انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۵۱۔علیؒ بن عبداللہ بن عباسؓ نام ونسب علی نام،ابو محمد کنیت، سجاد لقب،مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے سب سے چھوٹے صاحبزادے ہیں، نسب نامہ یہ ہے علی بن عبداللہ بن عباسؓ بن عبدالمطلب قریشی ہاشمی ماں کا نام زرعہ تھا،نانہالی شجرہ یہ ہے زرعہ بنت مشرح بن معد یکرب بن دلیعہ ابن شرجیل بن معاویہ بن شرجیل بن معاویہ بن حجیر القرد بن الحارث الولادہ بن عمرو بن معاویہ بن الحارث بن معاویہ بن ثور بن مرتع بن ثور، علی دولت عباسیہ کے بانی سفاح کے دادا تھے۔ پیدائش حضرت علیؓ کی شب شہادت کو رمضان ۴۰ میں پیدا ہوئے،اس لیے یاد گارکے طورپر انہی کے نام پر علی نام اورابوالحسن کنیت رکھی گئی، لیکن عبدالملک نے اپنے زمانہ میں کہا کہ میں علی کا نام اورکنیت دونوں ایک ساتھ برداشت نہیں کرسکتا ان میں سے ایک کو بدلو،اس لیے ابو الحسن چھوڑ کر ابو محمد کنیت اختیار کی۔ (ابن سعد:۵/۱۶۲) فضل وکمال علمی اعتبار سے کوئی قابلِ ذکر شخصیت نہ رکھتے تھے درحقیقت ان کے عمل نے ان کے علم کو دبا دیا تھا، پھر بھی ابن عباس کے فرزند تھے اس لیے علم کی دولت سے تہی دامن نہ تھے، احادیث نبوی کا ایک حصہ ان کے حافظہ میں محفوظ تھا، ابن سعد ان کو قلیل الحدیث تابعین میں لکھتے ہیں۔ (ایضاً:۲۳۰) حدیث میں انہوں نے اپنے والد بزرگوار حضرت عبداللہ بن عباسؓ ابو سعیدؓ خدری ابوہریرہؓ،عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ،عبداللہ بن جبیرؓ اورعبدالملک سے استفادہ کیا تھا اوران کے صاحبزادے محمد،عیسیٰ ،عبد الصمد،سلیمان،داؤد اورمنہال بن عمرو سعد بن ابراہیم،امام زہری،حبیب بن ابی ثابت ،آبان بن صالح، عبداللہ بن طاؤس اورمنصور بن معتمر وغیرہ ان کے خوشہ چینیوں میں تھے۔ (تہذیب التہذیب:۷/۳۵۷) زہد وعبادت ان کا میدان عمل حجرہ عبادت تھا،اپنے عہد کے بڑے عابد ومرتاض بزرگ تھے، کثرت عبادت کی وجہ سے سجاد لقب پڑگیا تھا،شبانہ یوم میں ایک ہزار رکعتیں پڑھتے تھے،عبادت کا یہ ذوق وانہماک آخر لمحہ حیات تک قائم رہا،زبیر بن بکار کا بیان ہے کہ موت کے وقت تک ان کی عبادت وریاضت میں فرق نہ آیا۔ (تہذیب الاسماء،ج ۱ ،ق۱:۳۱۵) کبھی کبھی معمولی واقعات زندگی میں عظیم الشان انقلاب پیدا کردیتے ہیں،علی کے ساتھ بھی اس قسم کا ایک واقعہ پیش آیا، ابتداء میں وہ کوئی عابد وزاہد نہ تھے،ابان بن عثمان کے لڑکے عبدالرحمن کی عبادت وریاضت کو دیکھ کر ان کے دل پر نہایت گہرا اثر پڑا،انہوں نے کہا میں ان سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کا قریب عزیز ہوں اس لیے مجھے ان سے زیادہ عبادت کرنے کا حق ہے؛چنانچہ اسی وقت سے ہمہ تن عبادت میں لگ گئے۔ (تہذیب التہذیب:۷/۳۵۸) قریش میں عظمت وعزت ان کے مذہبی کمالات کی وجہ سے قریش میں ان کی بڑی عظمت تھی جب وہ مکہ جاتے تو ان کے احترام میں سارا خاندانِ قریش ان پر ٹوٹ پڑتا تھا۔ (شذرات الذہب :۱/۱۴۵) ولید سے اختلاف انہوں نے عبدالملک کی مطلقہ لبابہ سے شادی کرلی تھی،اس لیے ولید ان کے سخت خلاف ہوگیا تھا،اس کی سزا میں اس نے ان کو کوڑے لگواکر بلقاء جلا وطن کردیا تھا۔ (ایضاً:۱۴۸) ہشام سے تعلقات لیکن ہشام کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے تھے اور وہ ان کا بڑا احترام کرتا تھا،ایک مرتبہ ان سے ملنے گئے،تو ہشام نے اپنے ساتھ تخت شاہی پر بٹھایا اورتیس ہزار اشرفیاں نذر پیش کیں۔ (شذرات الذہب:۱/۱۴۷) وفات ابن سعد کی روایت کے مطابق ۱۱۷ھ یا ۱۱۸ھ میں وفات پائی ،لیکن بعض روایات ۱۱۴ھ میں وفات کی بھی ملتی ہیں۔ حلیہ نہایت حسین وجمیل تھے، علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ روئے زمین پر ایسا حسین وجمیل قریشی نہ تھا،قد نہایت بلند وبالا تھا۔ اولاد علی کی بہت سی اولادیں تھیں، داؤد،عیسی،محمد،احمد،بشر،مبشر،اسمٰعیل ،عبدالصمد،عبداللہ الاکبر،عبداللہ الاصغر، عبید اللہ،عبدالملک، عثمان، سلیمان، صالح ،عبدالرحمن،عبداللہ الاوسط،یحییٰ،اسحاق ،فاطمہ،ام عیسی کبریٰ، ام عیسیٰ صغری،لبابہ بریہہ کبریٰ، بریہہ صغریٰ ، ،میمونہ ،ام علی،عالیہ اورام حبیب۔اس کثرت کے ساتھ علی کی اولاد پھلی پھولی بھی بہت ،عباسی خلفاء انہی کی نسل سے تھے۔ (ایضاً:۲۳۰)