انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ہرایک تک حدیث پہنچانا آنحضرتﷺ کے پاس مختلف مقامات سے لوگ آتے آپ انہیں علم وایمان کی باتیں سمجھاتے اور ارشاد فرماتے کہ وہ اپنے علاقے میں جاکر یہ باتیں دوسروں تک بھی پہنچائیں، آپ کے پاس وفد عبدالقیس آیا اور انہوں نے حضورﷺ سے دین کی بہت سی باتیں دریافت کیں اور جب جانے لگے توآپ نے فرمایا: "احفظوہ واخبروہ من وراء کم " (صحیح بخاری:۱/۳۲) ترجمہ:انہیں یاد رکھو اور جولوگ تمہارے پیچھے ہیں انہیں ان کی خبر کرو۔ حافظ بدرالدین العینی رقمطراز ہیں: "من علم علماً انہ یلزمہ تبلیغہ لمن لایعلمہ وھوالیوم من فروض الکفایۃ لظھور الاسلام وانتشارہ واما فی اول الاسلام فانہ کان فرض عینا ان یبلغہ حتی یکمل الاسلام ویبلغ مشارق الارض ومغاربھا " (عمدۃ القاری:۲/۱۰۰) ترجمہ:جوکوئی (دین کی) بات جانے اس کا ان لوگوں تک پہنچانا لازم ہے، جو نہیں جانتے، آج یہ چیز فرضِ کفایہ ہے؛ کیونکہ اسلام ظاہرہوچکا اور پھیل چکا؛ لیکن پہلے دور میں یہ بات فرض عین تھی کہ ہرجاننے والا اس بات کودوسروں تک پہنچائے یہاں تک کہ دین کامل ہوجائے اور مشرق ومغرب تک پھیل جائے۔ حضرت ابوشریح کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فتح مکہ کے دوسرے دن قدسیت مکہ پر ایک نہایت دل پذیر تقریر فرمائی اور آخر میں کہا: "لیبلغ الشاھد الغائب" (بخاری:۱/۳۷۔ ابنِ ماجہ:۲۱) ترجمہ: چاہئے کہ تم میں سے جومیرے پاس حاضر ہے وہ اسے پہنچادے جومجھ سے غائب ہے اور سنن ابی داؤد میں ہے: "لیبلغ شاھد کم غائبکم" ترجمہ: تم میں سے جوحاضر ہے اپنی اپنی قوم کے ان لوگوں تک جومجھ سے غائبین ہیں اس پیغام کوپہنچادے۔ یہ بات صرف مردوں تک محدود نہیں، عورتوں میں بھی دین کی یہ تعلیم جاری کی جاسکتی ہے، حضرت امام بخاریؒ نے اس کے لیے مستقل باب باندھے ہیں: "باب عظۃ الامام النساء وتعلیمھن (بخاری:۱/۳۵) باب ھل یجعل للنساء یوم علی حدۃ من العلم" (بخاری:۱/۳۶) اس دینی ضرورت کے لیے ان کا مردوں سے ہمکلام ہونا اور سوال وجواب کرنا ممنوع نہیں، حافظ عینیؒ رقمطراز ہیں: "فیہ سوال النساء عن امردینھن وجواز کلامھن مع الرجال فی ذالک وحیثما لھن الحاجۃ الیہ"۔ (عمدۃ القاری:۱۲۲) ترجمہ: اس میں عورتوں کا اپنے دین کے بارے میں سوال کرنا اور ان کا دوسرے مردوں سے کلام کرنا مذکور ہے اور یہ کہ جب انہیں اس کی حاجت ہو یہ ان کے لیے جائز ہے۔