انوار اسلام |
س کتاب ک |
کیا بیس رکعات تراویح کا ثبوت صحیح حدیث سے ہے؟ موٴطا امام مالک "باب ما جاء فی قیام رمضان" میں یزید بن رومان سے روایت ہے: کان یقومون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان بثلٰث وعشرین رکعۃ ۔ اور امام بیہقی رحمہ اللہ (ج:۲ ص:۴۹۶)نے حضرت سائب بن یزید صحابی سے بھی صحیح سند سے یہ حدیث نقل کی ہے۔ (نصب الرایہ ج:۲ ص:۱۵۴) ان احادیث سے ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے بیس رکعات تراویح کا معمول چلا آرہا ہے اور یہی نصاب خدا تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکے نزدیک محبوب و پسندیدہ ہے، اس لئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خصوصاً حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ بدگمانی نہیں ہوسکتی کہ وہ دین کے کسی معاملے میں کسی ایسی بات پر بھی متفق ہوسکتے تھے جو منشائے خداوندی اور منشائے نبویؐ کے خلاف ہو، حکیم الاُمت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں: “ومعنی اجماع کہ بر زبان علماء دین شنیدہ باشی ایں نیست کہ ہمہ مجتہدین لا یشذ فرد در عصر واحد بر مسئلہ اتفاق کنند، زیراکہ ایں صورتے ست غیر واقع بل غیرممکن عادی، بلکہ معنی اجماع حکم خلیفہ است بچیزے بعد مشاورہ ذوی الرأی یا بغیر آں، ونفاذ آں حکم تا آنکہ شائع شد و در عالم ممکن گشت۔ قال النبی ﷺ:علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین من بعدی۔ الحدیث۔ (ازالۃ الخفاء، ص:۲۶) ترجمہ:۔ اجماع کا لفظ تم نے علمائے دین کی زبان سے سنا ہوگا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی زمانے میں تمام مجتہدین کسی مسئلہ پر اتفاق کریں، بایں طور کہ ایک بھی خارج نہ ہو، اس لئے کہ یہ صورت نہ صرف یہ کہ واقع نہیں بلکہ عادةً ممکن بھی نہیں، بلکہ اجماع کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ ذو رائے حضرات کے مشورے سے یا بغیر مشورے کے کسی چیز کا حکم کرے اور اسے نافذ کرے یہاں تک کہ وہ شائع ہوجائے اور جہاں میں مستحکم ہوجائے، آنحضرت ﷺکا ارشاد ہے کہ:لازم پکڑو میری سنت کو اور میرے بعد کے خلفائے راشدین کی سنت کو۔ آپ غور فرمائیں گے تو بیس تراویح کے مسئلے میں یہی صورت پیش آئی کہ خلیفہٴ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُمت کو بیس تراویح پر جمع کیا اور مسلمانوں نے اس کا التزام کیا، یہاں تک کہ حضرت شاہ صاحب کے الفاظ میں "شائع شد و در عالم ممکن گشت" یہی وجہ ہے کہ اکابر علماء نے بیس تراویح کو بجاطور پر "اجماع" سے تعبیر کیا ہے۔ ملک العلماء کاسانی فرماتے ہیں: ان عمر رضی الله عنہ جمع اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم فی شھر رمضان علی ابی بن کعب فصلی بھم فی کل لیلة عشرین رکعة ولم ینکر علیہ احد فیکون اجماعًا منھم علٰی ذالک۔ (بدائع الصنائع ج:۱ ص:۲۸۸، مطبوعہ ایچ ایم سعید کراچی) ترجمہ:۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺکے صحابہ کو ماہِ رمضان میں اُبیّ بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتدا پر جمع کیا، وہ ان کو ہر رات بیس رکعتیں پڑھاتے تھے اور اس پر کسی نے نکیر نہیں کی، پس یہ ان کی جانب سے بیس رکعات تراویح پر اجماع ہوا۔ اور موفق ابنِ قدامہ الحنبلی، المغنی (ج:۱ ص:۸۰۳)میں فرماتے ہیں: وھذا کالاجماع اور یہی وجہ ہے کہ ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل) بیس تراویح پر متفق ہیں، جیسا کہ ان کی کتب فقہ سے واضح ہے، ائمہ اربعہ کا اتفاق بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ بیس رکعات تراویح کا مسئلہ خلف سے تواتر کے ساتھ منقول چلا آرہا ہے، اس ناکارہ کی رائے یہ ہے کہ جو مسائل خلفائے راشدین سے تواتر کے ساتھ منقول ہوں اور جب سے اب تک انہیں اُمتِ محمدیہ (علیٰ صاحبہا الف الف صلوٰة وسلام) کے تعامل کی حیثیت حاصل ہو، ان کا ثبوت کسی دلیل و برہان کا محتاج نہیں، بلکہ ان کی نقلِ متواتر اور تعاملِ مسلسل ہی سو ثبوت کا ایک ثبوت ہے:آفتاب آمد دلیلِ آفتاب! (آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۳/۳۱، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند۔فتاویٰ محمودیہ:۷/۲۵۸،مکتبہ شیخ الاسلام،دیوبند۔فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۴/۲۵۳، مکتبہ دارالعلوم دیوبند۔فتاویٰ رحیمیہ:۶/۱۸۸، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی۔فتاویٰ عثمانی:۱/۵۱۵، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)