انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** میدانِ جنگ کا نظارہ اس کے بعد مطمئن ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑی سے اُترے،میدان میں شہداء کی لاشوں کو دفن کیا گیا،۶۵ انصار اور۴مہاجرین شہید ہوئےتھے،کافروں نے بعض شہداء کی لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے تھے،ہندبنت عتبہ زوجۂ ابو سفیان نے موقع پاکر حضرت امیر حمزہؓ کی لاش کا مُثلہ کیا،یعنی ان کے ناک کان وغیرہ کاٹ ڈالے تھے،آنکھیں نکال لی تھیں،سینہ چاک کر کے جگر کاٹ کر نکالا اوراس کو دانتوں سے چبایا،مگر نگل نہ سکی اُگل دیا،اسی لئے جگر خوارہ مشہور ہوئی،زبیر بن العوامؓ کی والدہ حضرت صفیہؓ جو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حقیقی بہن تھیں،بھائی کی لاش کو دیکھنے آئیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیرؓ سے کہا کہ ان کو لاش کے پاس جانے سے روکو،انہوں نے منع کیا تو حضرت صفیہؓ نے فرمایا کہ مجھ کو معلوم ہوچکا ہے کہ میرے بھائی کی لاش کا مثلہ کیا گیا ہے، میں نوحہ کرنے نہیں آئی میں صبر کروں گی اور دعائے مغفرت مانگوں گی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سُن کر اجازت دے دی،انہوں نے اپنے بھائی کی لاش اوراُن کے جگر کے ٹکڑے زمین پر پڑے ہوئے دیکھے صبر کیا انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا،دعائے مغفرت کی اور چلی آئیں علمبردارِ اسلام حضرت مصعب بن عمیرؓ کے کفن کے لئے صرف ایک چادر تھی جو اس قدر چھوٹی تھی کہ سرچھپاتے تھے تو پاؤں کھل جاتے تھے پاؤں چھپاتے تھے تو سر کُھل جاتا تھا،آخر سر چھپایا اورپاؤں کو گھاس ڈال کر چھپایا،تمام شہداء بلا غسل ایک ایک قبر میں دو دو دفن کئے گئے میدانِ جنگ سے فارغ ہوکر مدینہ کی طرف چلے تو راستہ میں حضرت مصعبؓ بن عمیر کی بیوی حمنہ بنت جحش آتی ہوئی ملیں،ان کو ان کے ماموں حضرت حمزہؓ کی شہادت کی خبر سُنائی گئی،انہوں نے انا للہ پڑھا،پھر اُن کے بھائی عبداللہ بن جحشؓ کی شہادت کا حال سُنایا،انہوں نے انا للہ پڑھ کر دعائے مغفرت کی،پھر ان کے شوہر مُصعبؓ بن عمیر کی شہادت کی خبر دی گئی،یہ خبر سن کر وہ بے تاب ہوگئیں اور روپڑیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیفیت دیکھ کر فرمایا کہ عورت کو شوہر کی محبت زیادہ ہوتی ہے۔ انصار کے قبیلہ کی ایک خاتون کے باپ،بھائی اورشوہر تینوں شہید ہوگئے تھے،وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ سُن کر مدینہ سے چلیں،راستے میں کسی نے کہا کہ تمہارا باپ شہید ہوگیا انہوں نے فرمایا:یہ بتاؤ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو بخیریت ہیں؟ پھر ان سے کہا گیا ،تمہارا بھائی بھی شہید ہوگیا،انہوں نے یہ سُن کر بھی یہی کہا: مجھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خیریت سُناؤ،پھر ان سے کہا گیا کہ تمہارا شوہر بھی شہید ہوگیا،انہوں نے یہ سُنکر بھی یہی فرمایا کہ مجھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حال سُناؤ،اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قریب پہنچ گئے تھے،اُن کو بتایا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ تشریف لارہے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھ کر اس خاتونؓ نے فرمایا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلامت ہیں تو پھر تمام مصائب ہیچ ہیں۔ اس لڑائی میں جو مدینہ سے صرف تین چار میل کے فاصلہ پر ہوئی تھی،عہد نامے کے موافق یہودِ مدینہ کو مسلمانوں کے ساتھ مل کر لڑنا اورکفارِ مکہ کا مقابلہ کرنا چاہئے تھا۔ عبداللہ بن ابی کے واپس آنے اورجمعیت کے کم ہوجانے کے بعد بعض صحابہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض بھی کیا تھا کہ یہودیوں سے مدد طلب کرنی چاہئے،مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے مدد مانگنی مناسب نہیں سمجھی،چنانچہ یہودی مزے سے اپنے گھروں میں بیٹھے اوراس لڑائی کے نتیجے کا انتظار دیکھتے رہے،یہودیوں میں سے ایک شخص محیریق نامی نے اپنی قوم سے کہا کہ تم پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرض ہےانہوں نے کہا کہ آج شنبہ کا دن ہے ہم نہیں لڑسکتے،محیریق نے کہا کہ یہ نبی اورکفار کا مقابلہ ہے شنبہ مانع نہیں ہوسکتا؛چنانچہ اس نے تلوار اُٹھائی اور سیدھا میدانِ جنگ میں پہنچا،جاتے ہوئے یہ اعلان کرگیا کہ اگر میں مارا جاؤں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ تعارض نہ کرنا،لڑائی میں شریک ہوا اورمقتول ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ حال معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بہترین یہود تھا،ایک شخص حارث بن سوید نامی منافق مسلمانوں کو شہید کرکے مکہ کی طرف بھاگ گیا،چند روز کے بعد مدینہ میں واپس آیا اورگرفتار ہوکر حضرت عثمان بن عفانؓ کے ہاتھ سے قتل ہوا،اس لڑائی میں سب سے بڑا فائدہ مسلمانوں کو یہ ہوا کہ وہ منافقوں کو خوب پہچان سکے اور دوست ودشمن میں تمیز کرنے کے موقعے ان کو مل گئے، مدینہ پہنچ کر اگلے دن یعنی شوال ۳ھ بروز یک شنبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جو لوگ کل لڑائی میں شریک تھے،صرف وہی کفار سے مقابلہ کرنے کے لئے نکلیں،کسی نئے شخص کو یعنی ایسے شخص کو ہمراہ چلنے کی اجازت نہ تھی جو جنگِ اُحد میں شریک نہ تھا،صرف ایک شخص جابرؓ بن عبداللہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمراہ چلنے کی اجازت دے دی تھی؛چنانچہ تمام صحابہؓ جو شریک جنگ اُحد تھے حتی کہ زخمی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے روانہ ہوکر آٹھ میل چل کر مقام حمراء الاسد میں مقام کیا اورتین دن تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم حمراء الاسد میں مقیم رہے،اتفاقاً معبد بن ابی معبد خزاعی جو مکہ کو جارہا تھا ،اس طرف سے گذرا،مقام روحا میں پہنچ کر مشرکین نے سوچا کہ اس لڑائی میں ہم کو مسلمانوں کے مقابلہ میں کوئی فتح نہیں ہوئی، زیادہ سے زیادہ یہ کہ برابر کا مقابلہ رہا،کیونکہ اگر ہم یہ کہیں گے کہ فتح مند واپس آرہے ہیں تو لوگ پوچھیں گے کہ تمہارے ساتھ مسلمان قیدی کہاں ہیں؟پھر پوچھیں گے کہ مالِ غنیمت کہاں ہے؟ پس جبکہ کوئی قیدی ہمارے پاس نہیں،مالِ غنیمت بھی نہیں اور ولید بن عاصی، ابو امیہ بن ابی حذیفہ،ہشام بن ابی حذیفہ،ابی بن خلف،عبداللہ بن حمید اسدی، طلحہ بن ابی طلحہ،ابو سعید بن ابو طلحہ، مسافع وجلاس پسرانِ طلحہ،ارطاۃ بن شرجیل وغیرہ سترہ ایسےشخص جو مشہور سردارانِ قریش میں تھے اورپانچ چھ دوسرے بہادر قتل کرا آئے تو ہم کو کون فتح مند خیال کرے گا؛جبکہ ہمارے ہاتھ سے صرف حمزہؓ ومصعبؓ وغیرہ تین چار قابلِ تذکرہ آدمی مقتول ہوسکے،یہ سوچ کر سب کی رائے بدلی، ازسر نو پھر مارنے مرنے پر اظہار مستعدی کیا گیا اورابو سفیان اس تمام لشکر کو لے کر مقام روحا سے واپسی پر آمادہ ہوا کہ مدینہ پر حملہ آور ہو،اسی حالت میں معبد بن ابی معبد مقام روحا میں پہنچا،اُس نے ابو سفیان کو خبر سُنائی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے نکل کر تمہارے تعاقب میں روانہ ہوچکے ہیں، مجھ کو ان کا لشکر حمراء الاسد میں ملا تھا اوروہ غالباً بہت جلد تم تک پہنچ جانے والے ہیں،یہ خبر سُنتے ہی لشکرِ کفار بدحواس ہوکر وہاں سے سیدھا مکہ کی جانب روانہ ہوا اورمکہ پہنچ کر اس کے دم میں دم آیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ تحقیق ہوگئی کہ کفار بدحواسی سے مکہ کی طرف بھاگے چلے جارہے ہیں تو آپ واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئے،یہ سفر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غزوہ حمراء الاسد کے نام سے مشہور ہے،اس کے ذریعہ کفار کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب قائم ہوا اور مدینہ اُن کے حملے سے محفوظ رہا،جنگ احد میں تیر اندازوں کی غلطی اورحکم کی تعمیل میں کوتاہی کرنے کے سبب مسلمانوں کو صدمہ پہنچا اور پریشانی کا سامنا ہوا،اس جنگ کی نسبت عام طور پر مشہور ہے کہ مسلمانوں کو شکست ہوئی،لیکن وہ بہت بڑی غلطی ہے،مسلمانوں نے کفار کو اپنے سامنے سے بھگادیا تھا اورکفار شکست پاچکے تھے،بعد میں وہ پھر حملہ آور ہوسکے؛ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے لشکر نے میدان نہیں چھوڑا،کفار ہی نے جنگ کو آئندہ سال پر ملتوی کیا اورمسلمانوں نے اس التوا کو منظور کرلیا ،میدان سے اول کفار مکہ کی طرف روانہ ہوئے بعد میں مسلمان وہاں سے مدینہ کی طرف چلے،حمراء الاسد میں مسلمانوں کے آنے کی خبر سُن کر کفار ہی سراسیمہ ہوکر بھاگے،ہاں اس میں شک نہیں کہ مسلمان کفا ر مقتولین کی نسبت زیادہ شہید ہوئے اوریہ میدانِ جنگ کے معمولی واقعات ہیں،اس لڑائی کے بعد ماہ ذی الحجہ تک اس سال میں کوئی قابلِ تذکرہ واقعہ نہیں ہوا اسی سال نصف رمضان المبارک کے قریب حضرت حسن ؓ بن علیؓ پیدا ہوئے،جنگِ احد میں مسلمانوں کو چشم زخم پہنچنے سے مدینہ کے منافق اوریہودی بہت خوش ہوئے اوراُن کی جراتیں بڑھ گئیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم در گزر ہی سے کام لیتے رہے۔