انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** آفتاب امامت کی شہادت اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ تمام نوجوانان اہل بیت شہید ہوچکے ہیں اور اب اس خانوادہ نبوت میں سوائے عابد بیمار اورامام خستہ تن کے کوئی باقی نہیں ہے،لیکن سنگدل شامی اس نوبت کے بعد بھی امام ہمام کو چھوڑنے والے نہ تھے؛چنانچہ بالآخر وہ قیامت خیز ساعت بھی آگئی کہ فلکِ امامت کا آفتاب میدان جنگ کے افق پر طلوع ہوا، یعنی حضرت حسینؓ شامی فوج کی طرف بڑھے، ابن زیاد کے حکم کے مطابق ساتویں محرم سے حسینی لشکر پر پانی بند کردیا گیا تھا، جب تک عباس علمدار زندہ تھے جان پر کھیل کر پانی لے آتے تھے لیکن ان کے بعد ساقی کوثر ﷺ کے نواسہ کو کوئی پانی دینے والا بھی باقی نہ تھا اہل بیت کے خیموں میں جو پانی تھا وہ ختم ہوچکا تھا اورامام کے لب خشک تھے حلق سوکھ رہی تھی،اعزہ کے قتل سے دل نگار ہو رہا تھا، جی چھوٹ چکا تھا، اس لئے کوفیوں کے لئے آپ کا کام تمام کردینا آسان تھا، لیکن وہ لاکھ سنگدل اور جفا پیشہ سہی،پھر بھی مسلمان تھے ،اس لئے جگر گوشۂ رسول کے خون کا بار عظیم اپنے سر نہ لینا چاہتے تھے ہمت کرکے بڑہتے تھے لیکن جرأت نہ پڑتی تھی ،ضمیر ملامت کرتا تھا اورپلٹ جاتے تھے،(مستدرک حاکم فضائل حسینؓ) حضرت حسینؓ کی پیاس لمحہ بہ لمحہ زیادہ بڑہتی جاتی تھی،آخر میں آپ نے رہوار کو فرات کی طرف موڑا کہ ذرا حلق نم کرکے کانٹے دور کریں؛ لیکن کوفیوں نے نہ جانے دیا، یہ وہی تشنہ لب ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ چند آدمیوں کے ساتھ کہیں تشریف لئے جا رہے تھے کہ حسنینؓ کے رونے کی آواز کانوں میں آئی،جلدی سے گھر گئے اورپوچھا میرے بیٹے کیوں رورہے ہیں، فاطمہؓ نے کہا پیا سے ہیں،اتفاق سے اس وقت پانی نہ تھا لوگوں سے پوچھا لیکن کسی کے پاس نہ نکلا تو آپ نے یکے باد دیگرے دونوں کو اپنی زبان مبارک چسا کر ان کی تشنگی فرو کی۔ یہ اسی رحمت عالمﷺ کا تشنہ لب نواسہ ہے کہ جب مکہ میں خشک سالی ہوتی تھی،فصیلیں تباہ ہونے لگتی تھیں،سبزہ سوکھ جاتا تھا اورخلق اللہ بھوکوں مرنے لگتی تھی،تو رسول اللہ ﷺ کے اوراسلام کے سب سے بڑے دشمن ابو سفیان آتے تھے اور کہتے تھے محمد ﷺ تم صلہ رحمی کی تعلیم دیتے ہو، تمہاری قوم خشک سالی سے ہلاک ہوئی جارہی ہے خدا سے پانی کی دعا کرو،آنحضرتﷺ اپنے اس سب سے بڑے دشمن کی،درخواست پر پانی کے لئے دعا فرماتے تھے،دفعتاً ابر اٹھتا تھا اورسات دن تک مسلسل اس شدت کی بارش ہوتی تھی کہ جل تھل ہوجاتا تھا۔ (بخاری،جلد۱،ابواب الاستقا:۱۳۶) ٹھیک باون برس کے بعد اسی رحمۃ عالمﷺ اوردوست ودشمن کے سیراب کرنے والے کا نواسہ ایک قطرہ پانی کے لئے ترستا ہے اورانہیں ابوسفیان کی ذریات کے حکم سے پانی کی ایک بوند اس کی خشک حلق تک نہیں پہنچنے پاتی ہے، آہ! اناا عطینک الکوثر نواسہ اوریوں تشنہ کام ہے۔ع تفوبرتواے چرخ گرواں تفو آخر جب پیاس کی شدت ناقابل برداشت ہوگئی تو پھر ایک مرتبہ نرغہ اعداء سے فرات کی طرف بڑھے اور ساحل تک پہنچ گئے ،پانی لے کر پینا چاہتے تھے کہ حصین بن نمیر نے ایسا تیرا مارا کہ دہنِ مبارک سے خون کا فوارہ پھوٹ نکلا، آپ نے چلو میں پانی لے کر آسمان کی طرف اچھالا کہ اے بے نیاز یہ لالہ گوں منظر تو بھی دیکھ لے کہ بحرمِ عشقِ توام میکشند غوغا ئیست تونیز برسرم آکر خوش تماشا ئیست چلو سے خون کی نذر پیش کرکے فرمایا کہ خدایا جو کچھ تیرے نبی کے نواسہ کے ساتھ کیا جارہا ہے اس کا شکوہ تجھی سے کرتا ہوں کہ مباداع خونِ من زیزی وگویند سزا وار نبود جس قدر امام نڈھال ہوتے جاتے تھے،شامیوں کی جسارت زیادہ بڑہتی جاتی تھی ؛چنانچہ جب انہوں نے دیکھا کہ امام میں تاب مقادمت باقی نہیں ہے اوراہل بیت کے خیموں کی طرف بڑھے اور حضرت حسینؓ کو ادھر جانے سے روک دیا آپ نے فرمایا کہ تمہارا کوئی دین وایمان ہے؟ تمہارے دلوں سے قیامت کا خوف بالکل ہی جاتا رہا؟ ان سرکشوں اورجاہلوں کو میرے اہل بیت کی طرف جانے سے روکو، لیکن امام مظلوم کی فریاد کوئی نہ سنتا تھا؛بلکہ آپ کی فریاد پر ان کی شقادت اوربڑھتی جاتی تھی اورشمر لوگوں کو برابر ابھاررہاتھا، اس کے ابھارنے پر یہ شوریدہ بخت ہر طرف سے ٹوٹنے لگے ،لیکن شمشیر حسینی ان بادلوں کو ہوا کی طرح اڑادیتی تھی مگر ایک خستہ دل خستہ جگر اورزخموں سے چور ہستی میں سکت ہی کیا باقی تھی، یہ بھی حسینؓ ہی کا دل تھا کہ اب تک دشمنوں کے بے پناہ ریلے کو روکے ہوئے تھے،لیکن تابکے،بالآخروہ وقت آگیا کہ ماہ خلافت کو شامیوں نے نرغہ کے تاریک بادلوں میں گھیر لیا، امام کو محصور دیکھ کر اہل بیت کے خیمہ سے ایک بچہ دوڑتا ہوا نکل آیا اوربحر بن کعب سے جو حضرت حسینؓ کی طرف بڑھ رہا تھا ،معصومانہ انداز سے کہا، خبیث عورت کے بچے میرے چچا کو قتل کرےگا، ہاشمی بچہ کی اس ڈانٹ پر اس بزدل نے بچہ پر تلوار کا وار کیا بچہ نے ہاتھ پر روکا، نازک نازک ہاتھ دیوہیکل کا وار کس طرح روکتے، ہاتھ جھول گیا، حضرت حسینؓ نے بچہ کو نیم بسمل دیکھ کر سینہ سے چمٹا لیااور کہا بیٹا صبر کرو، عنقریب خدا تم کو تمہارے اجداد سے ملادیگا، رسول اللہ ﷺ ،علیؓ، حمزہؓ، جعفرؓ اورحسنؓ کے پاس پہنچ جاؤ گے (ابن اثیر:۴/۶۶) بچہ کو تسلی دے کرابن اسداللہ الغالبؓ پھر حملہ آور ہوئے اورجدھر رخ کردیا دشمنوں کی صفیں درہم برہم کردیں۔ (طبری:۷/۴۶۴) میدان کر بلا میں قیامت بپا تھی، ہر طرف تلواروں کی چمک سے بجلی تڑپ رہی تھی، کہ دفعتاً مالک بن شبر کندی نے دوشِ نبویﷺ کے شہ سوار پر ایسا وار کیا کہ تلوار کلاہ مبارک کو کاٹتی ہوئی کاسۂ سر تک پہنچ گئی، خون کا فوراہ پھوٹ نکلا اورسارا بدن خون کے چھینٹوں سے لالۂ احمر ہوگیا، پیراہن مبارک کی رنگینی پکار اٹھی۔ حُلہّہا سوختہ انداہل بہشت ازغیرت تاشہیدانِ توگلگوں کفنے ساختہ اند لیکن اس وقت بھی امام ہمام کے صبر وسکون میں فرق نہ آیا دوسری ٹوپی منگا کر زخمی فرق مبارک پر رکھی اوراس پر سے عمامہ باندھا اورشیر خوار بچہ کو بلاکر گود میں لیا کہ اس کے بعد پدری شفقت کا سایہ سر سے اٹھنے والا تھا، کسی سنگدل نے ایسا تیرمارا کہ بچہ گود میں تڑپ کر رہ گیا۔ (اخبار الطوال،صفحہ۲۶۹،یہ اخبار الطوال کا بیان ہے کہ میدان کربلا میں ایک بچہ پیدا ہوا تھا اذان کے لئے امام کے پاس لایا گیا، کسی نے امام پر تیر چلایا،اتفاق سے وہ آپ کے بجائے بچہ کے حلق میں آکر لگا اوراس معصوم نے دنیا میں آکھ کھولتے ہی بند کرلی۔) جان نثار بہن یہ قیامت خیز منظر دیکھ کر خیمہ سےنکل آئیں اورچلاتی ہوئی دوڑیں کہ کاش آسمان زمین پر ٹوٹ پڑتا ،ابن سعد حضرت حسینؓ کے پاس کھڑا تھا اس سے کہنے لگیں ،عمر!کیا قیامت ہے،ابوعبداللہ قتل کئے جارہے ہیں اور تم دیکھ رہے ہو،گو ابن سعد کی آنکھوں میں جاہ وحشمت کی طمع نے پردے ڈال دیئے تھے پھر بھی عزیزتھا،خون میں محبت تھی زینبؓ کی فریاد سن کر بے اختیار رودیا اوراتنا رویا کہ رخسار اورڈاڑھی پر آنسوؤں کی لڑی دان ہوگئی اور فرطِ خجالت سے زینبؓ کی طرف سے منہ پھیرلیا۔ امام ہمام لڑتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے،آج تم لوگ میرے قتل کے لئے جمع ہوئے ہو،خدا کی قسم میرے بعد کسی ایسے شخص کو قتل نہ کرو گے جس کا قتل میرے قتل سے زیادہ خدا کی ناراضی کا موجب ہوگا، خدا تم کو ذلیل کرکے مجھے قتل کردیا تو خدا تم پر سخت عذاب نازل فرمائے گا اور تم میں باہم خون ریزی کرائے گا اور جب تک تم پر دونا عذاب نہ کریگا، اس وقت تک راضی نہ ہوگا ۔ حضرت حسینؓ کی حالت لمحہ بہ لمحہ غیر ہوتی جاتی تھی ،زخموں سے سارا بدن چور ہوچکا تھا؛ لیکن کسی کو شہید کرنے کی ہمت نہ پڑتی تھی اور سب اس جبل معصیت کو ایک دوسرے پر ٹال رہے تھے،شمر یہ تذبذب دیکھ کر پکارا، تمہارا برا ہو، تمہاری مائیں لڑکوں کو روئیں، دیکھتے کیا ہو؟ بڑھ کر حسینؓ کو قتل کردو، اس للکار پر شامی چاروں طرف سے امام ہمام پر ٹوٹ پڑے ایک شخص نے تیر مارا، تیر گردن میں آکر بیٹھ گیا، امام نے اس کو ہاتھوں سے نکال کے الگ کیا ابھی آپ نے تیر نکالا ہی تھا کہ زرعہ بن شریک تمیمی نے ہاتھ پر تلوار ماری،پھر گردن پر وار کیا ان پیہم زخموں نے امام کو بالکل نڈھال کردیا، اعضا جواب دے گئے اورکھڑے ہونے کی طاقت باقی نہ رہی، آپ اٹھتے تھے اورسکت نہ پاکر گرپڑتے تھے عین اسی حالت میں سنان بن انس نے کھینچ کر ایسا کاری نیزہ مارا کہ فلکِ امامت زمین بوس ہوگیا، سنگدل اورشقی ازلی خولی بن یزید سر کاٹنے کے لئے بڑھا، لیکن ہاتھ کانپ گئے،تھراکے پیچھے ہٹ گیا اور سنان بن انس نے اس سرکو جو بوسہ گاہِ سرورکائناتﷺ تھا جسم اطہر سے جدا کرلیا۔ اور ۱۰ محرم الحرام ۶۱ھ مطابق ۶۸۱ء میں خانوادۂ نبوی کا آفتاب ہدایت ہمیشہ کے لئے روپوش ہوگیا اس شقادت اور سنگدلی پر زمین کانپ اٹھی، عرش الہی تھراگیا، ہوا خاموش ہوگئی،پانی کی روانی رک گئی،آسمان خون رویا،زمین سے خون کے چشمے پھوٹے ،شجر وحجر سے نالۂ وشیون کی صدائیں بلند ہوئیں ،جن وانس نے سینہ کوبی کی،ملائکہ آسمانی میں صف ماتم بچھی کہ آج ریاضِ نبویﷺ کا گل سرسبد مرجھا گیا،علیؓ کا چمن اجڑ گیا اورفاطمہؓ کا گھر بے چراغ ہوگیا۔ چوں خون زحلق تشنہ اوبرزمین رسید جوش از زمین بہ ذرہ در وعرش بریں رسید تحل بلند اوچوخساں برزمین زوند طوفان بآسمان زغبار زمین رسید باوآن غبارچوں بمزارِنبیﷺ رساند گرواز مدینہ برفلک،ہفتمین رسید کرواین خیال وہم غلط کار کان غبار تادامنِ جلال جہان آفرین رسید ہست ازملال گرچہ بری ذاتِ ذوالجلال اوردرولست وہیچ ولے نیست بے ملال