انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** غزوہ تبوک(رجب۹ہجری) اسباب : حضور اکرم ﷺ نے تبلیغ اسلام کے لئے جو خطوط بادشاہوں اور مختلف قبائل کے سرداروں کے نام بھیجے تھے اُن میں ایک خط شہنشاہ روم کے نام بھی تھا، قیصرِ روم نے حضور ﷺ اور مسلمانوں سے متعلق حالات معلوم کروائے تھے اور اسے یقین ہوگیاتھا کہ حضور اکرم ﷺ اﷲ تعالیٰ کے نبی اور رسول ہیں، مگر جب آپﷺ کا نامِ مبارک دیکھا جس میں دعوتِ اسلام دی گئی تھی تو اس نے محسوس کیا کہ اسلام اور سلطنت میں سے اُسے کسی ایک چیز ہی کو منتخب کرنا پڑے گا تو اُس نے سلطنت کو ترجیح دی، اُسی زمانے میں حضور اکرم ﷺ نے ایک خط شام کے شاہِ غسّان کے نام بھی بھیجا تھا جس میں اُسے اسلام کی دعوت دی گئی تھی لیکن شام کی سرحد پر وہاں کے حاکم شرحبیل بن عمرو غسّانی نے حضور اکرم ﷺ کے قاصد حضرت حارثؓ بن عُمیر ازدی کو قتل کردیاتھا، سفیر کا قتل ایک بڑا جرم تھا جس کی تنبیہ کے لئے حضور اکرم ﷺ نے تین ہزار صحابہ کرامؓ کی ایک جمعیت کو سرحدِ شام کی طرف روانہ کیا تھا، شرحبیل بھی اسلامی لشکر کے مقابلہ کے لئے ایک لاکھ شامی اور رُومی سپاہیوں کی فوج لے کر میدان میں آگیاتھا، چنانچہ دونوں لشکروں کا مقابلہ موتہ کے مقام پر ہوا، اس نازک موقع پر حضرت خالدؓ بن ولید نے اپنی بے نظیر فوجی مہارت سے کام لے کر عیسائیوں کی اس مزاحمت کو ناکام بنادیاتھااور مسلمان اپنی بہادری اور دلیری کا سکّہ بٹھا کر واپس آگئے تھے، اس وقت سردارانِ شام کو مسلمانوں کی طاقت کا اندازہ ہوگیاتھااور آئندہ پیش آنے والے خطرات کے انسداد کے لئے انھوں نے فوجی تیاریاں شروع کردی تھیں ، غسّانی خاندان جو شام میں رُومیوں کے زیر اثر حکومت کر رہاتھا مذہباً عیسائی تھا اس لئے قیصرِ روم کی مدد ان کو حاصل تھی، مکّہ، حنین و طائف کی فتح کی خبر سن کا قیصرِروم اور دیگر سردارانِ قبائل گھبرا گئے، انھوں نے خیال کیا کہ اب لشکرِ اسلام کا رُخ ان کی طرف ہوگا ،یہ خیال کرکے انھوں نے مدینہ پر حملہ کی تیاریاں شروع کردیں، شام کے نبطی سوداگر مدینہ میں روغنِ زیتون بیچنے آیاکرتے تھے، انھوں نے مسلمانوں کو خبر دی کہ رُومیوں نے شام میں چالیس ہزار کا لشکر جمع کرلیاہے جس میں رُومی اور شامی باقاعدہ فوجوں کے علاوہ لخم ، خذام اور غسّان کے تمام عرب شامل ہیں جنھیں ایک سال کی پیشگی تنخواہیں بھی دے دی گئی ہیں اور یہ لشکرِ جرار مدینہ کی طرف بڑھتے ہوئے بلقا تک پہنچ گیا ہے،