انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۶۱۔محمد بن اسحٰقؒ نام ونسب محمد نام،ابو عبداللہ کنیت والد کا نام اسحٰق تھا،ان کے دادا یسار عین التمر کے قیدیوں میں تھے اورغالباً اسی تعلق سے ابن اسحاق بھی غلامی کے سلسلہ میں منسلک تھے چنانچہ وہ قیس بن مخزمہ بن مطلب بن عبد مناف کے غلام تھے۔ فضل وکمال علمی اعتبار سے ابن اسحاق ممتاز تابعین میں تھے خصوصا فن مغازی اورسیرت کے امام تھے۔ حدیث میں ان کاپایہ حدیث کے اکابر حفاظ میں تھے،اگرچہ امام مالک اوربعض دوسرے علماء نے ان پر جرح کی ہے لیکن ایک دو کے علاوہ اورباقی تمام آئمہ اور ارباب کمال کا ان کے حفظ پر اتفاق ہے،ابوذرعہ عبدالرحمن بن عمرو النصری روایت کرتے ہیں کہ محمد بن اسحق ایسے شخص ہیں جن سے اخذ حدیث میں تمام بڑے بڑے اہل علم سفیان ثوری،شعبہ،ابن عینیہ،حماد بن زید، حماد بن سلمہ، ابن مبارک اورابراہیم بن سعد وغیرہ کا اتفاق ہے،اکابر میں یزید بن ابی حبیب نے ان سے روایت کی ہے،اہل حدیث نے ان کا امتحان لیا تو انہیں سچا اورخیر پایا۔ (تاریخ خطیب بغدادی:۱/۲۲۴) علماء کا اعتراف شعبہ ان کو امیر المومنین فی الحدیث اورامیر الحدثین کہتے تھے لوگوں نے پوچھا کیوں؟ جواب دیا ان کے حفظ کی وجہ سے (ایضا:۲۲۸) یزید بن ہارون کہتے ہیں کہ میرے ہاتھوں میں حکومت ہوتی تو محمد بن اسحٰق کو محدثین کا سردار بناتا ،ابو معاویہ انہیں حفظ الناس اوریحییٰ بن معین انہیں ثقہ اورحسن الحدیث کہتے تھے (تاریخ خطیب بغدادی:۱/۲۱۸، ۲۴) علی بن مدائنی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث کا مدار چھ شخصوں پر تھا،پھر ان چھ آدمیوں کا علم بارہ میں منتقل ہوگیا تھا ان میں ایک ابن اسحٰق تھے۔ (ایضاً:۲۱۹) امام زہری کا طرز عمل خود ان کے استاد امام زہری کو ان کے علم پر اس قدر اعتماد تھا کہ فرماتے تھے،جب تک محمد بن اسحٰق موجود ہیں،اس وقت تک اہل مدینہ میں علم رہے گا (ایضاً) چنانچہ جب وہ مدینہ کے باہر جاتے تھے تو ان کو اپنا قائم مقام بناجاتے تھے، ایک مرتبہ باہر جارہے تھے،بعض شائقین علم نے بھی ساتھ جانا چاہا،زہری نے ان سے کہا کہ احول غلام (ابن اسحاق)کو تم میں چھوڑے جاتا ہوں (ابن خلکان اول:۴۸۴) ان کی یہ جانشینی زہری کے تلامذہ میں مسلم تھی چنانچہ ان کے بعد وہ لوگ ان کی روایات کی تصدیق کے لیے ابن اسحٰق کی طرف رجوع کرتے تھے۔ (ایضاً:۴۸۴) زہری انہیں اس قدر مانتے تھے کہ دربانوں کو خاص ہدایت دے رکھی تھی کہ ابن اسحٰق جس وقت بھی آئیں انہیں آنے دیا جائے،ایک مرتبہ ابن اسحٰق نے آنے میں معمولی سے دیر کی،زہری نے پوچھا کہاں تھے،انہوں نے کہا حاجبوں اوردربانوں کی وجہ سے کوئی شخص آپ تک پہنچ بھی سکتا ہے،زہری نے اسی وقت دربان کو بلاکر حکم دیا کہ ابن اسحٰق جس وقت بھی آئیں،انہیں روکا نہ جائے۔ (تاریخ خطیب بغدادی :۱/۲۱۹) مالک اورہشام کی جرح اوراس کے اسباب ان محامد اورکمالات کے ساتھ ابن اسحٰق پر امام مالک اورہشام کی جرح بھی ملتی ہے،خصوصاً امام مالک کی رائے ان کے بارہ میں زیادہ سخت تھی اوروہ ان کے متعلق نا ملائم الفاظ تک استعمال کرجاتے تھے۔ ہشام بھی انہیں لائق اعتماد نہ سمجھتے تھے،لیکن محدثین نے خود ان دونوں کی جرح کے اسباب بیان کردیئے ہیں، اس کی تفصیل یہ ہے کہ امام مالک اتنے متشدد تھے اور ا ن کا معیار اتنا بلند تھا کہ اگر کسی میں ادنی خامی بھی ہوتی تھی تو وہ اس کے متعلق سخت الفاظ استعمال کرنے میں دریغ نہ کرتے تھے،خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ بعض علماء کا بیان ہے کہ امام مالک کے ہمعصر علماء نے ان لوگوں پر جو صلاح ،تقوی، دینداری،ثقاہت اورامامت میں مشہور تھے امام مالک کی درشتی زبان پر نکتہ چینی کی ہے (تاریخ خطیب بغدادی:۱/۲۲۳)دوسری وجہ یہ تھی کہ ابن اسحٰق خود امام مالک پر طعن کیا کرتے تھے اورلوگوں سے کہتے تھے کہ مالک کی حدیثیں مجھے سنایا کرو میں ان کے امراض کا طبیب ہوں (ابن خلکان :۱/۴۸۲)ایسی حالت میں اگر امام مالک نے ان کے متعلق درشت الفاظ استعمال کیے تو اس سے ابن اسحٰق کی ثقاہت مجروح نہیں ہوسکتی۔ تیسرا سبب یہ ہے کہ ابن اسحٰق غزوات کی روایات قبول کرنے میں محتاط نہ تھے اس لیے امام مالک ان کے مغازی پر طعن کرتے تھے،ان کی احادیث کو اس جرح سے کوئی تعلق نہ تھا، ابن حبان لکھتے ہیں کہ مالک نے صرف ایک مرتبہ محمد بن اسٰحق کے بارہ میں کہا تھا،پھر ان کے رتبہ کے مطابق ان سے برتاؤ کرتے تھے، مالک ان کی احادیث کی وجہ سے نہیں ؛بلکہ مغازی کی وجہ سے ان پر جرح کرتے تھے ؛کیونکہ ابن اسحٰق غزوۂ خیبر وغیرہ کے حالات یہودیوں کی نو مسلم اولادوں سے سنتے تھے جن کو وہ اپنے بزرگوں سے سُن کر بیان کرتے تھے گو ابن اسحٰق ان بیانات سے حجت نہیں لاتے تھے،لیکن امام مالک متقن کے علاوہ کسی دوسرے سے روایت لینا جائز نہ سمجھتے تھے۔ (تہذیب التہذیب:۹/۴۵) بعض علماء کا بیان ہے کہ مالک کی جرح مغازی کی بنا پر بھی نہ تھی ؛بلکہ بعض عقائد کی بنا پر تھی عبدالرحمن بن عمرو النصری کا بیان ہے کہ میں نے وحیم کے سامنے ابن اسحق کے بارے میں مالک کی طرح کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا،یہ احادیث کی وجہ سے نہ تھی؛بلکہ اس لیے تھی کہ امام مالک انہیں قدر کے عقیدے سے مہتمم سمجھتے تھے۔ (تاریخ خطیب :۱/۲۲۴) بہر حال ان تمام روایات سے اتنا معلوم ہوگیا کہ امام مالک کی جرح کا سبب ابن اسحٰق کی بے اعتباری اوران کا ضعف نہ تھا؛بلکہ اس کے اسباب دوسرے تھے،اس لیے اس جرح سے ان کی مرویہ احادیث پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا، اسی لیے امام مالک کے علاوہ اورآئمہ اور علماء ان کی روایات قبول کرتے تھے،خود امام احمد بن حنبل جو عقیدہ کے تشدد میں امام مالک سے کم نہ تھے،ابن اسحٰق کی روایات قبول کرتے تھے۔ امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے عبداللہ نے ایک شخص کے جواب میں جس نے ابن اسحٰق کے بارہ میں ان سے پوچھا تھا کہ میرے والدان کی روایات جانچ کر قبول کرتے تھے اورمسند میں لیتے تھے،لیکن سنن میں ان سے احتجاج نہیں کرتے تھے۔ (ایضاً:۲۳۰) امام مالک کے بعد ابن اسحٰق پر جرح کرنے والوں میں دوسرا نام ابن ہشام کا ہے،اسی کی حقیقت یہ ہے کہ ہشام ان کو محض اس لیے لائق اعتماد نہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے ان کی بیوی فاطمہ بنت منذر سے بعض روایتیں کی ہیں،ہشام کہتے تھے کہ انہوں نے میری بیوی سے جو ایک پردہ نشین خاتون تھیں اور جن پر نوسال کی عمر سے موت تک کسی مرد کی نظر نہیں پڑی،کیسے احادیث سنیں؛ لیکن جیسا کہ بعض محدثین نے لکھا ہے کہ محض اس دلیل پر ابن اسحٰق کی روایات کو غلط کہنا صحیح نہیں ہے،کیونکہ وہ پردہ کی آڑ سے سن سکتے تھے،ابن حبان لکھتے ہیں کہ محمد بن اسحٰق کے بارہ میں ہشام اورمالک دو آدمیوں نے کلام کیا ہے،لیکن ہشام کے قول سے کوئی انسان بھی مجروح نہیں ہوسکتا، تابعین بغیر چہرے پر نظر ڈالے ہوئے حضرت عائشہؓ سے سُنا کرتے تھے، اسی طریقہ سے ابن اسحٰق نے فاطمہ سے سنا ہوگا،درمیان میں پردہ حائل رہا ہوگا۔ (تہذیب التہذیب:۹/۴۵) شیوخ ابن اسحٰق خاص شاگرد تو امام زہری کے تھے، لیکن ان کے علاوہ بھی انہوں نے بہت سے شیوخ سے استفادہ کیا تھا، چنانچہ ان کے شیوخ میں عبید اللہ بن عبداللہ بن عمرو بن کعب ابن مالک،محمد بن ابراہیم تیمی،قاسم بن محمد بن ابی بکر، محمد بن جعفر بن زبیر، عاصم بن عمرو بن قتادہ،عباس بن سہل بن سعد،ابن منکدر،مکحول،ابراہیم بن عقبہ،حمید الطویل،سالم ابی النضر،سعید مقبری،سعید بن ابی ہند، ابی الزناد عبدالرحمن بن اسود نخعی،عطاء بن ابی رباح،عکرمہ ابن خالد علاء بن عبدالرحمن وغیرہ جیسے اکابر علماء تھے۔ (ایضاً:۳۹) تلامذہ خود ابن اسحٰق سے فیض اٹھانے والوں کی فہرست نہایت طویل ہے،ان میں بعض ممتاز تلامذہ کے نام یہ ہیں،جریر بن حازم،عبداللہ بن سعید، ابن عون ،ابراہیم بن سعد،شعبہ سفیان ،زہیر بن معاویہ، ابن ادریس ،ابو عوانہ،عبدالاعلیٰ،عبداہ بن سلیمان ،جریر بن عبدالحمید اورزیاد البکائی وغیرہ۔ (ایضاً:۳۹) سیرت ومغازی ابن اسحٰق کا اصل فن مغازی وسیرت تھا،اس کے وہ امام تھے،حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ مغازی اور سیرت کی معرفت میں حبر تھے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۵۶)امام شافعی کہتے تھے کہ جو شخص مغازی میں تبحر حاصل کرنا چاہتا ہے وہ ابن اسحٰق کا دست نگر ہے (تاریخ خطیب :۲۱۹)خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس علم کی طرف توجہ کی اور اس کو اتنا بڑھا یا کہ ان کے بعد پھر کوئی اس پر اضافہ نہ کرسکا اور سلاطین اورامراء کی توجہ بے نتیجہ اورلا یعنی قصص وحکایات سے تاریخ کی طرف پھیردی،اس طرح انہوں نے سب سے پہلے تاریخ کا مذاق پیدا کیا،ابن عدی کا بیان ہے کہ اگر اس فضیلت کے علاوہ ابن اسحٰق میں اورکوئی فضیلت نہ ہوتی کہ انہوں نے سلاطین کا مذاق بدل کر ان کی توجہ اور مشغولیت لاحاصل کتابوں سے رسول اللہ ﷺ کے مغازی آپ کی سنت اورآغاز عالم کی تاریخ کی جانب پھیردی،تو تنہا یہی کارنامہ اوراولیت کا یہ فخر ہی ان کی فضیلت کے لیے کافی تھا، ان کے بعد بہت سے لوگوں نے اس فن پر کتابیں لکھیں؛ لیکن کوئی ان کے درجہ کو نہ پہنچ سکا (تہذیب :۹/۴۴) خود امام زہری جن سے انہوں نے اس فن کو حاصل کیا اس میں ان کی وسعتِ علم کے معترف تھے۔ (تاریخ خطیب :۱/۲۱۹) تاریخ اگرچہ مغازی اورسیرت تاریخ ہی کی ایک شاخ ہے،لیکن اس کے علاوہ ابن اسحٰق تاریخ عام کے بھی عالم تھے،خطیب لکھتے ہیں کہ وہ سیرت، مغازی،ایام ناس،آغاز خلق اورقصص انبیاء کے عالم تھے۔ (ایضاً:۲۵) تصانیف انہوں نے تاریخ اورسیرت پر متعدد مستقل تصانیف کی تھیں،ابن ندیم لکھتے ہیں: ولہ من الکتب کتاب الخلفا رواہ عنہ الاموی کتاب السیرۃ والمبتداء والمغازی (فہرست ابن ندیم:۱۳۶) ان کی سب سے مشہور اورقدیم ترین کتاب سیرت ابن اسحٰق ہے،یہ کتاب صدیوں سے ناپید ہوگئی ہے،لیکن اس لحاظ سے اس کی روایات اب تک محفوظ ہیں کہ ابن ہشام کی سیرت کا سب سے بڑا ماخذ یہی ہے،اس لیے اس کی تمام روایتیں اس میں محفوظ ہوگئی ہیں، موجودہ سیرت ابن ہشام درحقیقت ابن اسحٰق کی سیرت کا مثنیٰ ہے۔ ابن اسحٰق نے یہ کتاب خلیفہ مہدی عباسی کے کسی لڑکے کے لیے لکھی تھی،اس کی تالیف کا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ مہدی کے دربار میں گئے،اس وقت مہدی کا لڑکا بھی موجود تھا،مہدی نے ابن اسحٰق سے پوچھا اس کو جانتے ہو،انہوں نے کہا امیر المومنین کے صاحبزادے ہیں، مہدی نے فرمائش کی کہ ان کے لیے ایک ایسی کتاب لکھو جس میں خلق آدم سے لے کر اس وقت تک کے حالات ہوں، اس حکم کے مطابق انہوں نے کتاب لکھ کر پیش کی،مہدی نے دیکھ کر کہا یہ کتاب تو بہت طویل ہے، اس کو مختصر کرو؛چنانچہ انہوں نے دوبارہ اس کو مختصر کیا اورپہلی کتاب مہدی کے کتاب خانہ میں رکھ دی۔ (فہرست ابن ندیم:۱۳۶،طبع مصر ) عقیدۂ قدر بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن اسحٰق قدری تھے،لیکن کچھ روایات اس کے خلاف بھی ہیں، محمد بن عبداللہ بن نمیر کا بیان ہے کہ ابن اسحٰق قدر سے متہم کیے جاتے تھے،حالانکہ ان کو اس سے دور کا لگاؤ بھی نہ تھا۔ (تاریخ خطیب :۱/۲۲۲) وفات ابتداء میں وہ مدینہ میں رہتے تھے پھر یہاں کا قیام ترک کرکے کوفہ،جزیرہ اوررے وغیرہ مختلف مقامات میں پھرتے رہے، آخر میں بغداد چلے گئے تھے اوریہیں ۶۵۶ میں وفات پائی اور ہارون رشید کی ماں خیزران کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ (ابن سعد،ج۷،ق۲،ص۲۷)