انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ابو القاسم مستعلی عبیدی مستعلی کے تخت نشین ہونے سے تین روز بعد نزار، قاہرہ سے روانہ ہوکر اسکندریہ چلا گیا،اسکندریہ میں بدر جمالی کا غلام نصیر الدولہ افتگین وہاں کا عامل وحکمراں تھا، وہ یہ سُن کر کہ ابو القاسم تخت نشین ہوا ہے باغی ہوگیا اور نزار کو سمتحقِ حکومت سمجھ کر اس کا مؤید بن گیا، نصیر الدولہ نے اسکندریہ میں نزار کو تخت نشین کرا کر اُس کی بیعت کی اور ’’مصطفے لدین اللہ‘‘ اس کا لقب مقرر کیا،یہ خبر قاہرہ میں پہنچی تو وزیر السلطنت محمد ملکِ فوج لے کر زار کی سرکوبی کے لئے روانہ ہوا، اورجاکر اسکندریہ کا محاصرہ کرلیا، شدت محاصرہ سے تنگ آکر محصورین نے امن کی درخواست کی اور اسکندریہ محمد ملک کے سپرد کردیا، وزیر السلطنت محمد ملک نے نزار کو گرفتار کرکے قاہرہ بھیج دیا، مستعلی نے نزار کو بلا توقف قتل کرادیا،اس کے بعد وزیر السلطنت اپنے ہمراہ نصیر الدولہ افتگن کو لئے ہوئے قاہرہ پہنچا، مستعلی نے افتگین کو بھی قتل کرادیا، اس کے بعد کسیلہ نامی ایک شخص جو شہر صور کاوالی تھا باغی ہوگیا،اس کی سرکوبی کے لئے فوج روانہ ہوئی،بڑی خوں ریزی کے بعد کسیلہ گرفتار ہوکر قاہرہ آیا اورمستعلی کے حکم سے مقتول ہوا۔ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ شام کا تمام ملک تاج الدولہ تتش سجوقی کے قبضے میں آچکا تھا تاج الدولہ تتش کی وفات کے بعد تتش کے دونوں لڑکوں دقاق اوررضوان میں خانہ جنگی برپا ہوگئی تھی، وقاق دمشق پر قابض تھا اوررضوان نے حلب پر قبضہ کرلیا تھا،بیت المقدس کی حکومت پر وقاق فی لافی کی طرف سے سلیمان بن ارتق کو مامور کررکھا تھا ۴۹۰ ھ میں یورپ کے عیسائیوں نے جن میں بڑے بڑے بادشاہ بھی شامل تھے،متحد ہوکر بیت المقدس کو مسلمانوں کے قبضے سے نکالنے کے لئے حملہ کیا، ان صلیبی حملہ آوروں کے آتے ہی انطاکیہ کا محاصرہ کیا، انطاکیہ میں ان دونوں ایک سلجوقی باغیسان نامی مامور تھا، وہ عیسائیوں کا مقابلہ نہ کرسکا اور انطاکیہ کو چھوڑ کر فرار ہوا، راستے میں کسی ارمنی نے اس کو مارڈالا اور سر اُتار کر صلیبی لشکر میں لے آیا،انطاکیہ کے اس طرح نکل جانے اور باغیسان کے مارے جانے سے ملکِ شام میں ہلچل مچ گئی ،لرلوقانامی سلجوقی سردار جو موصل کا والی تھا، عیسائی حملہ آوروں کی طرف بڑھا اورمرج وابق میں پہنچ کر پڑاؤ کیا،یہ سن کر وقاق بن تتش، سلیمان بن راتق طغتگین والی حمص بھی اپنی اپنی فوجیں لے کر بوقا کے پاس پہنچ گئے اورسب مل کر انطاکیہ کی طرف عیسائیوں کے مقابلہ کو بڑھے، عیسائی لشکر کے مقابلہ میں ان مسلمانوں سرداروں کی متحدہ فوج بے حقیقت اورنہایت قلیل تھی سخت معرکہ آرائی کے بعد مسلمانوں کو شکست ہوئی،ہزارہا مسلمان شہید ہوئے،عیسائیوں نے ان کے لشکر گاہ کو لوٹ لیا،اس کے بعد عیسائیوں نے حمص پر قبضہ کیا،پھر عکہ کا محاصرہ کرلیا،عکہ کی ترکی سلجوقی فوج نے بڑی بڑی سختیاں براداشت کیں اور مدافعت میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا۔ ابھی عیسائیوں نے عکہ کا محاصرہ کر رکھا تھا اور شام کے تمام مسلمانوں کی توجہ س طرف منعطف تھی کہ مستعلی کے وزیر محمد ملک نے مصری فوج لے کر بیت المقدس پر حملہ کردیا،شیعوں کا یہ حملہ عیسائیوں کے لئے بے حد مفید ثابت ہوا اورشام کی اسلامی فوج بیک وقت ان دونوں زبردست حملہ آسروں کا مقابلہ نہ کرسکی، سلیمان اورایلغازی بیت المقدس میں شیعوں کی مصری فوج کے مقابلے میں مصروف ہوگئے اور عکہ پر عیسائیوں کے حملہ کی روک تھام میں کوئی مدد نہ پہنچا سکے ،اُدھر جو لوگ عیسائیوں کے مقابلے پر ڈٹے ہوئے تھے وہ بیت المقدس والوں کے پاس کوئی کمک نہ بھیج سکے،نتیجہ یہ ہوا کہ بیت المقدس پر مصر کے وزیر السلطنت کا قبضہ ہوگیا اورسلیمان وایلغازی وہاں سے مشرق کی جانب چلے گئے،مصریوں کو دیر تک بیت المقدس پر قبضہ رکھنا نصیب نہ ہوا۔ عیسائیوں نے ۲۳ شعبان ۴۹۲ھ کو چالیس روز کے محاصرے کے بعد بیت المقدس کو فتح کرلیا ،شہر میں گھس کر عیسائی فتح مندوں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا، مسلمانوں نے محراب داؤد علیہ السلام میں پناہ لی کہ یہاں عیسائی قتل سے بازرہیں گے،مگر انہوں نے وہاں بھی اُن کو قتل کیا،مسجد اقصیٰ اورسخرۂ سلیمان میں ستر ہزار مسلمان شہید کئے گئے،مسجد اقصیٰ کا تمام قیمتی سامان ،قندیلیں جو چاندی اور سونے کی تھیں، سب لوٹ لیں،اس ہنگامہ میں لاتعداد مسلمان شہید ہوئے، بیت المقدس کے جس قدر مسلمان کسی نہ کسی طرح بچ کر بھاگ سکے وہ بحالت پریشان بغداد پہنچے اوروہاں عیسائیوں کے ان مظالم اورمسلمانوں کی بربادی کا حال خلیفہ بغداد کو سُنایا،خلیفہ نے برکیارق، محمد، سنجر وغیرہ سلاطین سلجوقیہ کے پاس پیغام بھیجا کر ملکِ شام کو بچاؤ،مگر یہ آپس کی خانہ جنگیوں میں ایسے مصروف تھے کہ اس طرف متوجہ نہ ہوسکے اورملکِ شام کو عیسائیوں نے خا، سیاہ بنا ڈالا ،وزیر السطنت مصر جس نے مسلمانوں کے قبضے سے بیت المقدس کو عیسائیوں سے فتح کرےلیکن عیسائیوں نے اس کے آنے کی خبر سُن کر آگے بڑھ کر مصری فوج کو شکستِ فاش دے کر بھگادیا اربھاگتے ہوؤں میں سے بھی کسی کو بچ کر نہ جانے دیا، چند آدمیوں کے ساتھ وزیر السلطنت مصر پہنچا، اس کے بعد عیسائیوں نے عسقلان کا محاصرہ کیا اور ہزار دینار تاوان لے کر وہاں سے واپس ہوئے۔