انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عبدالاعلی بن مسہرؒ (ابو مسہر) نام ونسب نام عبدالاعلیٰ،ابو مسہر کنیت اورلقب ابن ابی دارمہ تھا،نسب نامہ یہ ہے،عبدالاعلیٰ بن مسہر بن عبدالاعلیٰ بن مسلم،اصل نام کی بجائے کنیت ہی کو زیادہ شہرت حاصل تھی، اسی لیے ابن سعد اوربعض دوسرے اہل طبقات ان کا تذکرہ ان ائمۃ کے ساتھ کرتے ہیں جو اپنی کنیتوں سے معروف آفاق ہوئے،مشہور قبیلہ ازد کی ایک بڑی شاخ غسان سے تعلق رکھنے کے باعث غسانی کہلائے۔ (اللباب فی تہذیب الانساب:۲/۱۷۲) ولادت اوروطن باتفاق روایت ان کی ولادت ۱۴۰ھ میں بمقامِ دمشق ہوئی۔ (تہذیب التہذیب:۲۵/۱۰۰) فضل وکمال امام ابو مسہرؒ اپنے زمانہ کے منتخب علماء میں شمار کیے جاتے ہیں،مختلف علوم وفنون کی جامعیت اورمہارت میں ان کی نظیر اتباع تابعین میں شاذونادرہی ملتی ہے،حدیث وفقہ ،علم رجال وانساب اورفن مغازی میں اس وقت شام میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، تثبت واتقان ،فصاحت وبلاغت اورعدالت میں بھی نہایت بلند پایہ رکھتے تھے،ابو حاتم فرماتے ہیں۔ مارأیت ممن کتبنا عنہ افصح من ابی مسھر (خلاصہ تذہیب :۲۲۱) میں نے اپنے شیوخ میں ابو مسہر سے زیادہ فصیح کسی کو نہیں دیکھا۔ علامہ ابن اثیر رقمطراز ہیں: کان اعلم الناس بالمغازی وایام الناس (اللباب فی تہذیب الانساب:۲/۱۷۴) وہ مغازی اور تاریخ کے بہت بڑے عالم تھے۔ ابن حماد حنبلی ان کو عالم اھل الشام کا خطاب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: کان علامۃ بالمغازی والاثر کثیر العلم رفیع الذکر (شذرات الذہب :۲/۱۴۴) وہ فن مغازی اورحدیث کے زبردست عالم اورجلیل المرتبت انسان تھے۔ حافظ ذہبی "شیخ اھل الشام وعالمھم"کے الفاظ سے ان کے فضل وکمال کا اعتراف کرتے ہیں ۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۴۹) شیوخ وتلامذہ انہوں نے جن نامور ائمہ سے حدیث کی روایت اوردوسرے علوم کی تحصیل کی ان میں سے کچھ یہ ہیں۔ امام مالک بن انس،اسماعیل بن عیاش،سفیان بن عیینہ،سعید بن عبدالعزیز،صدقہ بن خالد،یحییٰ بن حمزہ الحضرمی،محمد بن حرب،ہقل بن زیاد،خالد بن یزید،محمد بن مسلم الطائفی، ان کے شاگردوں کی فہرست بھی طویل ہے،چند ممتاز نام حسبِ ذیل ہیں: امام بخاری،محمد بن یحییٰ الذہلی، احمد بن صالح،احمد بن حنبل،یحییٰ بن معین، ابو حاتم ابوزرعہ،محمد بن اسحاق الصنعانی،محمد بن ابو الولید الدمشقی،محمد بن الحسین السمنانی، عمرو بن منصور، النسائی،عباس بن الولید الخلال،مروان بن محمد الطاطری،سلیمان بن عبدالرحمن دمشقی،احمد بن ابی الحواری۔ (تہذیب التہذیب:۶/۹۸،۹۹) مرویات کا پایہ حفاظ حدیث کی طویل فہرست میں ایسے خوش نصیب خال خال ہی ملتے ہیں جو ماہر ین جرح وتعدیل کی گرفت سے محفوظ رہے ہوں ،امام ابو مسہر کا شمار ایسے ہی خوش قسمتوں میں ہے،ان کی ثقاہت وعدالت ،حفظ وضبط اورتثبت واتقان پر اتفاق ہے،امام احمد جنہیں ابو مسہر سے سعادت تلمذ بھی حاصل ہے،فرماتے ہیں: رحم اللہ ابا مسھ ماکان اثبتہ (خلاصہ تذہیب:۲۲۱) خدا ابو مسہر پر رحم فرمائے وہ بڑے مثبت تھے۔ ابوداؤد کابیان ہے: کان ابامسھر من ثقات الناس:ابو مسہر ثقہ لوگوں میں تھے ابن حبان شہادت دیتے ہیں: کان امامہ اھل الشام فی الحفظ والتقان:امام ابو مسہر حفظ واتقان میں اہل شام کے امام تھے۔ جلیل المرتبت تبع تابعی یحییٰ بن معین کا قول ہے: کان من الحفاظ المتقنین واھل الورع فی الدین (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تہذیب التہذیب:۶/۹۹۔۱۰۱) وہ حفاظ متقنین اوراہل زہد وورع لوگوں میں تھے۔ خلیلی کہتے ہیں: ثقۃ حافظ امامٌ متفق علیہ وہ متفقہ طور پر حافظ اورثقہ امام تھے۔ علاوہ ازیں ابو حاتم، عجلی،ابوزرعہ،مروان بن محمد،ابن حبان،ابن وضاح اورحاکم جیسے بحر حدیث کے شناور ان کی ثقاہت کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔ اعترافِ علماء امام ابو مسہرکے تبحر وجلالتِ علم کا اعتراف اہل علم ودانش معاصرین کی ایک بڑی جماعت نے کیا ہے؛چنانچہ یحییٰ بن معین کا ارشاد ہے۔ منذ خرجت من بغداد الیٰ ان رجعت لم أر مثل ابی مسھر میں نے بغداد اور اس کے باہر کسی کو ابو مسہر کا ثانی نہیں دیکھا۔ ابو حاتم فرماتے ہیں: ما رأیت احد، فی کورۃ من الکور اعظم قدرا ولا اجل عند اھل العلم من ابی مسھر بدمشق اذا خرج اصطف الناس یقبلون یدہ (شذرات :۲/۱۴۴) میں نے اطراف ملک میں کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو دمشق کے اہلِ علم کے نزدیک ابو مسہر سے زیادہ جلالت مرتبت اوربلندی شان رکھتا ہو،وہ جب نکلتے تو لوگ ان کی دست بوسی کے لیے دورویہ قطار بناکر کھڑے ہوجاتے تھے۔ امام احمد معترف ہیں: کان عندکم ثلاثہ اصحاب حدیث مروان والولید وابو مہسھر تمہارے پاس تین محدث ہیں، مروان ولید،اورابو مسہر محمد بن عثمان التنوخی کا بیان ہے: ما بالشام مثل ابی مسھر کان من احفظ الناس شام میں ابو مسہر کی نظیر نہ تھی، وہ لوگوں میں سب سے بڑے حافظ تھے۔ ابن حبان حفظ واتقان میں انہیں امام اہل الشام قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: کان ممن عنی بانساب اھل بلدہ وابنائھم والیہ کان یرجع اھل الشام فی الجرح والعدلۃ شیوخھم (تہذیب التہذیب:۶/۹۹،۱۰۰) وہ اہل شام کے انساب کے سب سے بڑے واقف کار تھے اورشام کے علماء جرح وتعدیل میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ فتنہ خلقِ قرآن اگرچہ حاکم بغداد ومامون الرشید کے درباری اوراہل منصب معتزلہ نے اپنے اثر ورسوخ کی بنا پر عقیدہ خلقِ قرآن کا اعلان خلیفہ سے ۷۱۲ھ ہی میں کرادیا تھا،لیکن اس فتنہ کو عروج ۲۱۸ھ میں حاصل ہوا،جب اپنی عمر کے آخری سال میں مامون نےیہ طے کرلیا کہ حکومت کے جبروقہر سے کام لیکر لوگوں سے خلق قرآن کے عقیدہ کا اقرار کرایا جائے؛چنانچہ اس نے سنہ مذکور میں پہلی بار رقہ سے بغداد میں اپنے نائب اسحاق بن ابراہیم کے نام ایک فرمان بھیجا کہ "خلقِ قرآن کے مسئلہ میں محدثین اورفقہاء پر سختی کرنے میں تامل نہ کرو اوران سے قرآن کے مخلوق ہونے کا فوراً اقرار لو۔ چنانچہ اس فرمان کے مطابق اسحاق نے تمام محدثین وقضاۃ کو اپنے دربار میں بلایا،اس جماعت میں ابو حسان زیادی،بشر بن ولید،علی بن مقاتل،فضل بن غانم، امام احمدبن حنبل،سجادہ،قواریری، محمد بن نوح، ابن علیہ،علی بن عاصم کے علاوہ چودہ دوسرے جلیل القدر علماء شامل تھے، نائب حاکم بغداد نے ان سب کا امتحان لیا،پہلی بار سب نے قرآن کے غیر مخلوق ہونے کا اقرار کیا،لیکن جب اسحاق نے زجرو توبیخ کی اور مامون کی طرف سے سخت ترین سزا دینے کی دھمکی دی تو تقریباً سب نے رخصت پر عمل کرتے ہوئے اس باطل عقیدہ کا اقرار کرلیا۔ (البدایہ والنہایہ:۱۰/۴۷۵) ابو مسہر کی آزمائش لیکن اللہ نے جن لوگوں کو ثباتِ قلب کی نعمت عطا کی تھی وہ اپنے عقیدہ پر ثابت قدم رہے، ان میں امام احمد بن حنبلؒ نے جو رتبہ عالیہ حاصل کیا اس کی نظیر سے پوری اسلامی تاریخ خالی ہے ۔ یہ رتبہ بلند ملا جسے مل گیا ہربوالہوس کے واسطے دار ورسن کہاں اسی طرح امام ابو مسہر کا نام بھی دعوت وعزیمت کی تاریخ میں روشن رہے گا۔ علامہ ابن سعد نے ان کے ابتلاء کی تفصیل اس طرح بیان کی ہے "جب بغداد کے نائب حاکم اسحاق بن ابراہیم نے عقیدہ خلق قرآن کے منکر علماء کو پابجولاں مامون الرشید کے پاس رقہ بھیجا(جہاں اس وقت وہ مقیم تھا)تو امام ابو مسہر کو بھی اسی طرح روانہ کیا،خلیفہ نے ان سے اس بحث کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا: ھو کلام اللہ غیر مخلوق، مامون نے یہ استقامت دیکھ کر تلوار اورچرمی کوڑا طلب کیا تاکہ امام صاحب کی تعذیب کے بعد ان کا سر قلم کردے،اس حالت میں اقرار کے سوا کوئی چارۂ کار نہ تھا، لیکن اسی کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں قتل کے خوف سے اس عقیدہ کا اظہار کررہا ہوں، اس کے بعد خلیفہ نے ان کو عمر قید کی سزا کا حکم دیا اورربیع الآخر ۲۱۸ھ میں انہیں رقہ سے بغداد لاکر جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس سلسلہ میں حافظ ابن حجر عسقلانی کا بیان بھی اہم ہے، انہوں نے ابوداؤد کی یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ابو مسہرؒ نے قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار آخر تک نہیں کیا اوران کی استقامت کو دیکھ کر انہیں قید خانہ میں ڈال دیا گیا۔ (تہذیب التہذیب:۶/۱۰۰) وفات عمرقید کی سزا کو دوہی ماہ گزرے تھے کہ یکم رجب ۲۱۸ھ کو ۷۹ سال کی عمر میں طائرِ روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگیا،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ جب ان کے جسدِ خاکی کو تدفین کے لیے زنداں سے نکالا گیا تو جنازہ میں شرکت کے لیے بغداد کی ایک خلقت ٹوٹ پڑی، ہرطرف صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ (ابن سعد:۷/۱۷۴)