انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** دوزخیوں کی صفات اوراقسام چار قسم کے لوگ دوزخ میں رہیں گے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے گذرچکا ہے کہ چار قسم کے لوگوں کے علاوہ کسی کو جہنم میں باقی نہیں رکھا جائے گا ان میں کوئی خیر نہیں ہوگی یہ بات انہوں نے اس فرمان خداوندی کی روشنی میں فرمائی ہے۔ "قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ، وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ ، وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ ، وَكُنَّا نُکَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ" (المدثر:۴۳،۴۵) (ترجمہ) (۱)ہم نہ تو نماز پڑھا کرتے تھے۔ (۲)اور نہ غریب کو(جس کا حق واجب تھا)کھانا کھلایا کرتے تھے (۳)اور(جولوگ دین حق کے ابطال کے مشغلہ میں رہتے تھے ان) مشغلہ میں رہنے والوں کے ساتھ ہم بھی(اس)مشغلہ(ابطال دین) میں رہا کرتے تھے۔ (۴)اورقیامت کے دن کو جھٹلایا کرتے تھے۔ تکبر کرنے والے دوزخ میں (حدیث)حضرت حارثہ بن وہبؓ سے مروی ہے کہ حضرت نبی کریمﷺنے فرمایا: "أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ الْجَنَّةِ كُلُّ ضَعِيفٍ مُتَضَعِّفٍ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ النَّارِ كُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَكْبِرٍ" (بخاری،باب عقل بعد ذلک زنیم،حدیث نمبر:۴۵۳۷) (ترجمہ)کیا میں تمہیں جنتیوں کو نہ بتلاؤں،پھر آپﷺنے فرمایا،ہرکمزوریا کمزور کردیا جانے والا گروہ اگر وہ اللہ تعالی پر(کسی معاملہ میں) قسم اٹھادے تو اللہ تعالی اس کی قسم کو پورا فرمادیں،کیا میں تمہیں دوزخیوں کو نہ بتلاؤں؟پھر آپﷺنے فرمایا:طاقتور تکبر کی چال چلنے والا متکبر (بخاری مسلم) متکبر جہنم کے قید خانہ"بولس"میں اللہ تعالی فرماتےہیں "أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَکَبِّرِينَ" (الزمر:۶۰) (ترجمہ)کیاان متکبرین کا ٹھکانا جہنم میں نہیں ہے؟(یعنی متکبرین کا ٹھکانا جہنم میں ہے) (حدیث)ایک حدیث میں پہلے گذرچکا ہے کہ آپﷺنے فرمایا: یحشر المتکبرون یوم القیامۃ امثال الذر یساقون الی سجن فی النار یقال لہ: بولس تعلوھم نار الا نیار یغشاھم الذل من کل مکان (ترجمہ)متکبرین کو روز قیامت چیونٹیوں کی طرح اٹھایا جائےگا (پھر انہیں جہنم میں (اس) قید خانہ کی طرف ہانکا جائے گا جس کا نام بولس ہے جس کے اوپر تمام آگوں سے بڑی آگ ہے ان پر ہر جگہ سے ذلت چھائی ہوئی ہوگی۔ (اس لئے کہ تکبر کی سزارسوائی اورذلت ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ" (الاحقاف:۲۰) (ترجمہ)سو آج تم کو ذلت کی سزادی جائے گی (چانچہ سزا کے لئے آگ ہے اورذلت میں سے یہ ملامت اور پھٹکار ہے)اس وجہ سے کہ تم دنیا میں نا حق تکبر کیا کرتے تھے (یہاں تکبر سے مراد ایسا تکبر ہے جو ایمان سے بازرکھے کیونکہ دائمی عذاب اسی کے ساتھ خاص ہے) عظمت اورغرور اللہ کے لائق ہے ایک صحیح حدیث میں ہے جسے حضورﷺاللہ تعالی سے حکایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا: الکبریاء ردائی والعظمۃ ازاری فمن نازعنی واحدا منھما عذبتہ بناری (ترجمہ)غرور میری چادر ہے اور عظمت میرا پردہ ہے پس جس کسی نے ان میں سے کوئی ایک بھی مجھ سے چھیننے کی کوشش کی تو میں اسے جہنم میں ڈالدوں گا۔ جنت اورجہنم کا مناظرہ (حدیث)حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا: تَحَاجَّتْ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ فَقَالَتْ النَّارُ أُوثِرْتُ بِالْمُتَکَبِّرِينَ وَالْمُتَجَبِّرِينَ وَقَالَتْ الْجَنَّةُ فَمَا لِي لَا يَدْخُلُنِي إِلَّا ضُعَفَاءُ النَّاسِ وَسَقَطُهُمْ وَغِرَّتُهُمْ قَالَ اللَّهُ لِلْجَنَّةِ إِنَّمَا أَنْتِ رَحْمَتِي أَرْحَمُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِي وَقَالَ لِلنَّارِ إِنَّمَا أَنْتِ عَذَابِي أُعَذِّبُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِي وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْكُمَا مِلْؤُهَا فَأَمَّا النَّارُ فَلَا تَمْتَلِئُ حَتَّى يَضَعَ اللَّهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَى رِجْلَهُ تَقُولُ قَطْ قَطْ قَطْ فَهُنَالِکَ تَمْتَلِئُ وَيُزْوَى بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ وَلَا يَظْلِمُ اللَّهُ مِنْ خَلْقِهِ أَحَدًا وَأَمَّا الْجَنَّةُ فَإِنَّ اللَّهَ يُنْشِئُ لَهَا خَلْقًا (مسلم،باب النار یدخلھا الجبارون والجنۃ،حدیث نمبر:۵۰۸۳) (ترجمہ)جنت اورجہنم نے آپس میں احتجاج کیا تو جہنم نے کہا مجھ میں مغرور اورظالم لوگ داخل کئے جائیں گے،جنت نے کہا میرے اندر کمزور اوران میں کے(دنیا میں)کم درجہ لوگوں کے سوا کوئی داخل نہیں ہوگا،(تو)اللہ تعالی(بطور فیصلہ) جنت سے فرمائیں گے تو میری رحمت ہے اپنے بندوں میں سے میں جسے چاہوں گا تیرے ساتھ نوازوں گا اور جہنم سے فرمایا تو میرا عذاب ہے میں تیرے ساتھ عذاب دوں گا اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں گا اور تم میں سے ہر ایک کو اس (کی مقدار کے مطابق) بھرنا ہے اور دوزخ پر نہیں ہوگی حتی کہ اللہ تعالی اپنا قدم مبارک اس پر رکھیں گے تو وہ عرض کرے گی بس بس پس اس وقت وہ بھر جائے گی اور اس کا ایک حصہ دوسرے میں سکڑجائے گا اور اللہ تعالی اپنی مخلوق میں کسی پر ظلم نہیں کریں گے اور جنت کے متعلق یہ ہے کہ اللہ تعالی(اسے پر کرنے کے لئے)ایک اور مخلوق پیدا کرکے (پرکر)دیں گے۔ (فائدہ)امام احمدؒ نے حضرت ابو سعید خدری ؓ کے واسطہ سے حضور ﷺسے مذکورہ حدیث اس طرح روایت فرمائی ہے کہ آپﷺنے فرمایا: افتخرت الجنۃ والنار، فقالت النار: یارب یدخلنی الجبابرۃ والمتکبرون والملوک والاشراف،وقالت الجنۃ ای رب یدخلنی الضعفاء والفقراء والمساکین۔ الحدیث (مسند احمد) (ترجمہ)جنت اورجہنم نے(رب کے سامنے)فخر کیا تو جہنم نے کہا اے میرے پروردگار میرے اندر ظالم،متکبر،بادشاہ اور چوہدری داخل ہوں گے اور جنت نے کہا اے میرے پروردگار میرے اندر کمزور،غریب اورمسکین داخل ہوں گے۔ (مسند احمد) متکبروں کے جہنم میں،کمزوروں کے جنت میں جانے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جنت کو نا پسندیدہ چیزوں سے اور دوزخ کو خواہشات کے پردہ میں چھپایا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: "فَأَمَّا مَنْ طَغَى ، وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ، فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى ، وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى ، فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى" (النازعات:۳۷،۴۰) (ترجمہ)جس شخص نے (حق سے) سرکشی کی ہوگی اور(آخرت کا منکر ہوکر اس پر)دنیوی زندگی کو ترجیح دی ہوگی سودوزخ اس کا ٹھکانا ہوگااور جو شخص (دنیا میں) اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا ہوگا(کہ قیامت اور آخرت اورحساب کتاب پر اس کا ایمان مکمل ہو)اور نفس کو(حرام) خواہش سے روکا(یعنی اعتقاد صحیح کے ساتھ عمل صالح بھی کیا ہوگا) سو اس کا ٹھکانا جنت ہوگا۔ پس جنہوں نے اپنی نفسانی خواہشات قربان کر کے نفس کشی کی اورجنت والے اعمال کئے وہ خدا کے سامنے اپنے آپ کو ضعیف اور ناتواں سمجھتے رہے اور جنت میں داخل ہوگئےاور جنہوں نے نفسانی خواہشات کو مد نظر رکھ کر خدا کے سامنے تکبر کیا اور اعمال بد میں مبتلا رہے وہ جہنم کا ایندھن بن گئے۔ جنت اور جہنم کے متعلق حضرت جبریل کی رپورٹ (حدیث)حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے رسول اکرمﷺنے فرمایا: لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ أَرْسَلَ جِبْرِيلَ إِلَى الْجَنَّةِ فَقَالَ انْظُرْ إِلَيْهَا وَإِلَى مَا أَعْدَدْتُ لِأَهْلِهَا فِيهَا قَالَ فَجَاءَهَا وَنَظَرَ إِلَيْهَا وَإِلَى مَا أَعَدَّ اللَّهُ لِأَهْلِهَا فِيهَا قَالَ فَرَجَعَ إِلَيْهِ قَالَ فَوَعِزَّتِکَ لَا يَسْمَعُ بِهَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَهَا فَأَمَرَ بِهَا فَحُفَّتْ بِالْمَکَارِهِ فَقَالَ ارْجِعْ إِلَيْهَا فَانْظُرْ إِلَى مَا أَعْدَدْتُ لِأَهْلِهَا فِيهَا قَالَ فَرَجَعَ إِلَيْهَا فَإِذَا هِيَ قَدْ حُفَّتْ بِالْمَکَارِهِ فَرَجَعَ إِلَيْهِ فَقَالَ وَعِزَّتِکَ لَقَدْ خِفْتُ أَنْ لَا يَدْخُلَهَا أَحَدٌ قَالَ اذْهَبْ إِلَى النَّارِ فَانْظُرْ إِلَيْهَا وَإِلَى مَا أَعْدَدْتُ لِأَهْلِهَا فِيهَا فَإِذَا هِيَ يَرْکَبُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَرَجَعَ إِلَيْهِ فَقَالَ وَعِزَّتِکَ لَا يَسْمَعُ بِهَا أَحَدٌ فَيَدْخُلَهَا فَأَمَرَ بِهَا فَحُفَّتْ بِالشَّهَوَاتِ فَقَالَ ارْجِعْ إِلَيْهَا فَرَجَعَ إِلَيْهَا فَقَالَ وَعِزَّتِکَ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ لَا يَنْجُوَ مِنْهَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَهَا . (ترمذی،باب ماجاء حفت الجنۃ بالمکارہ وحفت،حدیث نمبر:۲۴۸۳) (ترجمہ)جب اللہ جل شانہ نے جنت اور جہنم کو پیدا کیا تو جبرائیل علیہ السلام کو جنت کی طرف روانہ کیا اور فرمایا جنت کو بھی دیکھو اورجو کچھ میں نے جنتیوں کے لئے تیار کیا ہے اسے بھی دیکھو،حضورﷺ فرماتے ہیں، پس وہ جنت میں آئے اور اسے دیکھا اوراسے بھی جو جنت والوں کے لئے تیار فرمایا تھا، پھر وہ اللہ جل شانہ کے پاس لوٹ گئے اور عرض کیا مجھے آپ کے غلبہ اورطاقت کی قسم(جنت کے بارے میں) کوئی بھی نہیں سنے گا مگر وہ اس میں داخل ہوجائے گا،پھر اللہ تعالی نے اسے حکم دیا تو وہ مکروہات میں چھپادی گئی اور فرمایا اب جنت کی طرف جاؤ اوردیکھو ہم نے جنت والوں کے لئے کیا تیار کیا ہے حضورﷺفرماتے ہیں پس وہ جنت کی طرف لوٹ آئے تو وہ مکروہات میں ڈھکی ہوئی تھی تو اللہ تعالی کی طرف لوٹ گئے اور عرض کیا مجھے آپ کے غلبہ،قدرت کی قسم میں ڈرتا ہوں کہ اب تو اس میں کوئی ایک بھی داخل نہ ہو سکے گا، اللہ تعالی نے فرمایا کہ اب جہنم کی طرف جاؤ اور دیکھو میں نے جہنم والوں کے لئے کیا تیار کیا ہے(جب اسے جاکر دیکھیں گے)تو وہ اوپر نیچے اپنے آپ پر چڑھی ہوئی تھی تو وہ اللہ جل شانہ کی طرف لوٹ آئے اور عرض کیا مجھے آپ کے غلبہ قدرت کی قسم جو بھی اس کو سنے گا کوئی بھی اس میں داخل نہ ہوگا، تو اللہ تعالی نے اس کے متعلق حکم فرمایا کہ خواہشات میں چھپ جاؤ اورحضرت جبریل سے فرمایا کہ اب جاؤ جب وہ لوٹے تو(دیکھ کر) عرض کیا مجھے آپ کے غلبۂ قدرت کی قسم اب تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ کوئی ایک بھی اس سے نجات نہ پاسکے گا ؛بلکہ اس میں داخل ہوجائے گا۔ (مسند احمد،ابوداؤد،ترمذی) تکبر اورعاجزی کے اسباب (فائدہ)اس حدیث میں اورحضرت حارثہ بن وہب کی سابقہ حدیث وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تندرستی طاقتوری،دولتمندی،دنیاوی خواہشات میں مصروفیت تکبر اورمخلوق پر بڑائی جتلانا ان سب کا مجموعہ عام طور پر خدا تعالی کے سامنے سر کشی کا سبب بنتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: "فَأَمَّا مَنْ طَغَى ، وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ، فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى" (النازعات:۳۷،۳۹) جس نے سرکشی اختیار کی اوردنیا کی زندگی کو ترجیح دی تو اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اور کمزوربدن،مال کی کمی کی وجہ سے دنیا میں کمزوری دکھانے والے غلبہ طاقت کے باوجود مؤ من ہیں تو یہ سب فلاح کا سبب بنتے ہیں اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ"من العصمۃ ان لا تجد"گناہوں سے حفاظت کا(ایک) سبب یہ ہے کہ آدمی کے پاس (ذرائع گناہ کی)فراوانی نہ ہو۔ کون دوزخ میں جائیں گے؟ (حدیث)ابو عامر اشعری فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت رسول اکرمﷺسے اہل دوزخ کے متعلق سوال کیا(کہ دوزخی کون ہے؟) تو آپ ﷺنے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا: لقد سالت عن عظیم کل شدید قعبری"فقال:وماالقعبری یا رسول اللہ؟قال:"الشدید علی العشیرۃ، الشدید علی الاھل، الشدید علی الصاحب،قال: فمن اھل الجنۃ یا رسول اللہ؟ فقال:‘سبحان اللہ لقد سالت عن عظیم ،کل ضعیف مزھد (ترجمہ)تم نے بہت بڑی بات پوچھی،ہر بخیل قعبری(جہنم میں جائے گا) اس نے عرض کیا اے رسول اللہ قعبری کون ہے؟ آپ نے فرمایا اپنے ساتھ رہن سہن کرنے والوں پر بخل کرنے والا، اپنے گھر اہل خانہ پر بخل کرنے والا، اپنے ہم نشین پر بخل کرنے والا، پھر اس نے پوچھا کہ اے رسول اللہ جنتی کون ہے؟تو بھی آپ نے فرمایا تونے بڑی بات کے متعلق سوال کیا(پھر فرمایا)ہر ضعیف تارک دنیا (جنت والا ہے) دوزخی پانچ قسم پر ہیں (حدیث)حضرت عیاض بن حمار سے مروی ہے کہ نبی مکرم ﷺنے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا: وَأَهْلُ الْجَنَّةِ ثَلَاثَةٌ ذُو سُلْطَانٍ مُقْسِطٌ مُتَصَدِّقٌ مُوَفَّقٌ وَرَجُلٌ رَحِيمٌ رَقِيقُ الْقَلْبِ لِكُلِّ ذِي قُرْبَى وَمُسْلِمٍ وَعَفِيفٌ مُتَعَفِّفٌ ذُو عِيَالٍ قَالَ وَأَهْلُ النَّارِ خَمْسَةٌ الضَّعِيفُ الَّذِي لَا زَبْرَ لَهُ الَّذِينَ هُمْ فِيكُمْ تَبَعًا لَا يَبْتَغُونَ أَهْلًا وَلَا مَالًا وَالْخَائِنُ الَّذِي لَا يَخْفَى لَهُ طَمَعٌ وَإِنْ دَقَّ إِلَّا خَانَهُ وَرَجُلٌ لَا يُصْبِحُ وَلَا يُمْسِي إِلَّا وَهُوَ يُخَادِعُکَ عَنْ أَهْلِکَ وَمَالِکَ وَذَکَرَ الْبُخْلَ أَوْ الْکَذِبَ وَالشِّنْظِيرُ الْفَحَّاشُ (مسلم،باب الصفات التی یعرف بھا فی الدنیا،حدیث نمبر:۵۱۰۹) (ترجمہ)اہل جنت تین قسم کے لوگ ہیں، (۱)صاحب سلطنت عادل خیرات کرنے والا۔ (۲)بہت مہربان ہر رشتہ دار کے لئے نرم دل۔ (۳)ہر حرام اورمکروہ کام سے رکنے والا،عیالدار بوقت ضرورت ہاتھ پھیلانے سے بچنے والا اور اہل جہنم پانچ قسم کے لوگ ہیں۔ (۱)ہر موٹا تازہ جو اپنی بزدلی کی بنا پر کمزور (بنا پھر تا)ہو لوگوں کے پیچھے پیچھے چلتا ہو،نہ بیوی بچوں کا خواہشمند ہو نہ رزق کی جستجو کرتا ہو۔ (۲)وہ خیانتی جس کی کوئی تمنا ادھوری نہ رہتی ہو اگر اسے موقع مل جائے تو وہ خیانت کرہی ڈالے۔ (۳)وہ آدمی جو تیرے اہل اور مال کے متعلق صبح شام تجھے دھوکہ دیتا رہے،اسی طرح آپ نے (۴)کنجوسی ،جھوٹ (۵)بے حد بد خلقی کا بھی ذکر فرمایا۔ (صحیح مسلم شریف) (فائدہ) ۱۔دوزخیوں کی پہلی قسم باقی اقسام سے زیادہ بری ہے ؛کیونکہ ان کے پیش نظر دنیا اورآخرت کی طرف کے کچھ مقاصد نہیں ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ جیسے ہو بس اپنے پیٹ اورفرج کی آگ بجھے اس کے لئے یاتو یہ لوگوں کے پیچھے چلتے ہوئے ان کے غلام بن جاتے ہیں یا ان کے آگے پیچھے چکر لگانے والے منگتے بن جاتے ہیں پھر اپنی مکاری اور عیاری سے اپنے پیٹ اورفرج کے لئے مکروہ عزائم پورے کرتے ہیں۔ ۲۔دوزخیوں کی دوسری قسم میں وہ خیانتی داخل ہیں جو موقعہ پاتے ہی چھوٹی موٹی ہر قسم کی خیانت کرتے اور اسے غنیمت سمجھتے ہیں ،اس خیانت میں ناپ تول میں کمی بھی شامل ہے، اسی طرح یتیموں کے اموال،اوقاف کے اموال،مدارس کے اموال اوردیگر اموال جن کا کسی کو وکیل بنایا جاتا ہے ان میں بھی وہ خیانت کرڈالتے ہیں چاہے یہ امانتیں معمولی ہوں یا غیر معمولی، یہ سب نفاق کی خصلتوں میں سے ہے اس میں عمومی طور پر یہ خیانت بھی شامل ہے جو آدمی چوری چھپے حرام چیزوں کا ارتکاب کرکے بظاہر پرہیز گار بنتا ہے اور اللہ اوراس کے رسول کے احکام میں خیانت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ۳۔تیسری قسم میں وہ دھوکہ باز ہیں جس کی صبح شام کی عادت لوگوں کو ان کےاموال اوراہل وعیال میں دھوکہ دینا ہے جبکہ دھوکہ بازی منافقوں کے اوصاف میں سے ہے، جب کہ اللہ تعالی نے ان کو اس برائی سے موصوف فرمایا ہے،(دھوکہ)کا معنی خیر کو ظاہر کرکے دکھانا اورشر کو پس پردہ رکھنا؛ تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کے اموال (اپنے) اہل وعیال تک پہنچ سکیں اوراس تدبیر سے اپنے لئے(ناجائز طور پر)منافع حاصل کرسکیں، جبکہ یہ فریب اوردھوکہ بازی میں شامل ہے اور حضوراکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: من غش فلیس منا، والمکروالخداع فی النار (ترجمہ)جس نے دھوکہ بازی کی وہ ہم (گروہ مسلمانان) میں سے نہیں ہے، فریب اوردھوکہ بازی جہنم میں ان (دھوکہ بازوں) کے ساتھ جائیں گے۔ ۴۔چوتھی قسم میں جھوٹا اورکنجوس ہے،یہ جھوٹ اورکنجوسی دونوں حرص اورلالچ سے پیدا ہوتے ہیں،ایک روایت میں ہے کہ شیطان نے کہا :ابن آدم مجھ پر ہرگز غالب نہیں ہوگا(یہ)حرام طریقہ سے مال حاصل کرے گا یا اسے غلط مد میں خرچ کرے گا یا حق کی جگہ(پر خرچ کرنے)سے روک لے گا۔ ۵۔نہایت بد خلق بھی دوزخی ہوگا حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ان من شر الناس منزلۃ عنداللہ یوم القیامۃ من ترکہ الناس اتقاء فحشہ (بخاری ومسلم) (ترجمہ)روز قیامت اللہ تعالی کے نزدیک لوگوں میں بدترین درجہ میں وہ آدمی ہوگا جسے لوگوں نے اس کی بد خلقی سے بچنے کے لئے چھوڑدیا تھا (بخاری ومسلم)اورحضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: ان اللہ یبغض الفاحش البذی ء (الترمذی) (ترجمہ)اللہ تعالی بد خلق اور بے ہودہ خرافات بکنے والے سے بغض فرماتے ہیں۔ (فائدہ)مسند احمد میں گذشتہ حدیث کے ہم معنی ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا(آدمی کو اللہ تعالی کے سامنے) شریر ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ بد خلق، خرافات بکنے والا،کنجوس اوربزدل ہو،خرافات بکنے والے کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی کوئی اس کے سامنے آئے تو گالم گلوچ اور غلیظ باتوں سے اس کا استقبال کرے اورانہیں سے اس کی تواضع کرے۔ گناہگار مسلمانوں میں سب سے پہلے جہنم میں کون داخل ہوگا؟ (حدیث)حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضرت نبی اکرم ﷺنے فرمایا: عرض علی اول ثلاثۃ یدخلون الجنۃ واول ثلاثۃ یدخلون النار فامااول ثلاثۃدق الدنیا عن طاعۃ ربہ،وفقیر متعفف ذوعیال،واول ثلاثۃ یدخلون النار فامیر متسلط وذوثروہ من مال یمنع حق اللہ فی مالہ وفقیر فخور (مسند احمد وخرج الترمذی اولہ) (ترجمہ)میرے سامنے وہ تین قسم کے لوگ پیش کئے گئے جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے اور وہ تین بھی جو سب سے پہلے جہنم میں داخل ہوں گے،پس وہ تین جو سب سے پہلے جنت میں جائیں گے۔(۱)شہید(۲)مملوک غلام جسے دنیا کی غلامی خدا کی عبادت سے نہ روکے(۳) غریب عیالداردست سوال نہ پھیلانے والا اور وہ تین جو سب سے پہلے دوزخ میں جائیں گے ان میں سے ایک وہ سربراہ(جو اپنے ظلم سے رعایاپر)مسلط ہو،دوسرا وہ مالدار جو اپنے مال میں سے اللہ کا حق (زکٰوۃ وغیرہ)ادانہ کرے،تیسرا وہ غریب جو اپنے پاس کچھ نہ ہونے کے باوجود اتراتا ہو۔ جہنم کا سب سے پہلے کون ایندھن بنے گا؟ (حدیث)حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضرت رسول اکرمﷺنے ریا کار مجاہد،قاری اورسخی کے متعلق فرمایا: اولئک اول خلق اللہ تسعر بھم النار یوم القیامۃ یا اباھریرۃ. (مسلم) (ترجمہ)یہ وہ لوگ ہیں جن سے اللہ تعالی روز قیامت آگ کو ایندھن دیں گے (مسلم شریف) (فائدہ)ریاکاروں کو سب سے پہلے جہنم کا ایندھن اس لئے بنایا جائے گا؛ کیونکہ ریا شرک اصغر ہے اور جو گناہ شرک سے متعلق ہوں گے وہ دیگر گناہوں سے عذاب میں بھی زیادہ ہیں اس لئے ان کو دوسرے گناہگاروں سے قبل جہنم میں بطور ایندھن ڈالا جائے گا۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ فاسق قراء کو مشرکین سے بھی پہلے جہنم میں ڈالا جائے گا جیسا کہ حضرت رسول اکرمﷺنے ارشاد فرمایا:: الزبانیۃ اسرع الی فسقۃ القراء منھم الی عبدۃ الاوثان فیقولون:یبدا ینا قبل عبدۃ الاوثان؟ فیقال لھم: لیس من علم کمن لا یعلم. (طبرانی وابو نعیم) (ترجمہ)جہنم کے فرشتے بت پرستوں سے پہلے فاسق فاجر قراء کی طرف لپکیں گے تو وہ کہیں گے بت پرستوں سے قبل ہمیں جہنم میں ڈالنے کی پہل کی جارہی ہے؟ تو انہیں کہا جائے گا واقف ناواقف کی طرح نہیں ہوتا۔ (طبرانی،ابو نعیم) (اس لئے پہلے تمہیں جہنم میں ڈالا جارہا ہے) (فائدہ)"روز قیامت جہنم کا آنا اور گردن نکال کر گفتگو کرنا"کے عنوان کے تحت بہت سی احادیث ذکر کی گئی ہیں کہ جہنم سے ایک گردن نکلے گی اورہولناک باتیں کرے گی اور مخلوقات کی صفوں سے مشرکین متکبرین اور تصویر کشی کرنے والوں کو چن کر جہنم میں ڈال دے گی۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ جس نے کس کا ناحق خون کیا ،اسے باقی لوگوں سے پانچ سو برس پہلے دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ حضرت ابن عباسؓ وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ سب کچھ اعمالناموں کی تقسیم اورحساب کتاب کی ترازو قائم کرنے سے پہلے ہوگاا ور ایک حدیث میں ہے کہ حضرت رسول اکرمﷺنے ارشاد فرمایا"یہ سب تمام لوگوں کے حساب کتاب سے پہلے ہوگا"۔