انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** آداب حدیث عمل صحابہ ؓ کی رو سے جن حضرات نے حلقۂ نبوت میں تربیت پائی تھی ان سے زیادہ حدیث کا احترام کرنے والا کون ہوسکتا ہے، حضرت عمرو بن میمون تابعیؒ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی خدمت میں ہرجمعرات کو حاضر ہوتے تھے آپ ایک رات کا واقعہ نقل کرتے ہیں: "فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ عَشِيَّةٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَكَسَ قَالَ فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ فَهُوَ قَائِمٌ مُحَلَّلَةً أَزْرَارُ قَمِيصِهِ قَدْ اغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ وَانْتَفَخَتْ أَوْدَاجُهُ قَالَ أَوْدُونَ ذَلِكَ أَوْفَوْقَ ذَلِكَ"۔ (ابن ماجہ، كِتَاب الْمُقَدِّمَةِ،بَاب التَّوَقِّي فِي الْحَدِيثِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۲۳، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:ایک رات آپ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے ایسا فرمایا تھا آپ حضورﷺ کی حدیث بیان کرتے ہوئے سرنگوں ہوگئے تھے پھر میں نے آپ کی طرف دیکھا کہ آپ کھڑے ہیں بٹن کرتے کے کھلے ہیں آنکھیں آنسوؤں سے تر ہیں، رگیں پھولی ہوئی ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ حضورﷺ نے اس سے ذراکم یاکچھ زیادہ یااس کے قریب قریب یااس سے ملتی جلتی بات فرمائی تھی۔ اس حلقہ ارشاد میں جب حدیث رسول کا اتنا ادب تھا کہ مجال ہے کوئی بات خلاف مرادِرسولﷺ ، صحابہؓ کی زبان سے نکلے، توظاہر ہے کہ ہماری مجالس اور ہمارے مدارس میں بھی حدیث بڑے ادب واحترام سے روایت کی جانی چاہیے۔ صحابہ کرامؓ جنھوں نے حلقۂ نبوت میں تربیت پائی تھی وہ حدیث کے احترام میں جھکے جاتے تھے، جب حضورؐﷺ کی کوئی حدیث سامنے آتی وہ جھٹ اپنی بات چھوڑ دیتے، ایک دفعہ حضرت کعب احبار اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما میں کسی موضوع پر اختلاف ہوگیا، کعب احبارؓ کی تورات کی ایک یادداشت صحیح نہ تھی، حضرت ابوہریرہؓ حضورﷺ سے اس کے خلاف روایت کررہے تھے، حضرت کعبؓ نے جب تورات کھولی توروایت ابوہریرہؓ کودرست پایا، فوراً پکار اُٹھے، صدقَ رسول اللہﷺ آنحضرتؐ ﷺ نے سچ فرمایا۔ (سنن نسائی،كِتَاب الْجُمْعَةِ،ذِكْرُ السَّاعَةِ الَّتِي يُسْتَجَابُ فِيهَا الدُّعَاءُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ،حدیث نمبر:۱۴۱۳، شاملہ،موقع الإسلام) حضرت ابوہریرہؓ کا صحت حدیث پر اصرار اور اس کے مقابلہ میں تورات کی بات کونہ ماننا اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ صحابہؓ کے ہاں حدیث کی اہمیت اور اس کا ادب کتنا تھا۔ حضرت عمرو بن میمون فرماتے ہیں کہ: میں ابن مسعودؓ کے پاس ایک سال تک برابر آتا جاتا رہا مگر ان کوکسی وقت بھی بےتعظیمی سے قال رسول اللہﷺ فرماتے نہیں سنا اور جب کہ ایک دن بے خیال میں ان کی زبان پر یہ جاری ہوگیا تووہ اتنے روئے کہ ان کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا اور وہ پسینہ پسینہ ہوگئے۔ (مدارج النبوۃ:۱/۵۴۱) حضرت انس بن مالکؓ حضورﷺ سے جب کوئی حدیث نقل کرتے تومحض اس لیے کہ نادانستہ طور پر کوئی بات خلاف مرادِ مصطفیٰ زبان سے نہ نکل گئی ہو، آخر میں کہدیتے "أَوْکَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللہِ"ﷺ (یاجیسا حضورﷺ نے فرمایا ہو) یعنی میری بات اگرکسی پہلو سے صحیح نہ ہوتو حضورﷺ کی بات تویقیناً صحیح اور برحق ہےوہی میری بات رہنے دو۔