انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جنت اور اس کی قیمت جنت کی ایک قیمت جہاد: اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ۔ (التوبۃ:۱۱۱) ترجمہ:بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کواور ان کے مالوں کواس بات کے عوض میں خریدلیا ہے کہ ان کوجنت ملے گی (اورخدا کے ہاتھ مال وجان کے بیچنے کا مطلب یہ ہے کہ) وہ لوگ اللہ کی راہ میں (یعنی وہ بیع جہاد کرنا ہے خواہ اس میں قاتل ہونے کی نوبت آئے یامقتول ہونے کی) اس (قتال) پر (ان سے جنت کا) سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں (بھی) اور انجیل میں (بھی) اور قرآن میں (بھی) اور (یہ مسلم ہے کہ) اللہ سے زیادہ اپنے عہد کوکون پورا کرنے والا ہے (اور اس نے اس بیع پروعدہ جنت کا کیا ہے) تو (اس حالت میں) تم لوگ (جوکہ جہاد کررہے ہو) اپنی اس بیع (مذکور) پرجس کا تم نے (اللہ تعالیٰ سے) معاملہ ٹھہرایا ہے خوشی مناؤ؛ کیونکہ اس بیع پرتم کوحسب وعدہ مذکورہ جنت ملے گی اور یہ (جنت ملنا) بڑی کامیابی ہے (تم کویہ سودا ضرور کرنا چاہیے)۔ کلمہ طیبہ: حدیث:حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی جناب رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا جنت کی قیمت کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا لَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ۔ (صفۃ الجنۃ، ابونعیم اصبہانی:۱/۷۷۔ کامل ابن عدی:۶/۲۳۴۷) فائدہ:یعنی کلمہ طیبہ پڑھنا اور پھر اس پراس کے تمام تقاضوں سمیت عمل کرنا؛ چنانچہ اسی مختصر جواب میں شریعت کی پوری تفصیل پوشیدہ ہے؛ ورنہ اگرکوئی زبان سے کلمہ کا ورد کرے اور کام کفر وشرک کے کرے تووہ دوزخ میں جائے گا اور اسی طرح سے سب کام اسلام کے کئے لیکن کوئی ساایک عقیدہ کفر کا رکھتا تھا تووہ بھی دوزخ میں جائے گا۔ جنت کے اعمال: حدیث:حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اللہﷺ آپ مجھے ایسے عمل کی تعلیم دیدیں جب میں اس پرعمل کروں توجنت میں داخل ہوجاؤں؟ توآپﷺ نے فرمایا: تَعْبُدُ اللَّهَ لَاتُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ۔ (بخاری، كِتَاب الزَّكَاةِ،بَاب وُجُوبِ الزَّكَاةِ،حدیث نمبر:۱۳۱۰، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کوشریک مت بناؤ، فرض نمازیں قائم کرو، فرض زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ تواس نے کہا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں اس طریقہ سے کبھی کوئی چیز نہیں بڑھاؤنگا اور نہ اس سے کچھ کم کرونگا، جب وہ پیٹھ پھیرکر جانے لگا توجناب سرورِ عالمﷺ نے ارشاد فرمایا: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا۔ (بخاری، كِتَاب الزَّكَاةِ،بَاب وُجُوبِ الزَّكَاةِ،حدیث نمبر:۱۳۱۰، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جس آدمی کویہ بات اچھی لگے کہ وہ جنت والے لوگوں میں سے کسی آدمی کودیکھے تووہ اس کودیکھ لے۔ مرتے وقت کلمہ طیبہ: حدیث:حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: مَنْ مَاتَ وَهُوَيَعْلَمُ أَنَّهُ لَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ۔ (مسلم، كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ مَنْ مَاتَ عَلَى التَّوْحِيدِ دَخَلَ الْجَنَّةَ قَطْعًا،حدیث نمبر:۳۸، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جوآدمی اس حالت میں فوت ہوا کہ وہ یقین رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الہٰ نہیں وہ جنت میں داخل ہوگا۔ فائدہ:اس حدیث کی وضاحت میں گذشتہ سے پیوستہ حدیث کا فائدہ پھرپڑھ لیں؛ نیزاس حدیث کا لفظ وَهُوَيَعْلَمُ یہ بتا رہا ہے کہ اس کا عقیدہ کلمہ طیبہ کے مطابق درست تھا تووہ ان درست عقائد کی بناپر جنت میں جائے گا یاکوئی اجمالی طور پرصحیح عقیدہ رکھتا تھا؛ مگرایمانیات کی تفصیل کا اس کوعلم نہیں ہوسکا تووہ بھی جنت میں جائے گا، اس حدیث میں اس میت کے لیے بھی حوشخبری ہے جس کے گھر والے موت کے وقت کلمہ شہادت کی تلقین کی بجائے مردہ کے فراق وغم میں رونا پیٹنا شروع کردیتے ہیں اور میت کلمہ طیبہ ادا نہیں کرسکی توایسی صورت میں مرنے والا صحیح عقیدہ لے کردنیا سے رخصت ہوگا اور جنت میں داخل ہوگا۔ مرتے وقت کلمہ پڑھنے والا جنت میں: حدیث:حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہﷺ سے ارشاد فرماتے ہوئے سنا: مَنْ كَانَ آخِرُ كَلَامِهِ لَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ۔ (سنن ابوداؤد،كِتَاب الْجَنَائِزِ، بَاب فِي التَّلْقِينِ ،حدیث نمبر:۲۷۰۹، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جس انسان کا آخری کلام لَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ ہوگا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ فائدہ: اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ زندگی میں چاہے جتنے گناہ بھی کئے ہوں بس اگرآخر میں کلمہ پڑھ لیا توسیدھے جنت میں چلے گئے، نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پرموقوف ہے چاہے توبخش دے اور سیدھا جنت پہنچادے چاہے گناہوں کی سزادینے کے بعد جنت میں داخل کرے ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ اس کی برکت سے جائے گا جنت میں، ہاں وہ شخص جومرنے کے وقت ہی مسلمان ہوا اورکلمہ پڑھا تواس کے اس کلمہ کی برکت سے تمام گناہ جوحالتِ کفر میں کئے کفر سمیت مٹ جائیں گے اور وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ صحیح عقائد کی برکت سے جنت کے تمام دروازے کھل جائیں گے: حدیث:حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: مَنْ قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ وَحْدَهُ لَاشَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ وَابْنُ أَمَتِهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ وَأَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَأَنَّ النَّارَ حَقٌّ أَدْخَلَهُ اللَّهُ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ شَاءَ۔ (مسلم، كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ مَنْ مَاتَ عَلَى التَّوْحِيدِ دَخَلَ الْجَنَّةَ قَطْعًا ،حدیث نمبر:۴۱، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جس شخص نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کےسوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور حضرت محمد (ﷺ) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کا کلمہ ہیں، جس کواللہ نے مریم پرڈالا تھا اور اللہ کی طرف سے روح تھے اور بے شک جنت حق ہے اور بے شک دوزخ حق ہے تواس کواللہ جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے چاہے گا داخل کردیں گے۔ کلمہ کے معتقد کوبشارت: حدیث:آنحضرتﷺ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کواپنے نعلین مبارک عطاء فرمائے اور ارشاد فرمایا: اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ۔ (مسلم، كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ مَنْ مَاتَ عَلَى التَّوْحِيدِ دَخَلَ الْجَنَّةَ قَطْعًا ،حدیث نمبر:۴۶، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:میرے یہ دونوں جوتے لے جاؤ اور اس دیوار کے پیچھے جس سے تمہاری ملاقات ہو (اور) وہ یہ گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اس کا دل اس پریقین رکھتا ہوتوتم اس کوجنت کی خوشخبری سنادو۔ فائدہ:مسلم شریف میں یہ حدیث طویل الفاظ میں منقول ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ باہرنکل کریہ خوشخبری سناہی رہے تھے کہ حضرت عمرؓ تشریف لائے اور ناراضگی کا اظہار کیا اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہا کوپکڑ کرحضورﷺ کی خدمت میں پیش کیا اور پوچھا: کیا آپ نے اس کا حکم فرمایا ہے؟ توآپ نے فرمایا: ہاں! توحضرت عمرؓ نے عرض کیا یارسول اللہ اگریہ ہوگیا تولوگ توکل کرکے بیٹھ رہیں گے (نیکی کے کام چھوڑ دیں گے) توآنحضرتﷺ نے یہ اعلان رکوادیا۔ اس لیے آپ بھی حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی حکمت عملی کوعمل میں لائیے توکل کرکے بیٹھ رہنے کی بجائے عمل صالح کی کوشش فرمائیے؛ کیونکہ جنت تواللہ کی رحمت سے ملتی ہے؛ مگرجنت میں ترقی درجات عموماً انہیں نیک اعمال کی کثرت کے مطابق ملیں گے؛ جیسا کہ ترمذی شریف کی حدیث میں ہے: أَنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ إِذَا دَخَلُوهَا نَزَلُوا فِيهَا بِفَضْلِ أَعْمَالِهِمْ۔ (ترمذی،حدیث نمبر:۲۴۷۲، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:یعنی جب جنت واے جنت میں داخل ہوں گے تووہ اس میں اپنے اعمال کی فضیلت کے حساب سے داخل ہوں گے۔ زیادہ اور افضل اعمال والے افضل درجات میں داخل ہوں گے اور کم اور ادنی اعمال والے ادنی درجات میں داخل ہوں گے۔