انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** قطعی الثبوت کی دلالت جواُمور شریعت میں قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہیں اگر ان کی اپنے مدعا پر دلالت بھی قطعی ہے تووہ امور قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت ہوں گے اور ان کا منکر یقینا کافر ہوگا؛ لیکن قطعی الثبوت امور کی اپنے مدعا پر دلالت اگرظنی ہو اور اس میں کسی اور معنی کی بھی گنجائش ہوتو اس صورت میں یہ دلیل قطعی بھی مفید ظن رہے گی، یہ معاملہ صرف حدیث متواتر تک محدود نہیں، قرآن کریم کے احکام میں بھی باعتبار معنی اگر کہیں اختلاف کی گنجائش ہوتو اس میں بھی صحیح بات کا منکر صرف گمراہ کہا جائے گا اسے کافر نہ کہہ سکیں گے؛ کیونکہ اس قطعی الثبوت بات کی دلالت میں ظنیت آگئی ہے، جس سے حکم بدل گیا ہے۔ دلالت میں قطعیت تواتر معنی سے بھی آجاتی ہے اور کبھی امت کا اجماع بھی اس کے معنی کوقطعی کردیتا ہے، علامہ شاطبیؒ نے اس موضوع پر ایک نہایت نفیس بحث کی ہے، لکھتے ہیں: "وإنماالأدلة المعتبرة هناالمستقرأة من جملة أدلة ظنية تضافرت على معنى واحد حتى أفادت فيه القطع فإن للإجتماع من القوة ماليس للإفتراق ولأجله أفاد التواتر القطع وهذا نوع منه فإذا حصل من استقراء أدلة المسألة مجموع يفيد العلم فهو الدليل المطلوب وهوشبيه بالتواتر المعنوي"۔ (الموافقات:۱/۳۶) ترجمہ:جن دلائل کا یہاں اعتبار ہے وہ اس طرح کے ہیں کہ کچھ ادلہ ظنیہ کے استقراء سے ایک معنی واحد پر آجمع ہوئے ہیں؛ یہاں تک کہ ان میں قطعیت آگئی ہے، دلائل کے ایک موضوع پر مل جانے سے ان میں وہ قوت آجاتی ہے جوان کے علیحدہ علیحدہ ہونے میں نہ تھی اور اسی لیے تواتر بھی قطعیت کا فائدہ بخشتا ہے اور یہ بھی اسی کی ایک قسم ہے، جب کسی مسئلہ کے دلائل کا استقراء کرتے ہوئے ایسا مجموع حاصل ہوجائے جویقین کافائدہ دے تووہ دلیل اس باب میں مطلوب ہے اور یہ تواتر معنوی کی ہی طرح ہے۔ دلائل اپنے اپنے مقام پر گواخبار احاد ہوں؛ لیکن ان کا مجموعی مفاد ضرور یقین کا فائدہ بخشتا ہے، مثلاً: (۱)آنحضرتﷺ نے خبر دی کہ قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ بن مریمؑ دوبارہ تشریف لائیں گے، یہ بات اپنی جگہ واضح تھی، عیسیٰ بن مریم کے تشخص میں امت میں کبھی کوئی اختلاف پیدا نہ ہوا تھا؛ بلکہ حضورﷺ نے یہ وضاحت بھی فرمادی تھی کہ وہی عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے جومجھ سے پہلے آئے تھے اور میرے اور اُن کے مابین کوئی نبی نہیں گزرا، حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: "لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ يَعْنِي عِيسَى وَإِنَّهُ نَازِلٌ"۔ (ابوداؤد، كِتَاب الْمَلَاحِمِ،بَاب خُرُوجِ الدَّجَّالِ،حدیث نمبر:۳۷۶۶، شاملہ، موقع الإسلام) "وأجمعت الأمة على ماتضمنه الحديث المتواتر من: أن عيسى في السماء حي، وأنه ينزل في آخر الزمان"۔ (البحرالمحیط:۲/۴۷۳) اس سے پتہ چلا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم کے آنے کی خبر جس طرح تواترِ معنوی سے یقینی درجہ رکھتی ہے، اس کی دلالت بھی اپنے مدعا پر اسی طرح واضح اور قطعی ہے؛ جہاں تک حدیث لانبی بعدی کی دلالت کا تعلق ہے، قاضی عیاضؒ (۵۴۴ھ) کا بیان اس باب میں بہت واضح ہے: "لأنه أخبر النبيﷺ أنه خاتم النبيين لانبي بعده و أخبر عن الله تعالى أنه خاتم النبيين وأنه أرسل كافة للناس وأجمعت الأمة على حمل هذا الكلام على ظاهره وأن مفهومه المراد منه دون تأويل ولاتخصيص فلاشك في كفر هؤلاء الطوائف كلها قطعا إجماعا وسمعا"۔ (الشفاء:۳۶۲) ترجمہ:امت نے اس لفظ خاتم النبیین اور آنحضرتﷺ کے احوال وقرائن سے یہی سمجھایا ہے کہ آپ کے بعدنہ کوئی نبی ہوگا اور نہ کوئی رسول، اس مسئلہ ختم نبوت میں نہ کسی تاویل کی گنجائش ہے اور نہ کسی قسم کی تخصیص ہے۔ یہ گمان نہ کیا جائے کہ اس طرح کاتواتر اور یقین توچند امور کوہی حاصل ہوگا، ان کے ماسوا جوامور ہیں وہ توسب ظنی ہوں گے؛ پھراُن کا اعتبار کیسے کیا جائے؛ جواباً عرض ہے کہ اصول دین توواقعی سب قطعی ہونے چاہئیں اور یہ صحیح ہے کہ اسلام کے سب اصول دلائلِ قطعیہ یقینہ سے ثابت ہیں؛ لیکن فروع میں اگرکہیں باعتبار ثبوت یاباعتبار دلالت ظنیت آجائے تواس سے کوئی نقصان نہیں ہے۔