انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** وفد نجران اس وفد میں (۶۰) سوار شامل تھے ، نجرا ن یمن کا ایک ضلع تھا جو مکہ سے سات منزل کے فاصلہ پر ہے ، یہاں عیسائیوں کا ایک بڑا کلیسا تھا جو کعبۂ یمانیہ کہلاتا تھا جس میں ان کے بڑے پیشوا رہتے تھے ، اس گرجے کے تحت (۷۳) گاؤں تھے جن میں جنگجو افراد کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی، ان عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ آیا جس میں ساٹھ سوار تھے جس میں (۲۴) بڑے سردار تھے ، ان میں تین افراد تھے جو تمام معاملات کے منتظم تھے، ۱) عاقب امیر و مشیر تھا ، اس کی رائے پر وہ لوگ عمل کرتے تھے، ۲) ابوالحارث اسقف (پادری)اور عالم و امام و منتظم مدارس تھا، اس کانام ابو حارثہ بن علقمہ تھا، ۳) سید‘ ان کی سواریوں کا منتظم تھا ، اس کا نام ایہم یا شرحبیل تھا، یہ لوگ نماز عصر کے بعد مسجد نبوی میں داخل ہوئے اور اپنی عبادت کرنا چاہے تو صحابہؓ نے مزاحمت کی؛ لیکن آنحضرت ﷺ نے اجازت دے دی ، انھوں نے مشرق کی طرف رُخ کر کے عبادت کی،قبل ازیں آنحضرت ﷺ نے اہل نجران کو اسلام قبول کرنے کے لئے خط لکھا تھا تو یہ لوگ دریافت حال کے لئے مدینہ آئے ، اپنے سفر کے کپڑے تبدیل کر کے قیمتی جُبّے پہنے ، ہاتھوں میں سونے کی انگوٹھیاں پہنیں، لمبی چادریں اوڑھ کر نخوت و غرور کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضور ﷺ کے پاس آئے اور سلام کر کے بات کرنا چاہے ، حضور ﷺ نے سلام کا جواب نہیں دیا ، آپﷺ کی خفگی محسوس کر کے وہ چلے گئے اور حضرت عثمانؓ اور حضرت عبد الرحمنؓ بن عوف کو تلاش کیا جن سے ان کی پرانی شناسائی تھی، ان سے مل کر کیفیت سنائی ، انھوں نے حضرت علیؓ سے مشورہ کیا تو حضرت علیؓ نے کہا کہ وفد کے لوگ اپنے قیمتی کپڑے اتار کر معمولی کپڑے پہن لیں اور حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوں ، چنانچہ انہوں نے ویسا ہی کیا ، حضورﷺ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا ! اس سے پہلے جب تم آئے تھے تو ابلیسی حلیہ تھا، انہوں نے آپﷺ سے مختلف سوالات کئے جن کے آپﷺ نے جوابات دئیے، علمائے نجران نے دانستہ طور پر حق کو قبول کرنے سے انکار کیا ، آنحضرت ﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انھوں نے کہا کہ ہم پہلے سے ہی مسلمان ہیں ، آپﷺ نے فرمایا کہ تمہارا اسلام درست نہیں اس لئے کہ تم اللہ کے لئے بیٹا تجویز کرتے ہو ‘ صلیب کی پُرستش کرتے ہو اور خنزیرکھاتے ہو ، انھوں نے پوچھا ، آپﷺ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ فرمایا آج میرے پاس اس بارے میں کوئی علم نہیں ، اللہ تعالیٰ وحی فرمائے گا تو بتلادوں گا ، اگلی صبح سورۂ آل عمران کی آیات ۵۹ تا ۶۱ نازل ہوئیں : (ترجمہ )" عیسیٰ کا حال اللہ کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اللہ نے(پہلے ) مٹی سے ان کا قالب بنایا پھر طئے فرمایا کہ (انسان ) ہو جا تو وہ ہوگئے (یہ بات ) تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے تو تم ہر گز شک کرنے والوں میں نہ ہونا ، پھر اگر یہ لوگ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم کو حقیقت حال تو معلوم ہوچکی ہے تو ان سے کہنا کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلائیں ، تم اپنے بیٹوں اورعورتوں کو بلاؤ اور ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آؤ ، پھر دونوں فریق (اللہ ) سے دعا و التجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں" ( سورۂ آل عمران ۵۹ تا ۶۱ ) اس حکم کے بعد آپﷺ مبا ہلہ کے لئے تیار ہوگئے ، حضرت حسنؓ ، حضرت حسینؓ سمیت ایک چادر میں لپٹے تشریف لائے ، حضرت فاطمہؓ اپنے والد گرامی کے پیچھے پیچھے چل رہی تھیں ، یہ دیکھ کر نجرانی وفد کے ایک شخص نے کہا ! " واللہ یہ وہ صورتیں ہیں کہ اگر اللہ کو قسم دیں تو وہ پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دے گا ،یہ کہہ کر مباہلہ سے گریز کیا، ان میں بنی ہمدان کا شرحبیل بن وداجہ وفد کا مشیر اور بڑی سوجھ بوجھ والا تھا ، اس نے صلح پر آمادگی ظاہر کی سید اور عاقب نے کہا کہ مبا ہلہ نہ کر و ، اگر وہ نبی ہوئے تو پھر تم فلاح نہیں پا سکو گے بلکہ اس کے بعد ہماری نسل ہی فنا ہوجائے گی،حضرت عبداللہؓ بن عباس کی روایت کے مطابق آیت مباہلہ کے نزول کے بعد ان لوگوں نے تین دن کی مہلت مانگی ، اس دوران یہود سے مشورہ کیا ، انھوں نے کہا کہ یہ وہی نبی ہیں جن کی صفات تورات اور انجیل میں ہیں، بہتر یہی ہے کہ تم صلح کر لو ، شرحبیل نے مشورہ دیا کہ معاملہ ان ہی کی رائے پر چھوڑدو کیونکہ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ یہ شخص سخت مزاج نہیں ہے اور نہ ہی انصاف کی راہ سے ہٹنے والا ، سب نے مل کر عرض کیا کہ ہم آپﷺ ہی کو حکم تسلیم کرتے ہیں اور آپﷺ کا ہر فیصلہ ہمارے لئے قابل قبول ہوگا ، دوسرے دن دونوں میں ایک معاہدہ مرتب ہوا ، ابن سعد کے مطابق آپﷺ نے ان سے دو ہزار ہتھیاروں اور حسب ذیل امور پر اس طرح صلح فرمائی کہ: ۱) ایک ہزار ہتھیار ماہِ رجب میں اور ایک ہزار ماہ صفر میں واجب الادا ہوں گے، ۲) اگر یمن سے جنگ ہو تو نجران کے ذمہ میں بطور عاریت تیس زرہیں، تیس نیزے، تیس اونٹ اور تیس گھوڑے ہوں گے، نجران اور ان کے آس پاس والوں کی جان ، مال، مذہب ، ملک، زمین ، حاضر ، غائب اور ان کی عبادت گاہوں کے لئے اﷲ کی پناہ اور محمد(ﷺ) کی ذمہ داری ہے، نہ تو ان کا کوئی اسقف اپنی اسقفی سے نہ کوئی راہب اپنی رہبانیت سے اور نہ کوئی وقف کرنے والا اپنے وقف سے ہٹایاجائے گا،اس پر آپﷺ نے چند گواہ قائم فرمائے جن میں ابو سفیان بن حرب و اقرع بن حابس و مغیرہ بن شعبہ تھے(ابن سعد) اس معاہدہ پر گواہ کے طور پر حضرت عثمانؓ بن عفان اور معیقیب نے دستخط کئے، رخصتی کے وقت وفد نے کسی امانت دار شخص کو ساتھ بھیجنے کی درخواست کی جسے جزیہ ادا کیا جائے فرمایا: میں تمہارے ساتھ ایک امین آدمی کو بھیجوں گا جو واقعی امین ہے ، پھر حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح کو ان کے ساتھ جانے کے لئے فرمایا اور کہا کہ یہ اس اُمت کے امین ہیں ، معاہدہ کی دستاویز لے کر یہ وفد نجران واپس ہوا ، نجران کے سربر آوردہ لوگوں نے لارڈ پادری کے ساتھ ایک منزل پہلے استقبال کیا، لارڈ پادری نے راستہ میں دستاویز پڑھنا شروع کی، اس کا چچا زدا بھائی بشر بن معاویہ بھی اس کے ساتھ تھا ، بشر کی اونٹنی نے ٹھوکر کھائی اور اسے گرا دیا جس کے ساتھ ہی اس کی زبان سے نکلا ، خرابی ہو اس شخص کی جس نے ہمیں تکلیف دی ، لارڈ پادری نے کہا: تو کس کے بارے میں کہہ رہا ہے وہ تونبی مرسل ہے بشر نے یہ سنتے ہی اپنی اونٹنی کا رخ مدینہ کی طرف کیاا ور مدینہ پہنچتے ہی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کئے،اہلِ نجران کو جو فرمان نبی اکرم ﷺ نے تحریر فرمایاتھا وہ آپﷺ کی وفات تک ان کے پاس رہا، جب حضرت ابوبکرصدیقؓ خلیفہ ہوئے تو انھوں نے اپنی وفات کے وقت ان کے متعلق وصیت تحریر فرمائی، جب یہ لوگ سود خواری میں مبتلا ہوگئے تو حضرت عمرؓ بن الخطاب نے انھیں ملک سے نکال دیااور ان کے لئے تحریر فرمایا کہ" یہ وہ فرمان ہے جو امیر المومنین عمر نے نجران کے لئے تحریر فرمایاہے کہ ان میں سے جو جائے وہ اﷲ کی امان میں ہے ، رسول اﷲ ﷺ اور ابوبکر ؓ نے ان لوگوں کے لئے جو کچھ تحریر فرمایا اس پر عمل کرتے ہوئے ان کو کوئی مسلمان نقصان نہ پہنچائے، امرانے شام و عراق میں سے یہ لوگ جس کے پاس پہنچیں وہ انھیں فراخ دلی سے زمین دے، اگر وہ اس میں کام کریں تو وہ ان کے اور ان کے اخلاف کے لئے صدقہ ہے، اس میں کسی کو ان پر نہ کوئی گنجائش ہے اور نہ کوئی بار، جو مسلمان ان کے پاس موجود ہو تو ان پر ظلم کرنے والے کے خلاف ان کی مدد کرے کیونکہ یہ وہ قوم ہے جن کی ذمہ داری ہے (عراق اور شام)آنے کے بعد ان کا دوسال کا جزیہ معاف کردیاجائے گا، انھیں سوائے اس جائیداد کے جس میں یہ کام کریں اور کسی چیز میں (محصول دینے کی)تکلیف نہ دی جائے گی، نہ ان پر ظلم کیا جائے گا ، نہ سختی کی جائے گی " ، گواہ شد … عثمانؓ بن عفان و معیقب بن ابی فاطمہ ،ان میں سے کچھ لوگ عراق پہنچے اور مقام نجرانیہ میں اترے جو نواح کوفہ میں ہے۔ (ابن سعد )