انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ابراہیم بن عبداللہ کا خروج منصور جس زمانہ میں بغداد کی تعمیر کے معائنہ کوآیا تھا اُس زمانہ میں ابراہیم بن عبداللہ برادر محمدمہدی پوشیدہ طور پرا سکے ساتھ تھے وہاں سے وہ صاف بچ کرکوفہ چلے آئے اور منصور نے ان کی گرفتاری کے لیے بڑی کثرت سے ہرشہر میں جاسوس پھیلادیے، منصور کوجب یہ معلوم ہوا کہ ابراہیم بصرہ میں ہیں تواس نے بصرہ کے ہرایک مکان پرایک ایک جاسوس مقرر کرایا؛ حالانکہ ابراہیم بن عبداللہ کوفہ میں سفیان بن حبان قمی کے مکان پرمقیم تھے، یہ بات بھی مشہور تھی کہ سفیان، ابراہیم کا بہت گہرادوست ہے، جاسوسوں کی کثرت دیکھ کرسفیان گھبرایا اور اس نے ابراہیم کے صاف نکال دینے کی یہ ترکیب سوچی کہ منصور کے پاس پہنچا اور کہا کہ آپ میرے اور میرے غلاموں کے لیے پروانہ راہداری لکھ دیں اور ایک دستہ روج میرے ہمراہ کردیں میں ابراہیم کوجہاں وہ ہوگا گرفتار کرکے لے آؤں گا، منصور نے فوراً پروانہ راہداری لکھ کردے دیا اور ایک چھوٹی سی فوج بھی اس کے ساتھ کردی، سفیان اپنے گھر میں آیا اور گھر کے اندر جاکر ابراہیم کواپنے غلاموں کا لباس پہناکر اور غلاموں کے ساتھ ہمارہ لے کرمعہ فوج کوفہ سے چل دیا، بصرہ میں آکرہرایک مکان پردودو چار چار لشکری مقرر کتا گیا اس طرح تمام لشکر کے آدمی جب تقسیم ہوگئے اور آخر میں صرف سفیان اور ابراہیم رہ گئے توابراہیم کواہواز کی طرف روانہ کرکے خود بھی روپوش ہوگیا، بصرہ میں اُن دنوں سفیان بن معاویہ امیر تھا اُس کوجب یہ کیفیت معلوم ہوئی تواس نے لشکریوں کوجابجا منتشر ومتعین تھے ایک جگہ جمع کیا اور ابراہیم بن عبداللہ وسفیان بن حبان کی جستجو شروع کی؛ مگرکسی کونہ پاسکا، اہواز میں محمد بن حصین امیر تھا، ابراہیم جب اہواز میں پہنچے توحسن بن حبیب کے مکان میں فروکش ہوئے، امیرِاہواز کواتفاقاً جاسوسوں کے ذریعہ معلوم ہوگیا کہ ابراہیم اہواز میں آئے ہوئے ہیں، وہ بھی اُن کی تلاش وجستجو میں مصروف رہنے لگا، ابراہیم عرصہ دراز تک حسن کے مکان میں چھپے رہے اور لوگوں کواپنی دعوت میں شریک کرتے رہے۔ سنہ۱۴۵ھ میں بصرہ سے یحییٰ بن زیاد بن حیان نبطی نے ابراہیم کواہواز سے بصرہ میں بلوالیا اور بڑی سرگرمی سے لوگوں کومحمد مہدی کی بیعت کی طرف بلانا شروع کردیا، اہلِ علم اور بااثرلوگوں کی ایک بڑی جماعت نے بیعت کرلی، چارہزار نام بصرہ والوں کے بیعت کے رجسٹر میں لکھے گئے؛ اسی عرصہ میں محمدمہدی نے مدینہ میں خروج کیا اور ابراہیم کولکھا کہ تم بھی بصرہ میں خروج کرو، منصور نے چند سرداروں کواحتیاطاً بصرہ میں بھیج دیا تھا کہ اگراس طرف کوئی خطرہ بغاوت کا پیدا ہوتوبصرہ کے عامل سفیان بن معاویہ کی مدد کریں؛ اگرابراہیم محمدمہدی کے لکھنے کے موافق فوراً خروج کردیتے تویقیناً منصور کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے اور ابراہیم ومحمد دونوں بھائیوں کوبہت تقویت حاصل ہوتی؛ لیکن اس وقت ابراہیم بصرہ میں بیمار ہوگئے تھے اور بیماری کی وجہ سے انھوں نے خروج میں تامل کیا، منصور جب محمد مہدی کے مقابلے کولشکرروانہ کرچکا تویکم رمضان سنہ۱۴۵ھ کوابراہیم بنے بصرہ میں خروج کیا اور سفیان بن معاویہ اور اُن سرداروں کوجواس کی مدد کے لیے آئے ہوئے تھے گرفتار کرکے قید کردیا، جعفر ومحمدپسران سلیمان بن علی یعنی منصور کے چچازاد بھائی چھ سوآدمیوں کے ساتھ بصرہ سے باہر پڑے ہوئے تھے یہ بھی منصور کے بھیجے ہوئے تھے اُن دونوں بھائیوں نے ابراہیم کے خروج کا حال سنتے ہی حملہ کیا اُن چھ سوآدمیوں کے مقالبہ پرصرف پچاس آدمی بھیجے اور اُن پچاس آدمیوں نے چھ سوکوشکست دے کربھگادیا، ابراہیم نے تمام بصرہ پرقابض ہوکر لوگوں سے بیعت عام لی اور امان کی منادی کرادی؛ پھربیت المال سے بیس لاکھ درم برآمد کراکرپچاس پچاس درم ہرایک ہمراہی کوتقسیم کیے؛ پھرمغیرہ کوایک سوپیادوں کے ہمارہ اہواز کی طرف روانہ کیا اہواز کا عامل محمد بن حصین چار ہزار فوج لے کرمقابلہ کونکلا؛ لیکن ان ایک سوپیادوں نے چار ہزار کے لشکر کوشکست فاش دی اور مغیرہ نے اہواز پرقبضہ کرلیا، ابراہیم نے عمربن شداد کوفارس کی طرف بھیجا وہاں کے گورنراسماعیل بن علی بن عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب اور اس کے بھائی عبدالصمدنے مقابلہ کیا؛ مگرشکست کھائی اور عمروبن شداد نے صوبۂ فارس پرقبضہ کرلیا؛ اسی طرح ہارون بن شمس عجلی کو واسط کی طرف بڑھنے کا حکم دیا، ہارن نے منصور کے گورنرہارون ابن حمید ایاوی کوشکست دے کرواسط پرقبضہ کرلیا؛ غرض کہ جس روز مدینہ میں محمد مہدی اور عیسیٰ بن موسیٰ کے لشکروں میں لڑائی ہوئی اور محمدمہدی شہدی ہوئے اُس روز تک بصرہ وفارس وواسط اور عراق کا بڑا حصہ منصور کے قبضہ سے نکل چکا تھا، شام کا ملک بھی بہت جلد قبضے سے نکلنے والا تھا، کوفہ والے بھی ابراہیم کے منتظر بیٹھے تھے اور منصور کی حکومت کے باقی رہنے کی کوئی صورت نہ تھی، ابراہیم نے یکم رمضان کوبصرہ میں خروج کیا تھا آخررمضان تک برابر فتوحات کا سلسلہ جاری رہا، رمضان کے ختم ہوتے ہی ابراہیم کے پاس خبرپہنچی کہ محمدمہدی قتل ہوگئے، ابرالیم نے عبدالفطر کی نماز پڑھ کرعیدگاہ میں اس خبر کا اعلان کیا؛ یہی خبراُن لوگوں کے پاس بھی جودوسرے علاقوں میں منصور کے عاملوں سے لڑنے اور اُن کومغلوب وخارج کرنے میں مصروف تھے پہنچی اس خبر کا پہنچنا تھا کہ سب کے جوش سرد پڑگئے اور منصور کے سرداروں اور عاملوں میں ایک تازہ دہشت پیدا ہوگئی، بصرہ والوں نے اس خبر کوسن کرمحمد مہدی کی جگہ ابراہیم کوجواُن میں موجود تھے خلیفہ تسلیم کیا اور پہلے سے زیادہ جوش وہمت دکھانے پرآمادہ ہوگئے، ابراہیم کے ہمراہیوں میں بہت سے لوگ بصرہ میں کوفہ والے بھی تھے، بصرہ والوں کی یہ رائے تھی کہ بصرہ ہی کودارالخلافہ اور مرکزِ حکومت قرار دے کراطراف میں فوجیں بھیجنے اور انتظام کرنے کا کام انجام دیا جائے؛ مگرکوفیوں نے اس سے اختلاف کرکے یہ رائے ظاہر کی کہ ابراہیم نے کوفیوں کی رائے سے اتفاق کیا اور اپنے لڑکے حسن کوکوفہ میں اپنا نائب بناکر کوفہ کی طرف روانگی کا عزم کیا، یہ خبر کوفہ میں منصور کوپہنچی تووہ بہت مظصرف ہوا اور اُس نے فوراً تیز رفتار قاصد عیسیٰ بن موسیٰ کے پاس روان ہکیا کہ جس قدر جلد ممکن ہواپنے آپ کوکوفہ میں پہنچاؤ، ساتھ ہی مہدی کوخراسان میں لکھا کہ فوراً فارس پرحملہ کردو؛ اسی طرح ہرایک عامل کوجوخطرہ محفوظ رہا اپنی طرف بلایا، جس کے قریب ابراہیم کا کوئی سردار تھا اُس کولکھا کہ تم مقابلہ میں ہمت سے کام لو، ہرطرف سے فوجیں بڑی سرعت کے ساتھ منصور کی طرف آنے لگیں یہاں تک کہ ایک لاکھ فوج کوفہ میں آکرجمع ہوگئی، ابراہیم کے حملہ کی خبرسن کرمنصور نےپچاس روز تک کپڑے نہیں بدلے اور اکثرمصلے پرہی بیٹھا رہا۔ ادھرابراہیم بن عبداللہ ایک لاکھ فوج کے ساتھ کوفہ سے تیس چالیس میل کے فاصلہ پرپہنچ کرخیمہ زن ہوئے، ادھر عیسیٰ بن موسیٰ معہ اپنی ہمراہی فوج کے واردِ کوفہ ہوا، منصور نے عیسیٰ بن موسیٰ کوابراہیم کی لڑائی پرروانہ کیا اور حمید بن قحطبہ کومقدمۃ الجیش بنایا، ابراہیم کومشورہ دیا گیا کہ لشکر گاہ کے گردخندق کھدوالوں؛ مگرابراہیم کے ہمراہیوں نے کہا کہ ہم مغلوب نہیں بلکہ غالب ہیں؛ لہٰدا خندق کھودنے کی ضرورت نہیں، ہمراہیوں نے ابراہیم کومشورہ دیا کہ دستہ دستہ فوج لڑانا چاہیے؛ تاکہ ایک دستہ کے شکست خوردہ ہونے پردوسرا تازہ دم دستہ مدد کوبھیج دیا جائے؛ مگرابراہیم نے اس کوناپسند کرکے اسلامی قاعدہ کے موافق صد بندی کرکے لڑائی کا حکم دیا، لڑائی شروع ہوئی، حمید بن قحطبہ شکست کھاکر بھاگا، عیسیٰ نے اس کوقسم دے کرروکنا چاہا؛ مگروہ نہ رُکا، عیسیٰ بھی معہ لشکر مصروفِ جنگ ہوا اور اس کے اکثرہمراہی تاب مقاومت نہ لاکر فرار ہونے لگے، عیسیٰ ابھی تک میدان میں مقابلہ پرڈٹا رہا؛ مگراس کے شکست پانے یامغلوب ہونے میں کوئی کسرباقی نہ رہی تھی کہ یکایک جعفر ومحمدپسران سلیمان بن علی ایک لشکر لیے ہوئے لشکرابراہیم کے عقب سے آپہنچے، ابراہیم کی فوج اس اچانک حملہ سے گھبراکر ان تازہ حملہ آوروں کی طرف متوجہ ہوگئی، عیسیٰ نے فوراً اپنی جمعیت کوسنبھال کرحملہ کیا اور اس کی فوج کے فراری یہ حالت دیکھ کرسب کے سب لوٹ پڑے، حمید بن قحطبہ بھی اپنے ہمراہیوں کولے کرحملہ آور ہوا اس طرح ابراہیم کا لشکر بیچ میں گھرگیا اور حملہ آوروں نے اس کے لیے میدان کوتنگ کردیا، جس کی وجہ سے ابراہیم کے بہت سے لشکری جی کھول کرمقابلہ بھی نہ کرسکے، آحربے ترتیب کے ساتھ نکل نکل کربھاگنے لگے، نتیجہ یہ ہوا کہ ابراہیم کے ساتھ صرف چارسوآدمی باقی رہ گئے، ان لوگوں کوعیسیٰ وحمید ومحمد وجعفر نے چاروں طرف محیط ہوکر نقطہ پرکاربنالیا، آخرابراہیم کےگلے میں ایک تیرآکرلگا جوہہت کاری تھا، ہمراہیوں نے اُن کوگھوڑے سے اُتارلیا اور چاروں طرف حلقہ کرکے مقابلہ اور مدافعت میں مصروف رہے، حمید بن قحطبہ نے اپنی رکابی فوج کوپوری طاقت سے حملہ کرنے کا حکم دیا اور ابراہیم کے ہمراہیوں کومغلوب ومنتشر کرکے ابراہیم کا سراُتارکرعیسیٰ کی خدمت میں پیش کیا، عیسیٰ نے منصور کی خدمت میں بھیج دیا۔ ۲۵/ذیقعدہ سنہ۱۴۵ھ کویہ حادثہ وقوع پذیر ہوا، اس کے بعد حسن بن ابراہیم بن عبداللہ کوبصرہ سے گرفتار کرکے قید کیا اس کے ساتھ ہی یعقوب بن داؤود کوبھی قید کردیا گیا۔