ ہیں ،یہ دونوں سرقسطہ اور اس کے نواح میں عامل وحکمران تھے ،شہر سرقسطہ جبل البرتات کے جنوبی دامن میں تھا ،ان دونوں نے خلیفہ مہدی عباسی سے خط وکتابت کی،خلیفہ مہدی برا نیک اور باخدا خلیفہ تھا،مگر یہ انسانی فطرت کا تقاضہ تھا کہ اس کو بنو امیہ سے نفرت اور عبدالرحمن کے اندلس میں برسر ماتحت ہونے سے ملال تھا ،دربار بغداد سے ان لوگوں کی ہمت افزائی ہوئی اور ان دونوں نے فرانس کے بادشاہ شارلیمین سے خط وکتابت کرکے اس کو ملک اندلس پر حملہ کرنے کی ترغیب دی اور یہ بھی بتایا کہ خلیفۃ المسلمین مہدی عباسی جو تمام عالم اسلام کے دینی ودنیوی پیشوا ہیں ان کا بھی یہی منشاء ہے کہ عبدالرحمن او راس کی حکومت کو مٹادیا جائے،لہذا ہم اور اکثر مسلمانان اندلس آپ کے شریک حال اور ہر طرح معاون ومددگار ہیں،شارلمین کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی زرین موقع اندلس کی فتح کا نہ ہوسکتا تھا اور اندلس کی فتح سے بڑھ کر کوئی دوسرا کارنامہ اس کی شہرت وعظمت کے لیے ممکن نہ تھا،مگرو ہ صوبہ اربونیہ اور شہر ناربون کے مٹھی بھر بےیار ومددگارمسلمانوں کی ہمت واستقلال اور شجاعت وبہادری سے خوب واقف تھا اسلیے اس نے اندلس پر حملہ کرنے میں عجلت سے کام نہیں لیا بلکہ اچھی طرح اپنی فوجی تیاریاں کیں اور ساتھ ہی اندلس کے ان باغیوں اور غداروں سے خط وکتابت جاری رکھ کر ہر قسم کی واقفیت بہم پہنچائی اس سلسلے می ںمناسب سمجھاگیا اندلس کے سابق امیر یوسف فہری کے بیٹے ابوالاسود کو جو قرطبہ کے متصل ایل قلعہ میں نظر بند ہوگیا ،ادھر شاہ فرانس شالیمین لاکھوں کی تعداد میں فوج فراہم کرکے کیل کانٹے سے درست وہگیا اور اپنی اس فوج کشی کا مقصد اندلس سے مسلمانوں کا اخراج اور عیسائیوں کی حکومت کا قائم کرنا قرار دیا جس سے اس کو ہر قسم کا امداد حاصل ہوسکی اور عیسائیوں میں امیر عبدالرحمن کے خلاف بڑا جوش پیدا ہوگیا شارلمین نے خود حملہ کرنے سے پہلے باغیان سرقسطہ کو علم بغاوت بلند کیا ،امیر عبدالرحمن کے لیے یہ سب سے زیادہ خطرناک موقع تھا کہ اس کی بربادی کے لیے دربار بغداد کا اخلاقی اثر مسلمانان اندلس کی عظیم ترین سازش وبغاوت اور عیسائیوں کی عظیم الشان فوجی تیاریاں سب متحد ومتفق تھیں اور عبدالرحمن اس خطرہ کی پوری پوری کیفیت سے ناواقف وبے خبر تھا،امیر عبدالرحمن نے ا پنے ایک سپہ سالار ثعلبہ بن عبید کو سرقسطہ کے باغیوں کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا ،متعدد لڑائیں ہونے کے بعد ثعلبہ کو سلیمان بن یقظان نے گرفتار رکرلیا او راس بات کے ثبوت میں کہ ہم کس قدر طاقتور آپ کے ہوا خواہ ہیں ثعلبہ کو شارلمین کے پاس بھجوادیا،ثعلبہ کی گرفتاری کے بعد اس کی بعیۃ السیف فوج بھاگ گئی اور قرطبہ میں عبدالرحمن کے پا س پہنچی اور باغیوں کی قوت وطاقت سے اس کو مطلع کیا۔ ثعلبہ کی گرفتاری کے بعد ہی شاہ فرانس جو اپنی لاتعداد فوج لیے ہئوے جبل البرتات کے اس طرف جنوبی فرانس میں پڑا ہوا تھا روانہ ہوا فوج اس قدر زیادہ تھی کہ جبل البرتات کے ایک درہ میں ہوکر نہیں گزرسکتی تھی لہذا اس کے دوحصے کیے گئے اور پہاڑکے دوزحتلف راستوں سے عبور کرکے شہر سرقسطہ کی فصیل کے نیچے دونوں طرف آکر جمع ہوگئی ،اس عیسائی لشکر کی کثرت اور اندلس سے اسلامی اثر کے محو کردینے کی شہرت جب سرقسطہ کے مسلمانوں نے سنی تو انہوں نے سلیمان بن یقظان کو ملامت کی بالخصوص حسیب بن عاصی نے ےبھی انجام کا بہت ہی گراں محسوس کیا اور شہر سرقسطہ کے دروازے بند کرلیے شارلیمین ک وجب یہ محسوس ہوا کہ مسلمانان سرقسطہ میری امداد واعانت میں پہلوتہی کریں گے اور امیر عبدالرحمن کے آنے پر ممکن ہے کہ اس کے ساتھ شامل ہوجائیں تو وہ سرقسطہ سے بے نیل ومرام فرانس کی جانب واپس ہوا۔ شارلمین کے آنے کے وقت ایسٹریاس کے عیسائی ریاست بھی اس ککی حامی ومعاون بن گئی تھی اور ان پہاڑی عیسائیوں نے شارلیمین کو عیسائیوں کا نجات دہندہ سمجھ کر اس کی فوج کے گزارنے میں مدد کی لیکن جب وہ خوف زدہ ہوکر فرانس کی جانب واپس ہونے لگا تو ان پہاڑی عیسائیوں نے اس کی فوج کے پچھلے حصے پر چھاپے مارنے شروع کیے اور شمالی میدان میں پہنچنے تک اس کے کئی مشہور ومعروف سپہ سالار اور فوج کے ایک بڑے حصہ کو قتل کردیا گویا ان پہاڑی عیسائیوں نے جو پہاڑوں کے اندر خود مختار انہ زندگی بسر کررہے تھے اور طاقت کو دم بدم بڑھارہے تھے شارلمین کو اس بات کی سزا دی کے وہ کیوں مسلمانوں سے ڈر کر واپں ہوا۔ جب شارلیمین واپس ہوا تو حصین بن عاصی نے سلیمان بن یقظان کو قتل کرکے خٰد سرقسطہ کی حکومت اور باغ افواج کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لےلی اس کے بعد ہی امیر المؤمنین بھی قرطبہ سے فوجیں لیے ہوئے سرقسطہ کے سامنے آپہنچا اور فوراً سرقسطہ پر محاصرہہ ڈال دیا حسین بن عاصی نے اظہار اطاعت اور صلح کی درخٰاست کی امیر عبدالعحمن نے اس کی یہ درخٰاست منظور کرلی۔ سرقسطہ سے فارغ ہوکر امیر عبدالرحمن نے شاہ فرانس کے اندلس کی طرف آنے کے جواب میں فرانس کا قصد کیا اور پہاروں دروں کو بآسانی عبور کرکے فرانس کے میدان میں پہنچ گیا اس موقع پر ایسٹریاس والے عیسائی اپنے پہاڑوں کے گوشوں میں چھپے اور سہمے ہوئے بیٹھے رہے اور انہوں نے اسی کو بہت غنیمت سمجھا کہ امیر عبدالرحمن ہماری طرف ملتفت ہی نہ ہو جیسا کہ پہلے بھی کوئی امیر ان کی طرف ملتفت نہ ہوا تھا ،چونکہ اس مرتبہ ان پہاڑی عیسائیوں نے جن کو پہاڑی قزاق سمجھا جاتا تھا شارلیمین کا بہت سا سامان لوٹ لیااو راس کی وفج کو نقصان پہنچایاتھا اس لی امیر عبدالرحمن نے ان کی طرف متوجہ ہونے یا ان کو نقصان پہنچانے کا مطلق خیال نہیں کیا بلکہ ان کے وجود کو جو اندلس کی شاہی لشکر کے لیے اب تک موجب تکلیف نہ ہوا تھا غنیمت سمجھا۔ فرانس کے میدانوں میں پہچ کر امیر عبدالرحمن نے فرانس کے نصف جنوبی حصہ کو خوب تاخت وتاراج کیا ،بہت شسے قلعوں کو مسمار کرڈالا ،بہت سے شہروں کی شہر پناہیں ڈھادیں، اور نہایت عجلت کے ساتھ بہت بڑے رقبے میں تاخت واتاراج کرکے واپس چلاآیا شالیمین فرانس کی شمالی حدود کی طرف بھاگا تھا وہ اپنے ملک کے اس جنوبی حصے کو حریف کی تاراج سے مطلق نہ بچاسکا امیر عبدالرحمن فرانس میں زیادہ دنوں نہیں ٹھہر سکتا تھا کیونکہ اس کو اپنے ملک کا حال معلوم تھا کہ وہاں بغاوت اور سرکشی کا کس قدر سامان موجود ہے لہذا وہ فوراً ہی ملک فرانس سے واپس چلاآیا اور قرطبہ میں پہنچ کر مشکل سے چند مہینے گزرے ہوں گے کہ ۱۶۵ھ میں سرقسطہ سے حسین بن عاصی کے باغی ہونے کی خبر آئی ،عبدالرحمن نے غالب بن تمامہ بن علقمہ کو اس بغاوت کے فرو کرنے کے لیے روانہ کیا،غالب اور حسین میں قریباً ایک سال تک لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا اور یہ ہنگامہ فرد نہ ہوا تب مجبوراً امیر عبدالرحمن نے ۱۶۶ھ میں خود قرطبہ سے سرقسطہ کی جانب کوچ کیا اور حسیب بن عاصی کو گرفتار کرکے قتل کیا اور سرقسطہ کے باغیوں میں سے بہت سوں کو تلوار کے گھاٹ اتاردیا اور بظاہر اس بغاوت کا خاتمہ کردیا ان ہنگاموں میں جو کوئی سال سے برپا تھے ابوالاسود اپنی ناتجربہ کاری کے امارت وسرداری کا مرتبہ باغیوں میں حاصل نہ کرسکا تھا وہ بچ بچاکر کہیں چھپ رہا اور سیاست شاہی سے محفوظ رہا اگرچہ بظاہر باغی سرداروں میں اب کوئی ایسا باقی نہ رہا تھا جو علم بغاوت بلند کرسکتا تھا اور عباسی سازشوں کو بھی پورے طور پر ناکامکی کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم وہ لوگ جن کے عزیز واقارب جرم بغاوت اور عبدالرحمن کے مقابلے میں مقتول ہوچکے تھے اپنے سینوں کے اندر اپنے مقتول عزیزوں کی یاد اور عادوت کا جوش ضرور چھپائے ہوئے تھے ،بعض واسعہ پسند لوگوں نے ابوالاسود کو جو مقام قطلونہ میں روپوش تھا خروج پر مادہ کیا اور ۱۶۸ھ میں اس کے گرد اسی قسم کے ہنگامہ پسند لوگوں کا ایک جم غفیر فراہم ہوگیا ،عبدالرحمن نے اس کو ووادی احمر میں شکست دے کر بھگادیا اور وہ پہاڑوں میں جاچھپا ۱۶۹ھ میں ابوالاسود پھر میدان میں نکلا اور عبدالرحمن کے مقابلہ میں چار ہزار ہمراہیوں کو قتل کرکر بھاگ گیا اگلے سال۱۷۰ھ می ںابوالاسود فوت ہوگیا اور اس کے ہمراہیوں نے جو لٹیروں اور ڈاکہ زنیوں کی حالت میں تھے اس کے بھائی قاسم بن یوسف کو اپنا سردار بنایا اور بہت جلد ایک عظیم الشان فوج اس کے جھنٹے کے نیچے جمع ہوگئی امیر عبدالرحمن نے اس پر چڑھائی کی اور سخت پریشانی اور معرکہ آرائی کے بعد قاسم بن یوسف کوگرفتار کرکے قتل کیا۔ اسی سال یعنی ۱۷۰ ھ میں خلیفہ ہارون الرشیدتخت نشین ہوا ،سارلیمین نے امیر عبدالرحمن کے حملوں سے محفوظ رہنے کے لیے امیر عبدالرحمن کی خدمت میں صلح کی درخواست کی اور اپنی بیٹی کی شادی اس سے کرنی چاہی ،امیر عبدالرحمن نے شارلیمین کی درخواست صلح تو منظور کرلی مگر اس ککی بیٹی کو اپنے محل شرا میں داخل کرنے سے شکریہ کے ساتھ انکار کردیا شارلیمین کی بیٹی حسن وجمال میں بے نظیر اور شہرہ آفاق تھی ،امیر عبدالرحمن نے اس کو اپنی بیوی بنانے سے غالباً اس لیے انکار کیا ہوگا کہ جس طرح شاہ لرزیق کی بیوی ایجیلونا نے امیر عبدالعزیز کو حرم سرا میں داخل ہوکر حکومت اسلامیہ کو نقصان پہنچایا تھا کہیں یہ عیسائی شہزادی بھی حرم سرا میں داخل ہوکر موجب خطر ثابت نہ ہو امیر عبدالرحمن کی عمر بھی اب ۵۷ برس کے قریب تھی اس عمر میں نئی شادیاں کرنے کا شوق عبدالرحمن جیسے ملک گیر وملک دار اور مصروف الاوقات سلطان کو نہیں ہوسکتا تھا اور ممکن ہے کہ بعض مورخین کا یہ خیال بھی صحیح ہو کہ عبدالرحمن کی ران میں جنگ سقسطہ کے موقع پر ایک ایسا زخم لگا تھا کہ وہ عورت کی مقاربت کے قابل نہ رہا تھا،بہرحال عبدالرحمن نے سارلیمین کی خطا معاف کردی اور اس سے صلح کرلی لیکن شارلیمین کو یہ بخوبی معلوم تھا کہ خلیفہ ٔ بغداد عبدالرحمن کا دشمن ہے اس لیے باوجود اس کے کہ اس خلیفہ بغداد سے کسی امداد کی توقع نہیں ہوسکتی تھی تاہم وہ یہ ضرور جاتا تھا کہ خلیفۂ بغداد عبدالرحمن کےسرپر فوجی مہم بھیج سکتا ہے لہذا اس نے بغداد کے نئے خلیفہ ہارون الرشید کی خدمت میں ایک شفارت روانہ کرکے تعلقات پیدا کرنا چاہے ان دوستانہ تعکقات کے پیدا ہوجانے کی اس کو اس لیے بھی توقع تھی کہ وہ اس سے پہلے ہارون الرشید کے باپ مہدی کی منشاء کے موافق ایک مرتبہ اندلس میں فوج لےکر جاچکا تھا اور اس بات کو جانتا تھا کہ ہارو الرشید ضرور میری دوستی کے لیے محبت کا ہاتھ بڑھائےگا؛چنانچہ شارلیمین کا خیال صحیح ثابت ہوا اور خلیفہ ہارون الرشید نے شالیمین سے سفیروں کی بڑی آؤ بھگت کی اور ایک گھڑی شالیمین کے پاس ہدیۃ بھجوائی شارلیمین کے تعلقات اپنے پڑوسیوں یعنی یورپ کے عیسائی بادشاہوں سے زیادہ گہرے نہ تھے اگر وہ ایسا ہی صلح جو اور الفت پرست ہوتا تو سب سے پہلے یورپ کے عیسائی سلاطین سے محبت ودوستی کے تعلقات ہی بڑھاتا ؛لیکن اتنے دور دراز یعنی بغداد میں سفارت بھیجنے سے اس کی غرض صرف یہ تھی کہ کسی طرح اندلس کی اسلامی سلطنت کے حَاف کوئی تدبیر کارگرد ہو سکے اسی طرح ہارون الشید نے بھی شارلیمین سے دوستی کے تعلقات پیدا کرنے میں سلطنت کی مخالفت مدنظر رکھی تھی مگران دونوں کے مقاصد پورے ن ہوئے اور عبدالرحمن یا اس کی اولاد کو نہ ہارون الرشید کوئی نقصان پہنچاسکا نہ شالیمین سے کچھ ہوسکا۔