انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابان بن سعید بن العاصؓ نام ونسب ابان نام،سلسلہ نسب یہ ہے،ابان بن سعید بن العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی القرشی الاموی،ماں کا نام ہند بنت مغیرہ تھا، ان کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت پر عبدمناف پر آنحضرتﷺ سے مل جاتا ہے۔ (اسد الغابہ:۱/۳۵) زمانہ ٔجاہلیت اسلام لانے کے قبل ابان بھی دوسرے اہل خاندان کی طرح آنحضرتﷺ اورمسلمانوں کے سخت خلاف تھے؛چنانچہ جب ان کے بھائی خالدؓ اورعمروؓ مشرف باسلام ہوئے توانہوں نے اشعار میں اظہار ناراضی کیا،(اسدالغابہ:۱/۳۵) جس کا ایک شعریہ ہے۔ الالیت میتا بالظریبہ شاھد لمایفتری فی الدین عمروخالد (کاش ظریبہ میں موت کی نیند سونے والا دیکھتا کہ عمرو اورخالد نے دین میں کیا افترا کیا ہے) غزوۂ بدر میں مسلمانوں کے خلاف مشرکین کی حمایت میں اپنے بھائی عبیدہ اور عاص کے ساتھ لڑنے نکلے،عبیدہ اورعاص مسلمانوں کے ہاتھ سے مارے گئے؛لیکن ابان بچ کر نکل گئے۔ (اصابہ:۱/۱۰) صلح حدیبیہ کے موقع پر جب آنحضرتﷺ نے حضرت عثمانؓ کو قریش کے پاس صلح کی گفت وشنید کے لیے بھیجا تو وہ ابان ہی کے یہاں مہمان ہوئے تھے، کیوں کہ یہ حضرت عثمانؓ کے عزیز تھے اوران ہی نے ان کی حفاظت کی ذمہ داری لی تھی۔ (استیعاب:۱/۳۵) ایک راہب سے گفتگو گووہ اسلام اورپیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف تھے تاہم اصل حقیقت کی جستجورہتی تھی اورآنحضرتﷺ کی نبوت کے بارہ میں واقف کاروں سے پوچھا کرتے تھے،اس وقت شام اصحاب علم وخبر کا مرکز تھا، یہ تجارت کے سلسلہ میں وہاں جایا کرتے تھے،ایک مرتبہ ایک راہب سے کہا میں قبیلہ قریش سے تعلق رکھتا ہوں، اس قبیلہ کا ایک شخص اپنے کو خدا کا فرستادہ ظاہر کرتا ہے اورکہتا ہے کہ مجھ کو بھی خدا نے عیسیؑ اورموسیٰؑ کی طرح نبی بناکر بھیجا ہے راہب نے نام پوچھا، انہوں نے کہا محمدﷺ ،راہب نے صحف آسمانی کی رو سے نبی مبعوث کاسن اورنسب وغیرہ بتایا ،ابان نے کہا یہ تمام باتیں تو اس شخص میں موجود ہیں،راہب نے کہا تو خدا کی قسم،وہ شخص عرب پر اقتدار حاصل کرنے کے بعد تمام دنیا پر چھاجائے گا،تم واپس جانا تو خدا کے اس نیک بندے تک میرا سلام پہنچادینا؛چنانچہ ابان جب واپس ہوئے تو رنگ بدل چکا تھا اوراسلام اورمسلمانوں کے ساتھ وہ پرخاش باقی نہ رہی۔ (اسد الغابہ:۱/۳۶) اسلام وہجرت کچھ دنوں تک آبائی مذہب کی لاج اورہم چشموں کی طعنہ زنی کے خیال سے خاموش رہے لیکن زیادہ دنوں تک جذبہ حق نہ دب سکا اورخیبر کے قبل مشرف باسلام ہوگئے،(استیعاب:۱/۳۵) اورغالبا اسلام کے بعد ہی ہجرت کی سعادت بھی حاصل کی۔ غزوات اسلام لانے کے بعد ہی آنحضرتﷺ نے ایک سریہ کا امیر بناکر نجد روانہ کیا،وہاں سے کامیاب ہوکر واپس ہوئے تو خیبر فتح ہوچکا تھا، اسی وقت حضرت ابوہریرہ بھی مہاجرین حبش کے ساتھ واپس ہوئے تھے،دونوں نے عرض کیا یا رسول اللہ خیبر کے مال غنیمت سے کچھ ہم لوگوں کو بھی مرحمت ہو، ان میں اورحضرت ابوہریرہؓ میں پہلے سے کچھ چشمک تھی،انہوں نے کہا یا رسول اللہ ان لوگوں کو نہ دیجئے،ابان کو غصہ آگیا بولے پہاڑ کی بھیڑی اتری وہ بھی بولی!آنحضرتﷺ نے دونوں کو خاموش کیا۔ (بخاری،جلد۲،کتاب المغازی غزوۂ خیبر میں دو مختلف قسم کی روایتیں ہیں ہم نے دونوں کی قطبیق کی کوشش کی ہے) نجد کی مہم کے علاوہ ان کو دوسرے سریوں کی امارت بھی عطا کی گئی۔ بحرین کی امارت علاء بن حضرمی کو معزول کرنے کے بعد آنحضرتﷺ نے ان کو بحرین کے بری اوربحری دونوں حصوں کا عامل مقرر کیا، آپ کی وفات تک یہ اپنے فرائض ذمہ داری سے انجام دیتے رہے، وفات کی خبر سن کر وہاں سے واپس ہوئے۔ (استیعاب:۱/۳۵) خلافت صدیقی حضرت ابوبکرؓ کی بیعت عام کے بعد قریش کے جو چند افراد کچھ دنوں تک ان کی بیعت سے دست کش رہے تھے،ان میں ایک ابان بھی تھے؛لیکن جب بنو ہاشم نے بیعت کرلی ،تو ان کو بھی کوئی عذر نہ ہوا،صدیق اکبر نے آنحضرتﷺ کے کسی عامل کو معزول نہیں کیا تھا، ابان بھی آپ کے مقرر کردہ عامل تھے،اس لیے ان سے دوبارہ واپس جانے کی خواہش کی ؛لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں آنحضرتﷺ کے بعد کسی کا پیش کردہ عہدہ قبول نہیں کرسکتا،بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ دنوں تک اس عہد پر قائم نہیں رہے اورخلیفۂ اول کے اصرار پریمن کی گورنری قبول کرلی۔ (اسد الغابہ:۱/۳۷) وفات زمانہ وفات میں بہت اختلاف ہے،بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے آخر عہدِ خلافت میں جنگ اجنادین میں شہادت پائی،ابن اسحق کی روایت ہے کہ جنگ یرموک میں شہید ہوئے،ایک اورروایت سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عثمان کے عہدِ خلافت تک زندہ تھے اورمصحف عثمانی ان ہی کی نگرانی میں حضرت زید بن ثابتؓ کاتب وحی نے لکھا تھا؛لیکن ان سب میں مستند تراجنادین کی شہادت کی روایت ہے ؛چنانچہ مصعب ،زبیر اوردوسرے نسابوں کا بھی یہی خیال ہے۔ (استیعاب:۱/۳۶)